بچپن سے اسٹارٹ کریں
جاوید چوہدری
’’میں بچوں کے اسکول گیا‘ میرے اور میری بیوی کے شوز دہلیز پر اتروا لیے گئے‘ ہمیں دو دن قبل اسکول سے ہدایات ملی تھیں آپ اپنے ہائوس سلیپر ساتھ لے کر آئیں‘ ہم نے شوز اتارے اور اپنے سلیپر پہن لیے‘ ہم اندر گئے تو میں نے دیکھا میرا بیٹا اسکول کی سیڑھیاں صاف کر رہا تھا۔
میں پاکستانی کلچر میں پلا بڑھا تھا‘ میں نے بیٹے کو سیڑھیاں صاف کرتے دیکھا تو مجھے بہت برا لگا اور میں نے اپنی بیوی سے کہا‘ ہم اس اسکول کو اتنی بھاری بھاری فیسیں دیتے ہیں لیکن انھوں نے ہمارے بیٹے کو سویپر بنا دیا ہے‘ میری بیوی نے ہنس کر جواب دیا‘ جاپان کے ہر اسکول میں بچوں سے روزانہ چالیس منٹ صفائی کرائی جاتی ہے‘ میں بھی کرتی تھی اور ہمارے وزیراعظم اور وزراء بھی اور ملک کے تمام کھرب پتی بھی‘ یہ ہماری فرسٹ ٹریننگ ہوتی ہے۔
میں بہت حیران ہوا‘ میری بیوی نے بتایا‘ ہمارے اسکولوں میں صفائی کا عملہ نہیں ہوتا‘ گارڈن سے لے کر واش رومز تک اسٹوڈنٹس صاف کرتے ہیں اور اس میں کسی کو استثنیٰ نہیں‘ ہماری گفتگو جاری تھی کہ میری بیٹی بھی ہم سے ملنے آ گئی‘ وہ بھی اسی اسکول میں پڑھتی تھی‘ میں نے بیٹی سے پوچھا‘ تم کیا کر رہی تھی ؟
اس کا جواب تھا‘ ہماری کلاس کی ڈیوٹی واش رومز کی صفائی پر لگی تھی‘ میں چھ واش رومز دھو اور خشک کر کے آئی ہوں‘ میں نے بیٹی سے پوچھا‘ کیا آپ کو واش روم صاف کرتے ہوئے برا نہیں لگتا؟ اس نے ہنس کر جواب دیا‘ ہماری پرنسپل‘ ہماری تمام ٹیچرز اور ہمارا پورا اسکول صفائی کرتا ہے‘ ہم سب برابر ہیں‘ پھر ہمیں برا کیوں لگے گا؟ میں نے اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کانفرنس روم کی طرف چلا گیا۔
مجھے یہ واقعہ بھی عرفان صدیقی نے سنایا تھا‘ یہ چند دن کے لیے پاکستان آئے اور انھوں نے اپنی زندگی کے دو قیمتی دن مجھے عنایت کیے‘ ہم سارا دن گپ لگاتے رہے‘ ان کا کہنا تھا جاپان کے تمام اسکولوں میں صبح بچوں سے صفائی کرائی جاتی ہے‘ اس سے بچوں کو صفائی کی عادت پڑ جاتی ہے اور یہ بڑے ہو کر بھی اس کا خیال رکھتے ہیں۔
ہمارے دفتروں میں بھی ملازمین صبح آکر اپنی میز‘ کرسی‘ کمرہ اور واش روم صاف کرتے ہیں اور پھر کام شروع کرتے ہیں‘ یہ چھٹی کے وقت گھر جانے سے پہلے بھی صفائی کرتے ہیں‘ گھر پہنچ کریہ اپنا گھر‘ کچن اور واش روم بھی صاف کرتے ہیں‘ میں نے شروع میں ایک سافٹ ویئر کمپنی میں جاب کی‘ میرا چیئرمین بلین ڈالر کی کمپنی چلا رہا تھا لیکن وہ خود اپنے ہاتھ سے ورکرز کے واش رومز صاف کرتا تھا‘ اس کی بیگم بھی ہمارے آفس میں جاب کرتی تھی‘ وہ بھی پورا دفتر صاف کرتی تھی اور ان دونوں میاں بیوی کو ذرا برابر شرمندگی نہیں ہوتی تھی۔
آپ جاپان میں کسی دفتر‘ کسی پارک یا کسی گھر میں چلے جائیں‘ آپ کو ہر چیز صاف ستھری اور سلیقے میں دکھائی دے گی اور یہ سلیقہ اور صفائی لوگ کرتے ہیں‘ ٹوتھ برش سے کونوں کھدروں تک سے مٹی نکالتے ہیں‘ مجھے اسٹورز میں صفائی کے سامان کے ریکس دیکھنے کا اتفاق ہوا وہاں 36 قسم کے چھوٹے بڑے برش تھے‘ کتابوں کے ریکس صاف کرنے والے برش الگ تھے اور پردوں کی ریلنگ اور کموڈ کور صاف کرنے والے برش الگ‘ ایک ریک میں فرش اور کپڑوں سے بال نکالنے والے آلات تھے۔
اب سوال یہ ہے جاپانی لوگوں میں یہ صفائی اور یہ سلیقہ کہاں سے آتا ہے؟ یہ بچپن میں اسکول کی ٹریننگ سے کشید ہوتا ہے‘ قومیں ماں کی گود اور اسکول سے جنم لیتی ہیں اگر ماں کی گود صاف ستھری‘ اچھی اور مہذب نہیں ہو گی تو بچہ بھی مہذب‘ اچھا اور صاف ستھرا نہیں ہو گااور یہ بڑا ہو کر ماحول میں گند ڈالے گا‘ ماں کے بعد اسکول ہماری پرورش گاہ ہوتے ہیں‘ وہاں بھی اگر بچوں کو ماحول دوستی کی تربیت نہیں ملتی تو پھر بچے بڑے ہو کر وہی کرتے ہیں جو اس وقت پورے ملک میں ہو رہا ہے۔
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے صفائی کو آدھا ایمان قرار دیا لیکن اس حکم کے باوجود ہماری مسجدوں میں بھی گرد ہوتی ہے‘ وضو خانوں اور واش رومز کے قریب سے نہیں گزرا جا سکتا‘ وضو کے پانی کے اثرات امام صاحب کی جائے نماز تک نظر آتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم نے لوگوں کو صفائی کی ٹریننگ ہی نہیں دی‘ ہم انھیں ’’نصف ایمان‘‘ کی حدیث تو سناتے رہتے ہیں لیکن انھیں اپنے ہاتھ سے صفائی کر کے نہیں دکھاتے چناں چہ یہ بڑے ہو کر سڑک سے لے کر مسجد تک گند ڈالتے رہتے ہیں جب کہ ہمارے مقابلے میں سکھوں کے گردوارے صاف ہوتے ہیں۔
گردواروں کا سہرہ میاں میرؒ کے سر جاتا ہے‘ گرونانک حضرت میاں میرؒ کے شاگرد تھے‘ حضرت صاحب اپنے ہاتھ سے اپنی مسجد اور درگاہ کی دہلیز صاف کرتے تھے‘ شاگردوں نے استاد کی عقیدت میں درگاہ کی دہلیز صاف کرنا شروع کر دی‘ گرونانک مسلمان شاگردوں سے ایک قدم آگے نکل گئے‘ یہ دہلیز پر بیٹھ کر عقیدت مندوں کے جوتے صاف کر دیتے تھے یہاں سے سکھ مت میں گردوارے کی دہلیز اور زائرین کے جوتوں کی صفائی کی روایت شروع ہو گئی۔
آپ آج کسی گردوارے میں چلے جائیں آپ کو ارب پتی سکھ اور ان کے خاندان ہاتھ سے فرش پر پوچا مارتے اور باہر بیٹھ کر دوسروں کے جوتے پالش کرتے نظر آئیں گے جب کہ ہم لوگ وضو کے پانی اور اپنے کموڈ کی صفائی کے لیے بھی سویپر کو آواز دیتے ہیں چناں چہ آج پورا ملک گندستان بن چکا ہے‘ لاہور اور کراچی میں سانس تک نہیں لی جا سکتی۔
وزیراعلیٰ پنجاب اسموگ کا مقابلہ کرنے کے لیے ائیر فلٹریشن ٹاورز لگانا چاہتے ہیں‘ میرا دعویٰ ہے آپ لاہور میں لاکھ یونٹ بھی لگا دیں تو بھی اسموگ ختم نہیں ہو گی کیوں کہ پورا لاہور گند‘ اسموگ اور گرد پھیلانے کی فیکٹری ہے اور اگر ڈیڑھ کروڑ لوگ روزانہ گرد اڑائیں گے تو لاکھ یونٹ بھی اس گند کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے‘ ہم اگر ملک کو رہنے کے قابل بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں لوگوں کو بچپن سے ٹریننگ دینا ہو گی‘ صفائی کو اسکولوں میں مکمل ایمان کا درجہ دینا ہوگا پھر کہیں جا کر ہمارے گھر‘ دفتر‘ سڑکیں‘ گلیاں‘ ندی نالے‘ دریا‘ سمندر اور فضا صاف ہو گی۔
ہمیں اس کا آغاز مدارس‘ مساجد اور تبلیغی جماعت کے اجتماعات سے کرنا چاہیے‘ میں تبلیغی جماعت کی ورکنگ اور رسائی سے بہت متاثر ہوں‘ یہ لوگ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں‘ یہ اگر اپنے سلیبس میں صفائی کو عملاً آدھا ایمان مان لیں اور لوگوں کو ٹریننگ دینا شروع کر دیں تو پورا ملک بدل جائے گا‘ اسی طرح اگر پرائیویٹ اسکول‘ کالجز اور یونیورسٹیاں جاپانی ماڈل پر چلی جائیں‘ یہ اپنے عملے اور طالب علموں کو کیمپس کی صفائی کا کام سونپ دیں۔
روزانہ صبح آدھا گھنٹہ بچوں سے صفائی کرائیں اور اس میں واش رومز کی صفائی بھی شامل ہو تو یہ قوم دس پندرہ برسوں میں تبدیل ہو جائے گی اور اس کے بعد سرکاری اور غیر سرکاری دفتر بھی یہ قدم اٹھائیں‘ یہ اپنے لوگوں سے صبح صفائی کرایا کریں۔
سیکریٹری صاحب اپنی لفٹ یا اپنا ٹیبل خود صاف کیوں نہیں کرتے اور وزیر کو اپنا واش روم صاف کرتے ہوئے کیا موت پڑ جاتی ہے؟ ہم پوری دنیا کو بتاتے پھرتے ہیں ہمارے رسولؐ اپنا جوتا خود گانٹھ لیا کرتے تھے‘ اپنے کپڑے خود دھوتے تھے اور اپنا فرش اور اپنا بستر خود صاف کرتے تھے اور اپنے مہمانوں کی گندگی اپنے دست مبارک سے صاف کرتے تھے مگر ہمیں میز صاف کرنے کے لیے بھی سویپر چاہیے‘ ہم اپنے جوتے بھی خود صاف نہیں کر سکتے اور ہمارے وضو کے چھینٹے بھی کوئی اور صاف کرے‘ کیوں؟ کیا نعوذ باللہ ہم اپنے رسولؐ سے بڑے ہیں اور کیا ہم دس پندرہ بیس لاکھ روپے اور دو چار گریڈ کے بعد خلائی مخلوق بن جاتے ہیں؟۔
میں چند دن پہلے اپنے دفتر گیا تو اس کی دہلیز پر سالن گرا ہوا تھا‘ سیکیورٹی گارڈ قریب کھڑا تھا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’یہ کس نے گرایا؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’مجھ سے سالن کی پلیٹ گر گئی‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر آپ نے اسے صاف کیوں نہیں کیا؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’میں نے صفائی والا لڑکا بلایا ہے ‘وہ تھوڑی دیر میں آ جائے گا‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا ’’سالن آپ نے گرایا اور صفائی کوئی اور کرے گا‘‘ میں نے اس کے بعد جیب سے ٹشو پیپر نکالے اور دہلیز پر بیٹھ کر صفائی شروع کر دی‘ گارڈ سمیت تین لوگوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا‘ میں نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور صفائی کرتا رہا مگر وہ مجھے روکتے رہے۔
میں نے ان سے کہا ’’ آپ بھی کمال لوگ ہیں‘ آپ خود بھی صاف نہیں کر رہے اور دوسرے کو بھی نہیں کرنے دے رہے‘‘ اس دوران سویپر آ گیا‘ میں نے اس کے ہاتھ سے وائپر لیا اور پوری دہلیز صاف کر دی‘ اس سارے عمل میں ایک منٹ لگا‘ میں یہ کام تیس سیکنڈز میں مکمل کر سکتا تھا اگر وہ لوگ میرا ہاتھ نہ پکڑتے‘ آخر میں سویپر میرے گھٹنے پکڑ کر بیٹھ گیا‘ اس کا خیال تھا اس کی نوکری چلی جائے گی‘ میں نے ہنس کر اسے اٹھایا اور کہا‘ بیٹا اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ‘ یہ بنیادی طور پر سالن گرانے والے کی ذمے داری تھی‘ بہرحال صفائی تم نے کی یا میں نے کر دی کیا فرق پڑتا ہے؟
صفائی بہرحال ہونی چاہیے تھی اور یہ ہو گئی‘ آپ اس سے مائینڈ سیٹ کا اندازہ کر لیجیے‘ سیکیورٹی گارڈ کو بھی سالن گرانے کے بعد صفائی کے لیے سویپر چاہیے‘ یہ بھی سالن صاف کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے‘ آپ اس سے اس معاشرے کا اندازہ کر لیجیے جس میں صفائی کو آدھا ایمان ہونا چاہیے تھا اور ہم اس گندے مائینڈ سیٹ کے ساتھ خود کو دنیا کی عظیم قوم کہتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں