ریاست معیشت اور سیاست

سہیل وڑائچ

کوئی مانے نہ مانے مگر سچ یہ ہے کہ ریاست کو سیاست سے زیادہ معیشت کی فکر ہے ۔بڑی مشکل سے ڈ الر کی اڑان پر قابو پایا گیا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں پھر سے اتار چڑھائو اور زندگی کی رمق نظر آنا شروع ہو گئی ہے ،یہ کوشش بھی نظر آ رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح بیرون ملک سے سرمایہ کاری لائی جائے تاکہ ملکی معیشت کو سہارا مل سکے۔ ریاست بہت زور لگا کر معیشت کو سیدھا کرنے کی کوشش میں ہے مگر عدلیہ اور سیاست کے مختلف فیصلے اس کے راستے میں مزاحم ہو جاتے ہیں۔ ریاست کو کھلاڑی خان کی سیاست سے گلے شکوے تو ہیں ہی لیکن اس سے اصل خطرہ ان کو یہ ہے کہ اگر وہ آ گیا تو معیشت کا کیا بنے گا۔ ریاست سمجھتی ہے کہ کھلاڑی خان نے معیشت کے بارے میں جو فیصلے کئے وہ ملک کو تیزی سے ڈیفالٹ کی طرف لے جا رہے تھے اور اگر وہ ہٹائے نہ جاتے تو ملک کا حال سری لنکا یا کسی افریقی ملک جیسا ہو جاتا۔ ریاست کے معیشت کے حوالے سے ان تفکرات پر عدلیہ توجہ نہیں دے رہی اور سیاست پر ایسے فیصلے دی رہی ہے جس سے ریاست کو تشویش پیدا ہو رہی ہے اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ عدلیہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔


 سمجھنے سے قاصر ہے کہ عدلیہ ایسا کیوں کر رہی ہے؟


سائفر کیس پر سپریم کورٹ کے فیصلے نے ریاست کے ساتھ ساتھ نون خان اورجیالا خان دونوں کو بھی ناراض کیا ہے اور دونوں نے اس فیصلے پر بڑا سخت ردعمل دیا ہے، آنے والے دنوں میں بلے کے نشان والا مقدمہ اور کھلاڑی خان کی رہائی والا مقدمہ بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہوگا ،ان مقدمات کے حوالے سے بھی اگر سائفر کیس جیسے فیصلے آئے تو نون خان اور جیالا خان دونوں کا انتخابی مستقبل متاثر ہو گا اور ریاست کے منصوبے بھی ادھورے رہ جائیں گے ۔ آئندہ چند دن اس حوالے سے اہم ترین ہونگے، عدالت خان کی مجبوری بھی ہے اور فرض بھی کہ وہ آئین کو ملحوظ خاطر رکھے اور جس کے بھی حقوق متاثر ہوں اسے انصاف دے۔ریاست ،عدالت خان کی اس دلیل کو ردکر رہی ہے اور کہتی ہے کہ ملک کے معاشی مستقبل کو سامنے رکھ کر فیصلے ہونے چاہئیں۔


سیاست کے میدان میں بھی تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں، نون لیگ کے ایک اتحادی نے حال ہی میں ایک غیر معمولی طور پر بڑا سروے کروایا ہے جس کے مطابق مجموعی طور پر نون لیگ، تحریک انصاف سےووٹوں میں پانچ فیصد آگے ہے اور آنے والے دنوں میں یہ فرق اور بڑھنے کا امکان ہے، پنجاب کی دوبڑی خفیہ ایجنسیاں بھی وثوق سے یہ کہہ رہی ہیں کہ نون لیگ ووٹوں میں لیڈ کر رہی ہے تاہم ایک سکہ بند ایجنسی ان اندازوں سے اتفاق نہیں کرتی ،اس کا اب بھی کہنا ہے کہ الیکشن والے دن تحریک انصاف کا ناراض ووٹر باہر نکل کر سارے تخمینے غلط ثابت کر دے گا ۔ انتخابات کے حوالے سے حتمی غیر جانبدارانہ رائے ابھی ظاہر ہونا شروع نہیںہوئی ،توقع ہے کہ آنے والے ایک ہفتے کے اندر پوزیشن واضح ہونا شروع ہو جائے گی۔


گو لاہور میں ابھی تک دھند او رسموگ کا راج ہے لیکن نون خان کو یقین ہے کہ اقتدار اسکی جھولی میں گرنے والا ہے، نون خان کی خواہش ہے کہ اسے الیکشن میں کم از کم سادہ اکثریت ملے وہ مخلوط حکومت نہیں بنانا چاہتا ،اسے 16ماہ کی مخلوط حکومت کا تلخ تجربہ ہے اس لئے وہ اس سے بچنا چاہتا ہے ، نون خان کا خیال ہے کہ ملک کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کرنے کیلئے مقتدرہ اور حکومت کو مل کر دس سال محنت کرنا ہو گی ،اسکی رائے میں مقتدرہ تاریخ میں پہلی بار مثبت سوچ کی حامل اور دو ٹوک موقف رکھنے والی ہے، مقتدرہ کے سربراہ کی امانت اور دیانت مثالی ہے اور نون خان کو لگتا ہے کہ پہلی دفعہ مقتدرہ اور سیاست دان مل کر ملک کی ہچکولے کھاتی کشتی پار لگا سکتے ہیں۔ مستقبل کی حکومت کا نقشہ یوں بنایا جا رہا ہے کہ وزیر ا عظم نواز شریف کی وفاق میں معاونت شہباز شریف کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ وہ مقتدرہ کے ساتھ رابطے کا فریضہ بھی انجام دینگے۔ حمزہ اور مریم کے سیاسی مستقبل اور کردار کا فیصلہ نواز شریف کے ہاتھ میں ہے دیکھیں وہ کیا فیصلہ کریں گے؟


تحریک انصاف کے لوگ کاغذات نامزدگی جمع کروا رہے ہیں، کہیں کاغذات جمع ہو گئے ہیں اور کہیں پر انہیں روکا گیا ہے، توقع کرنی چاہئے کہ عدالتیں ان امیدواروں کو موقع فراہم کریں گی کہ وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں۔ تحریک انصاف شاید اپنے امیدواروں کے انتخاب میں اتنی محنت نہ کرسکے جتنی نون لیگ کر رہی ہے تحریک انصاف کو تو جو بھی امیدوار سکروٹنی کے بعد مناسب لگا اسے ہی اپنانا پڑے گا، لاہور میں زیادہ تر ٹکٹ وکلاء ہی کو ملنے کا امکان ہے لطیف کھوسہ، سلیمان اکرم ر اجہ اس حوالے سے فرنٹ رنر ہیں ۔نون لیگ نے قریبی رشتہ دار اور سہیل ضیاء بٹ کے اکلوتے صاحبزادے عمر سہیل ضیاء بٹ کو بھی صوبائی الیکشن لڑنے کا عندیہ دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوریاں ختم ہو گئیں، البتہ لاہور صدر کی صوبائی نشست پر شاہد شیخ کو الیکشن لڑوانے کے حوالے سے نون کے اندر بحث مباحثہ جاری ہے، تاحال خواجہ سعد رفیق مان نہیں رہے لیکن ان پر دبائو بہت ہے۔


اندرون سندھ اور کراچی کے حالات سے لگتا ہے کہ جیالا خان نے مقتدرہ سے اپنے معاملات کو درست کر لیا ہے اور اس طرح سے اس کو اندرون سندھ جو مشکلات پیش آ رہی تھیں وہ کافی حد تک دور ہو گئی ہیں ۔کراچی کے حوالے سے متحدہ کا اصرار ہے کہ اسے 14نشستوں پر ماضی میں اکثریت ملتی رہی ہے اس کا حق ہے کہ وہ ساری نشستیں اسے ملیں، نون خان کی بھی کراچی کی دو تین نشستوں پر نظر ہے جبکہ جیالا خان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس پہلے بھی پانچ نشستیں ہیں وہ مزید پانچ پر کامیابی حاصل کریں گے۔ سب پارٹیاں اپنی بندر بانٹ میں یہ بھول گئی ہیں کہ 2018ء میں یہاں سے پی ٹی آئی نے کافی نشستیں لی تھیں پختون علاقوں میں اب بھی اس کا اثر موجود ہے، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور وہاں کی صوبائی حکومت پی ٹی آئی کی ہی بنے گی صوبہ بلوچستان میں ہمیشہ سےہی مختلف الخیال اور کئی پارٹیاں نشستیں جیتتی ہیں، اب بھی ایسا ہی لگ رہا ہے وہاں ماضی کی طرح صوبائی مخلوط حکومت ہی بنے گی البتہ اگر وہاں بھی کوئی لہریا ہوا چل گئی تو نتائج مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔


کسی بھی ریاست کے معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے الیکشن کی گرما گرمی میں نہ تو نون خان مفاہمت کی بات سننے کو تیار ہے اور نہ ہی کھلاڑی خان کو سوٹ کرتا ہے کہ وہ کمزوری کا تاثر دے لیکن الیکشن کے بعد ماحول بدلنا چاہئے اور پارلیمینٹ کے اندر موجود سیاسی عناصر کو اتفاق رائے اور مصالحت کا راستہ اپنانا چاہئے کیونکہ ملک ہے تو سیاسی جماعتیں ہیں،معیشت ہے تبھی ملک چلے گا ،ریاست ہے تو ہی عوام کی فلاح وبہبود ممکن ہے جب تک سارے اسٹیک ہولڈرز جوش سے نکل کر ہوش کی طرف نہیں آتے اس وقت تک بحرانوں کا خاتمہ ممکن نہیں۔ گالیوں، انتقام اور محاذآرائی سے کبھی بھی ملک میں استحکام نہیں آئے گا ۔ریاست کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ آئین کی پاسداری میڈیا کی آزادی ، پارلیمان کی بالا دستی، سیاسی آزادیاں اور انسانی حقوق کی پیروی ہی ملک کو آگے لے جاسکتی ہے اور کوئی بھی راستہ اختیار کیا گیا تو ہم پیچیدہ راستوں پر کھو جائیں گے۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.