باوقار پاکستانی ریاض کھوکھر کی رحلت

نصرت جاوید

کچھ شخصیات زندگی سے اتنی بھرپور ہوتی ہیں کہ ان کے ساتھ گزرے لمحوں کو یاد کرتے ہوئے آپ موت کا تصور ہی بھلادیتے ہیں۔ریاض کھوکھر صاحب بھی ایسے ہی ایک فرد تھے۔منگل کے روز ان کے انتقال کی خبر آئی تو دل بیٹھ گیا۔ ذہن میں امڈے یادوں کا انبار ریاض صاحب کی وجاہت وتوانائی کو ناقابل تسخیر ہی محسوس کرتا رہا۔آخری ملاقات ان سے توانائی سے سرشار ایک اور دوست سینیٹر انور بیگ کی رسم قل کے موقعہ پر ہوئی تھی۔ ریاض صاحب کے خون میں ایک جان لیوا مرض نقب لگاچکا تھا۔وہ اس سے محفوظ رہنے کے لیے ہر چھ ماہ بعد ایک دو روز ہسپتال میں رہ کر علاج کروانے کو مجبور تھے۔ طبیبوں نے کامل آرام کا حکم دے رکھا تھا۔ وہ مگر دوستوں کی نماز جنازہ اور دیگر رسومات میں ہر صورت شریک ہوتے۔انور بیگ صاحب کے ہاں انھیں دیکھ کر میں نے گلہ کیا تو برجستہ مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ایک دن مجھے بھی تو چلے جانا ہے۔’میرے جنازے میں کون شریک ہوگا؟‘ان کے شکست خوردہ لہجے نے مجھے پریشان کردیا۔ گھر لوٹنے تک ان کی آواز میرے ذہن میں گونجتی رہی او چہرے پر اداسی کوچھپاتی مسکراہٹ بھی۔

1990ء کی دہائی میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی نے شدت پکڑی۔ ہمارے ’دی نیشن ‘کے اسلام آباد بیورو کا سربراہ ہوتے ہوئے میں اس تحریک پر تفصیلی رپورٹنگ پر بھی توجہ دینے لگا۔ریاض صاحب سے اس وقت تک میری رسمی شناسائی تھی۔ میری دی کوئی خبر یا کالم پڑھتے تو ٹیلی فون پر مختصر گفتگو کے ذریعے چند نکات کی طرف توجہ دلاتے جو ان کی دانست میں مجھے ذہن میں رکھنا چاہیے تھے۔ بعدازاں کسی سفارتی تقریب میں ملاقات ہوجاتی تو مجھے دیکھتے ہی ایک کونے میں لے جاکر آٹھ دس فقروں میں ہماری خارجہ پالیسی کے چند اہم پہلو میرے ذہن میں بٹھادیتے۔اس کے علاوہ وہ اس بات پر بھی مصر رہتے کہ انگریزی اخبار کا رپورٹر ہوتے ہوئے مجھے پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ پبلک کیے مشترکہ اعلامیوں کا متن بہت غور سے پڑھنا چاہیے۔ ان کی بدولت میں یہ جان پایا کہ ’مشترکہ اعلامیوں‘ میں جو سفارتی زبان استعمال ہوتی ہے وہ درحقیقت ’کوڈ‘ کی مانند ہے۔ صحافی اگر اس کا مفہوم درست انداز میں جان لے تو ’مشترکہ اعلامیوں‘ کا متن غور سے پڑھتے ہوئے کئی ایسی ’خبریں‘ ڈھونڈ سکتا ہے جو ریاستیں خلق خدا سے چھپانا چاہ رہی ہوتی ہیں۔

اپنے کیرئیر کے ابتدائی ایام میں ریاض صاحب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دفتر میں واقع فارن آفس سے ڈیل کرنے والے ڈیسک سے وابستہ رہے تھے۔ اس کی بدولت جوانی ہی میں پاک-بھارت تعلقات کی الجھنوں سے بھرپور آشنائی میسر ہوگئی۔ بھٹو اور اندرا گاندھی کے مابین ہوئے ’شملہ معاہدے‘ کی اس کے متن کی بنیاد پر تشریح ان سے بہتر انداز میں کسی سفارت کار سے میں نے نہیں سنی۔1990ء کی دہائی میں تیز تر ہوئی تحریک آزادی کشمیر کے دوران ہی وہ نئی دہلی میں ہمارے سفیر بھی تعینات ہوگئے تھے۔ بھارتی میڈیا یکسوہوکر پاکستان کو کشمیر میں ’تخریب کاری‘ پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراتا تھا۔ ریاض صاحب اس کے رپورٹروں سے خوفزدہ رہنے کے بجائے ہر ایک کو ’آن دی ریکارڈ‘ جواب دینے کو ہمہ وقت آماد ہ ہوتے۔ ان کی جی داری سے میںنے کئی نامور بھارتی صحافیوں کو ان کے روبرو گھبراتے ہوئے پایا۔ 

ریاض صاحب کو عموماً پاکستانی سفارت کاروں کے اس گروہ کا ’سرخیل‘ قرار دیا جاتا تھا جو مبینہ طورپر بھارت سے ’معمول کے‘ سفارتی اور تجارتی تعلقات بھی استوار کرنا نہیں چاہتا۔ ان کے ساتھ طویل ملاقاتوں(جن میں سے بے شمار کامل تنہائی میں بھی ہوئیں) کی بدولت میں اعتماد سے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ وہ مذکورہ تناظر میں ’انتہا پسند‘ نہیں تھے۔اپنے کیرئیر کے ابتدائی ایام میںذوالفقار علی بھٹو اور آغا شاہی کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہ سیکھا تھا کہ سفارت کاری اس امر کا تقاضا نہیں کرتی کہ آپ امریکہ اور بھارت جیسے بڑے اور طاقت ور ممالک کا دل جیتنے کے لیے خود کو بے بس ومجبور تصور کرتے ہوئے غلاموں کی طرح سرجھکائے چلے جائیں۔کامیاب ترین سفارت کاری بلکہ اس امر کی متقاضی ہے کہ اگر آپ کے ہاتھ میں ’کمزور پتے‘ بھی ہیں تو دوسرے فریق کو مذاکرات میں الجھانے کے بعد آپ کوئی باوقار درمیانی راستہ تلاش کریں۔ حقیقت پسندی نے درحقیقت انھیں ہمیشہ انتہا پسندی سے محفوظ رکھا۔

سفارت کاری میں اہم ترین Posturing بھی ہوتی ہے۔ کاش میں اس کا اردو متبادل ڈھونڈ سکتا۔ آسان ترین الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ یہ اس رویے اور بدن بولی وغیرہ کے لیے استعمال ہوئی اصطلاح ہے جو آپ ’غیروں‘ کے روبرو اختیار کرتے ہیں۔ریاض صاحب اس تناظر میں ہمیشہ باوقار نظر آنے کو ترجیح دیتے جسے عموماً انھیں ’انتہا پسند‘ ٹھہرانے کا جواز بنایا جاتا۔

بھارت اور امریکہ میں وہ انتہائی مشکل دنوں میں ہمارے سفیر رہے تھے۔ بھارت کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو انھیں واشنگٹن میں کڑا وقت دیکھنا پڑا۔ اس کے بعد کارگل ہوا تو ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ریاض صاحب کو مگر ان دنوں میں نے ایک لمحے کو بھی گھبرائے ہوئے نہیں دیکھا۔ان کے کیرئیر کا سب سے مشکل مرحلہ وہ تھا جب جنرل مشرف کے دنوں میں وہ وزارت خارجہ کے سیکرٹری ہوئے۔ اتفاق یہ بھی ہوا کہ 2002ء کے انتخابات کے بعد وزارت خارجہ کے منصب پر خورشید قصوری صاحب فائز ہوگئے۔ خورشید صاحب بھی میرے شفیق ترین دوستوں میں شامل ہیں۔ریاض کھوکھر صاحب سے بطور رپورٹر میں کافی قریب اور بے تکلف ہوچکا تھا۔ لطیفہ یہ بھی ہے کہ خورشید صاحب اور ریاض کھوکھر زمانہ طالب علمی سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ 2002ء کے بعد مگر وزیر خارجہ خورشید قصوری اور سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر کے مابین تناؤ نمودار ہونا شروع ہوگیا۔ خورشید صاحب بھارت کے ساتھ تعلقات کو تیز تر بنیادوں پر بہتر بنانا چاہتے تھے۔ کھوکھر صاحب کا رویہ ’ٹھنڈی کرکے کھاؤ‘ والا تھا۔ان دونوں کا دل سے مداح ہوتے ہوئے میں طے ہی نہ کرپاتا کہ ان میں سے کس کا کھل کر ساتھ دوں۔خارجہ امور پر رپورٹنگ سے لہٰذادل میں بیٹھے بزدل نے کنی کترانا شروع کردی اور توجہ سیاسی کالم لکھنے پر مرکوز کردی۔ 

پاک-بھارت تعلقات کے تاہم چند پہلو ایسے ہیں جنھیں میں پیشہ وارانہ مجبوریوں کی وجہ سے نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔ ان دنوں ویسے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان ’بیک ڈور‘ رابطوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔مجھے اس عمل میں شامل افراد تک رسائی میسر تھی۔ ’کوتاہی‘ مذکورہ تناظر میں پیشہ وارانہ غفلت نہیں بلکہ ’گناہ‘ شمار ہوتی۔

پاکستان اور بھارت کے مابین بیک ڈور رابطوں کے حوالے سے پیش رفت پر میں جب بھی رپورٹ کرتا تو ریاض صاحب فون کرکے ملاقات کا حکم دیتے۔ تنہائی میں بیٹھے سرعت سے سمجھاتے کہ جو عمل جاری ہے وہ کن بنیادوں پر ’دیرپا‘ ثابت نہیں ہوگا۔ ان کے انتقال کے بعد اعتراف کرنا ہوگا کہ وہ بالآخر درست ہی ثابت ہوئے۔

اخباری کالم میں ریاض صاحب جیسی شخصیت کا جامع انداز میں ذکر ممکن نہیں۔ ایک قصہ سنانا مگر لازمی ہے۔6جنوری 2004ء کی سہ پہر تھی۔ بھارتی وزیراعظم واجپائی ان دنوں سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آیا ہوا تھا۔ سارک کانفرنس ختم ہوگئی تو وہ جنرل مشرف سے ملاقات کے لیے ایوان صدر اپنے وفد کے ہمراہ چلا گیا۔ افواہ پھیل گئی کہ واجپائی کی صدر مشرف سے ملاقات کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان ’اہم سمجھوتے‘ کا اعلان ہوگا۔ مذکورہ افواہ کو تقویت پہنچانے ہم رپورٹروں کو اسلام آباد کے ایک ہوٹل بلالیا گیا جہاں وزیر خارجہ خورشید قصوری کی پریس کانفرنس متوقع تھی۔

میں جب ہوٹل میں داخل ہوا تو اس کے لاؤنج میں ریاض صاحب کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اپنی حیرانی پر قابو پانے کے لیے پنجابی زبان میں پھکڑپن سے انھیں ’اطلاع‘ دی کہ وہ وزارت خارجہ کے سیکرٹری ہیں۔ انھیں تو اس وقت ایوان صدر موجود ہونا چاہیے تھا جہاں مشرف-واجپائی ملاقات جاری ہے۔ میری بات میں چھپے طنز کو وہ نظرانداز کرگئے۔ دریں اثناء بھارتی وزارت خارجہ کے سیکرٹری اسی ہوٹل کے لاؤنج میں نمودار ہوئے۔ ریاض صاحب اسے دیکھتے ہی دائیں بائیں ہوگئے۔ بھارتی افسر لاؤنج سے سیدھا لفٹ کے ذریعے اسی ہوٹل کی چھت پر چلا گیا۔وہاں بھارتی صحافی اس کے منتظر تھے۔ بھارتی صحافیوں کو مذکورہ افسرنے مشرف اور واجپائی کے مابین ہوئے معاہدے کا متن فراہم کردیا۔

مجھے یہ خبر ملی تودو بھارتی صحافیوں سے میں نے اس معاہدے کے متن کی کاپی حاصل کرلی۔ اسے لے کر نیچے آیا تو ریاض صاحب کو دیکھ کر معاہدے کا متن ان کے حوالے کردیا اور انھوں نے اس کا تیسرا پیرا پڑھتے ہی اپنے ماتھے پر زور سے ہاتھ مارا۔ میں پریشان ہوا تو ہذیانی کیفیت سے مغلوب ہوئے اپنی انگلی متن میں شامل اس سطر کے ایک ایک لفظ پر مارتے رہے جس میں صدر پاکستان نے بھارتی وزیر اعظم کو ’یقین دلایا تھا کہ پاکستان کی سرزمین بھارت میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی‘۔ ریاض صاحب غصہ سے مجھ پر چیختے ہوئے یہ کہہ کر دل کی بھڑاس نکالتے رہے کہ یہ ’معاہدہ امن کے الفاظ نہیں۔ اعتراف جرم ہے۔ کاش کسی نے مجھے بھی پوچھ لیا ہوتا‘۔ اس دن ریاض صاحب نے خود کو جس انداز میں بے بس ودکھی محسوس کیا میں اس کی شدت کو کبھی نہیں بھول پایا۔ اس کالم کے لیے اسے لکھتے ہوئے میرے ہاتھ تھرتھرارہے ہیں۔ریاض صاحب انتہاپسند نہیں اپنے وطن سے محبت کرنے والے باوقار پاکستانی تھے جن کے ہوتے ہوئے مجھ جیسے افراد خود کو محفوظ اور باخبر محسوس کرتے تھے۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.