چکوال میں کل پی ٹی آئی کے ساتھ کیا ہوا؟

✍ نبیل انور ڈھکو

تیس دسمبر کو ملک میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جس طرح مسترد کیے گئے یہ امر کوئی حیرانکن نہیں بلکہ متوقع تھا۔ پی ٹی آئی کے خلاف نو مئی سے ایک کریک ڈاون جاری ہے اور پارٹی کو دیوار کے ساتھ لگایاجا چکا ہے۔ لیکن کل پی ٹی آئی کے امیدواروں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا کریڈٹ پی ٹی آئی کے مخالفین کو کم اور اس کے امیدواروں اور ان کے وکلا کو زیادہ جاتا ہے۔ 


آپ چکوال اور تلہ گنگ کی مثال لے لیں جہاں قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے چار حلقوں سے پی ٹی آئی کے تمام فرنٹ لائن کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے۔ ان امیدواروں میں این اے اٹھاون سے ملک کے ممتاز صحافی اور سابق ایم این اے ایاز امیر،  پی پی بیس سے ضلعی صدر چوہدری علی ناصر بھٹی اور سابق ایم پی اے اعجاز حسین فرحت، پی پی اکیس سے راجہ طارق کالس، این اے انسٹھ سے پی ٹی آئی کے مرکزی صدر چوہدری پرویز الہی اور ان کی اہلیہ قیصرہ الہی، پی پی بائیس سے سابق ایم این اے فوزیہ بہرام اور پی پی تئیس سے سابق صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر شامل ہیں۔ 


چکوال کے چھپڑ بازار کے ریڑھی بانوں اور تلہ گنگ کی چراگاہوں میں بکریاں چرانے والوں کو بھی یہ معلوم تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کاغذات کی جانچ پڑتال کے مرحلے میں اڑا دیا جائے گا۔ لیکن اس نوشتہ دیوار کو نہ پڑھ سکے تو فقط پی ٹی آئی کے امیدوار اور ان کے وکلا۔ یہ مانا کہ ان کے ساتھ سازش ہوئی ہے۔ لیکن حریفوں سے آپ اور کیا توقع کر سکتے ہیں اور وہ بھی ان حالات میں جب پی ٹی آئی کے امیدواروں کی گردن مروڑنے کے نت نئے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں؟ آپ کے حریف آپ کو چت کرنے کے لیے کوئی چال نہ چلتے تو کیا آپ کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالتے؟ الیکشن ایک سیاسی جنگ ہوتی ہے اور جنگ میں آپ کا حریف کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ ان حالات کے باوجود نہ صرف پی ٹی آئی کے امیدواروں اور ان کے نالائق وکلا نے  کاغذات نامزدگی پر کرنے میں ٹیکنیکل غلطیاں کیں بلکہ اپنے مخالف امیدواروں خاص طور پر مسلم لیگ ن کے امیدواروں میں سے کسی ایک کے خلاف کوئی ایک اعتراض تک جمع نہ کروایا۔ 


اگر پی ٹی آئی کے امیدوار اور ان کے وکلا اپنے حریف امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں سے نقص نکالنے کی کوشش کرتے تو کئی ایسے نقاط انہیں مل جاتے جن کی بنیاد پر وہ بھی اپنے حریفوں کے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات لگا سکتے تھے۔ بعض صورتوں میں ایسے اعتراضات بھی سامنے آ سکتے تھے جو پی ٹی آئی کے امیدواروں کے خلاف لگائے جانے والے اعتراضات سے کہیں زیادہ سنگین ہوتے۔ ایسی صورتحال میں ریٹرننگ افسران کے لیے یہ ممکن ہی نہ رہتا کہ صرف پی ٹی آئی کے امیدواروں کے کاغذات کو مسترد کیا جائے۔ لیکن سلام ہے پی ٹی آئی کے امیدواروں اور ان کے وکلا کو جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ 


اپنے کاغذات پر کرنے میں بھی پی ٹی آئی کے امیدواروں اور ان کے وکلا نے انتہائی نالائقی کا مظاہرہ کیا۔  چکوال کے حلقہ این اے اٹھاون سے پی ٹی آئی کے امیدوار معروف کالم نگار ایاز امیر ہیں۔ ان کے کاغذات پر ایک یہ اعتراض لگا کہ انہوں نے کاغذات میں یہ ظاہر کیا کہ ان کی تین بیٹیاں ان پر انحصار کرتی ہیں یعنی ڈی پینڈنٹ ہیں۔ اب الیکشن لا کے مطابق آپ کو اپنے ڈی پینڈنٹس کے اثاثے بھی ظاہر کرنا پڑتے ہیں لیکن ایاز صاحب نے یہ اثاثے ظاہر نہ کیے۔ یہی اعتراض سب سے اہم تھا اور میرے خیال میں اس اعتراض کی بنیاد پر ہی ایاز امیر کے کاغذات مسترد ہوئے۔  دوسرا اعتراض یہ لگا کہ چھپڑ بازار میں موجود بھگوالیہ مارکیٹ محکمہ مال کے ریکارڈ میں صوبائی حکومت کی ملکیت ہے۔ ایاز امیر کے مطابق یہ زمین ان کے والد نے 1962 میں اپنے نام الاٹ کروائی تھی۔ خیریہ اعتراض ایک کھوکھلا اعتراض لگتا ہے۔ باقی اعتراضات بھی معمولی نوعیت کے ہی تھے۔ 


طارق کالس اور علی ناصر بھٹی کے دستخطوں کو جعلی کہا گیا۔ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے کا الزام لگا۔ ناصر بھٹی پر یہ بھی اعتراض لگا کہ پلاٹ بیچ کر نو کروڑ اور ایک کروڑ کی ٹرانزیکشن کروائی لیکن کاغذات میں یہ ظاہر نہ کیا کہ یہ رقم کہاں گئی۔ اعجاز فرحت پر بھی ایسے ہی بھونڈے اعتراضات لگائے گئے۔ سوال یہاں پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرپی ٹی آئی والے چاہتے تو کیا ایسے اعتراضات اپنے حریفوں پر نہیں لگا سکتے تھے؟ شاید ان اعتراضات سے زیادہ سنگین نوعیت کے اعتراضات مخالفین پر لگ سکتے تھے۔ 


چکوال سے زیادہ بڑی نالائقی اور سستی تلہ گنگ میں چوہدری پرویز الہی اور ان کے وکلا نے دکھائی۔ ان کے خلاف لگنے والے ایک اعتراض کے مطابق پھالیہ میں پرویز الہی کے نام دس مرلے کا پلاٹ ہے لیکن انہوں نے وہ پلاٹ کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کیا۔ 


اب آپ ایک لطیفہ ملاحظہ کریں جو پرویز الہی کے خلاف لگنے والے ایک اور اعتراض کی شکل میں سامنے آیا۔ تلہ گنگ کے حلقہ این اے انسٹھ سے پرویز الہی امیدوار ہیں اور ان کی کورنگ امیدوار ان کی اہلیہ قیصرہ الہی ہیں۔ دونوں میاں بیوی ایک ہی ریٹرننگ افسر کے پاس اپنے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہیں۔ اب بیگم اپنے کاغذات میں یہ ظاہر کر رہی ہے کہ اس کے پاس سو تولہ سونا ہے جبکہ شوہر صاحب اپنے کاغذات میں یہ بتا رہے ہیں کہ ان کی بیگم کے پاس اکیس لاکھ پچاس ہزار روپے مالیت کا سونا ہے۔ اعتراض لگانے والوں نے یہ اعتراض لگا ڈالا کہ سو تولہ سونا اکیس لاکھ پچاس ہزار میں کہاں سے ملتا ہے؟ پرویز الہی پر یہ اعتراض بھی لگا کہ لاہور میں ماڈرن فلور مل میں ان کے شیئرز ہیں جو ظاہر نہیں کیے گئے۔ 


اس طرح پی ٹی آئی کے باقی امیدواروں کے خلاف بھی اعتراضات لگے اور جس کے خلاف لگے اسی کے کاغذات مسترد ہو گئے۔ 


سوال پھر وہی اٹھتا ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار، ان کے وکلا اور موبائلی جنگجو مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے خلاف اعتراضات کیوں نہ لگا سکے اور اپنے کاغذات دیکھ بھال کر کیوں نہ پر کر سکے؟ یہ صرف اور صرف نالائقی بلکہ نالائقی کی انتہا تھی۔ ایاز امیر کے وکلا کو تو یہ بھی معلوم تھا کہ مسلم لیگ ن کا ان کا ایک حریف چیک ڈس آنر کے مقدمے میں لاہور کی ایک عدالت سے اشتہاری مجرم قرار دیا جا چکا ہے۔ کیا یہ بھول گئے تھے کہ پچھلے الیکشن میں سردار غلام عباس اپنے وکلا کی نالائقی کا شکار ہوئے تھے؟ 

مخالفین نے تو سازشیں کرنی ہیں، چالیں چلنی ہیں، سوال یہ ہے کہ آپ نے مخالفین کو موقع کیوں دیا اور ان کے خلاف اعتراضات کیوں نہ جمع کروائے؟

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.