آصف زرداری کا وار اور بلوچستان کی پکار!!!!

محمد اکرم چوہدری 

سابق صدر آصف علی زرداری سے سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی کراچی میں ہونے والی طویل ملاقات میں موجودہ سیاسی حالات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ملاقات میں آئندہ انتخابات اور سندھ کی سیاست سمیت دیگر معاملات پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ بہت دلچسپ بات یہ ہے کہ بتایا جاتا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور فیصل واوڈا کے مابین ہونے والی یہ ملاقات طویل تھی لیکن اس طویل ملاقات کے حوالے سے خبر صرف یہی سامنے آئی ہے کہ دونوں کی ملاقات ہوئی ہے اور سیاسی معاملات زیر بحث آئے ہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا دلچسپی ہو گی کہ فیصل واوڈا کسی سے ملیں اور آصف زرداری جیسی شخصیت سے ملاقات ہو اور خبر صرف یہ ہو کہ ملاقات ہوئی ہے۔ ویسے ملاقات سے زیادہ دونوں کی تصویر زیر بحث ہے اور یہی بنیادی چیز ہے، کون کب کہاں کیسے موجود ہوتا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی یہ تصویر عقلمندوں کے لیے ہے، وہ جو سیاسی میدان کے کھلاڑی ہیں، برسوں سے اس میدان میں کھیل رہے ہیں، وہ جو آئندہ عام انتخابات پر کام کر رہے ہیں، ان سب کے لیے یہ پیغام ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری وہیں کھڑے ہیں جہاں سے انہیں سیاسی طور پر آگے بڑھنے کا راستہ مل سکتا ہے،  اسی طرح سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا بھی وہیں آ جا رہے ہیں جہاں سے ان کا سیاسی مستقبل بہتر ہو سکتا ہے، ممکن ہے فیصل واوڈا پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں فائدہ بھی ہو گا کیونکہ ان کی سیاست جس علاقے سے ہے وہ اس علاقے کی ایک مقبول جماعت کا حصہ بن سکتے ہیں اور انہیں اس کا فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس سارے معاملے میں کمال آصف زرداری کا ہے کیونکہ وہ کچھ دن خاموش رہتے ہیں پھر اچانک سے ایک بیان یا ایک ملاقات سے ملکی سیاست بارے ہونے والی بحث کا رخ بدل دیتے ہیں۔ یہ ملاقات اور تصویر جہاں جہاں پہنچنا تھی پہنچ چکی اور جس جس پر جیسے اثر کرنا تھا کر بھی چکی ہو گی۔ اس معاملے زرداری صاحب کو دیگر سیاست دانوں پر برتری ہے۔ وہ جوڑ توڑ اور بہتر سیاسی حکمت عملی کے معاملے میں مختلف انداز اپناتے ہوئے سیاسی حریفوں کو سیاسی دوستوں میں بدلنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔ یہ سب انہوں نے ایک ایک مرتبہ پھر فیصل واوڈا کے ساتھ ملاقات اور مختلف انداز میں تصویر کے ذریعے کیا ہے۔ چند روز گذرے ہیں سابق صدر بلوچستان بھی گئے تھے وہاں بھی انہوں نے بلوچوں کو اتحاد کا پیغام دیا، بلوچستان کی ترقی کے حوالے سے بات کی اور یہ بھی کہا کہ میں ان سب کو قابو کر لوں گا۔

پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کہتے ہیں کہ "بلوچستان کو پہلے سے دس گنا بہتر بنائیں گے، ہم بلوچستان کے غم کو سمجھتے ہیں۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں بلوچستان پاکستان کا دل ہے۔ مجھ سے غلطی ہوگئی بلوچستان کو پراجیکٹ دیئے لیکن پراجیکٹ بارے فالواپ نہیں رکھا، اس دفعہ بلوچستان کے پراجیکٹس پر نظررکھوں گا، بلوچستان کی زمین ایسی ہے اگر کوئی ہاتھ ڈالے تو سونا نکل سکتا ہے،تاجکستان سے پانی لا کر بلوچستان کو دوں گا، بلوچستان کی سرزمین سے پوری دنیا میں ایکسپورٹ کر سکتا ہوں، ہم ایسی جگہ سے پانی لائیں گے کوئی روک بھی نہیں سکے گا۔بلوچستان کے لوگ پیار چاہتے ہیں، دھرتی کہتی ہے میرے ساتھ پیار کرو میں تمہارے ساتھ پیار کروں گی۔ اگر صوبوں کو حقوق دینا میرا جرم ہے تو چوبیس سال مزید جیل کاٹ لوں گا۔ سیاست میری مجبوری ہے شہیدوں کا مجھ پر قرض ہے، بلوچستان سب سے پہلے ہے باقی صوبے بعد میں ہیں۔ چاہتا ہوں بھٹکے ہوئے بلوچ نوجوان واپس آئیں ان کی خدمت کریں گے، بلاول اور بلوچستان کے نوجوان ہمارا مستقبل ہیں۔ ہر ڈویڑن میں یونیورسٹی بنائیں گے، بلوچستان میرا ساتھ دے باقی میں ان سب کو سنبھال سکتا ہوں پاور میں آئیں گے تو سب سے پہلے بلوچستان کو بنائیں گے۔" 

ویسے تو اس وقت سارے پاکستان کو توجہ کی ضرورت ہے لیکن بالخصوص بلوچستان کو سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، وہاں زندگی کی بنیادی سہولیات کا ہونا بہت اہم ہے، بلوچستان کے لوگوں کا طرز زندگی بلند ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے، جب تک مقامی لوگوں میں احساس محرومی کو ختم نہیں کیا جائے گا، ہم انہیں اپنے ساتھ کھڑا نہیں کریں گے، جب تک ہم انہیں اعتماد نہیں دیں گے، وسائل خرچ نہیں کریں گے اس وقت تک ہم ان کا دل بھی نہیں جیت سکتے، بلوچستان کے معاملے میں ہمیں بیانات کے بجائے عملی اقدامات کی طرف بڑھنا ہو گا۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں بنتی تب بھی بلوچستان کے معاملے میں آصف علی زرداری کے تجربے اور وڑن سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ ہم بھٹکے ہوئے بلوچ جوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے خواہش مند تو ہیں لیکن بلوچ جوانوں کو بھٹکنے ہی کیوں دیتے ہیں، ہم کیوں اپنے دشمن کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ہمارے نوجوانوں کے احساس محرومی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرے۔ کاش ہم بگاڑ کی جڑ تک پہنچ کر اس کا علاج کرنے پر توجہ دیں۔ یہ بلوچستان کی پکار ہے، ہمیں متحد ہو کر اس اہم ترین مسئلے پر کام کرنے کی ضرورت ہے، سابق صدر آصف علی زرداری نے یہ کہا ہے کہ انہوں نے بلوچستان کو منصوبے دیے لیکن اس پر نگاہ نہیں رکھ سکے یہ غلطی انہوں نے تسلیم تو کی لیکن انہیں یہ ضرور کرنا چاہیے کہ ان منصوبوں کی تفصیل عوام کے سامنے رکھیں اور بعد میں آنے والے حکمرانوں سے پوچھیں کہ ان منصوبوں کا کیا بنا، وہ منصوبے کیوں نظر انداز ہوئے، کون اس کا ذمہ دار ہے۔ یہ کام ضرور ہونا چاہیے کیونکہ جس نے بھی بلوچستان کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ پیدا کی ہے اس نے پاکستان کا نقصان کیا ہے۔ 

آخر میں سعد اللہ شاہ کا کلام

ہر دِن ہے محبت کا ، ہر رات محبت کی

ہم اَہلِ محبت میں ، ہر بات محبت  کی

سینوں میں اْترتے  ہیں ، اِلہام محبت کے

آنکھوں سے برستی ہے، برسات محبت کی

ہم دَرد  کے ماروں کا ، اتنا سا  حَوالہ ہے

تنہائی  ہے گھر  اپنا ، اور ذات محبت کی

دولت کے خْداؤں نے ، دیکھی ہی نہیں شاید

دامن  میں غریبوں کے ، بہتات محبت کی

اِن خاک نشینوں سے ، رونق ہے زمانے کی

جو بانٹتے پھرتے ہیں ، خیرات محبت کی

ہوتی  ہے مکمل یہ ایمان بہر صورت

کیا جیت محبت کی ، کیا مات محبت کی

ہم  لوگ اْٹھا لیں گے ، ہر بوجھ اذیّت کا

ہم لوگ سَمیٹیں گے ، سَوغات محبت کی

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.