6 سال یا 10 سال؟
سہیل وڑائچ
تضادستان کی خوشحالی اور مستقبل کے حوالے سے ان دنوں دو ماڈل سامنے آ رہے ہیں۔ ایک سیاسی ماڈل ہے جو ممکنہ طور پر بننے والی سیاسی حکومت کے لیڈروں کے ذہن میں ہے۔
یہ ماڈل دس سال کا ہے جس میں مقتدرہ اور وہ سیاسی جماعت دس سال مل کر چلیں گے کہ معاشی پالیسیوں پر طویل مدت کیلئے عمل پیرا ہوا جائے تب جا کر ملک میں خوشحالی کے امکانات پیدا ہوں گے۔
دوسرا ماڈل مقتدرہ کا ہے۔ ایس آئی ایف سی نامی جو اعلیٰ اختیاراتی ادارہ بنایاگیا ہے اس کی سربراہی اگرچہ وزیر اعظم کرتے ہیں مگر اس میں مقتدرہ کی بھی بھرپور نمائندگی اور سرپرستی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر یہ ماڈل مل گیا تو پہلے 3 سال میں ملک بحران سے نکل آئے گا اور مزید اگلے تین سال میں زرعی اور معاشی انقلاب آ جائے گا، جس سے ملکی ٹرین پٹڑی پر چڑھ کر سرپٹ دوڑنے لگے گی۔ گویا اس ماڈل کے تحت یہ 6 سالہ پروگرام ملک کو ٹھیک کرنے اور چلانے کیلئے اشد ضروری ہے۔
نونی قیادت کی سوچوں کی کھوج لگائی جائے تو اس کا خیال ہے کہ ملک کا معاشی بحران ہو یا سیاسی بحران، اس کا واحد حل ترقی ہے۔ انفراسٹرکچر کی تیز ترین ترقی، بجلی کی قیمت میں کمی اور روزگار کی فراہمی کے ذریعے ہی معاشی بہتری آسکتی ہے۔
نونی دماغوں کی رائے ہے کہ جب نواز شریف پہلی بار وزیر اعلیٰ بنے تھے تو پنجاب کی سیاست پیپلز پارٹی کے گرد گھومتی تھی، پنجاب کسی زمانے میں لاڑکانہ ہو ا کرتا تھا، پھر نونی قیادت کے بقول انہوں نے ترقی کے ماڈل کو اپناتے ہوئے 1990میں پیپلز پارٹی کے سحر کوتوڑنا شروع کردیا اور پھر ایک وقت آیا کہ پنجاب نون لیگ کیلئے گوالمنڈی کا حلقہ بن گیا۔
نونی کہتے ہیں کہ اگر انہیں مقتدرہ کی خلوص کے ساتھ حمایت حاصل رہے تو وہ دس سال میں نہ صرف ملکی معیشت کو ٹھیک کردیں گے بلکہ تحریک انصاف کا جادو بھی توڑ دیں گے، ان کے بقول جس طرح انہوں نے پیپلز پارٹی کو پنجاب سے دیس نکالا دیا تھا ویسا ہی دیس نکالا وہ تحریک انصاف کو بھی دے سکتے ہیں۔
موجودہ عسکری قیادت کی سوچ تک تو ابھی ہم اخبار نویسوں کی براہ راست رسائی ممکن نہیں ہوئی لیکن بالواسطہ طور پر جو اطلاعات پہنچ رہی ہیں ان کے مطابق قیادت کو یہ احساس ہے کہ نواز شریف کے سابقہ دور میں معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی، اسے ختم کرکے زیادتی کی گئی اور ملک کا معاشی زوال شروع ہوگیا، جس طرح سے نواز شریف کے خلاف مقدمات بنائے گئے اور اداروں نے جس طرح کا کردار ادا کیا اس کے حوالے سے بھی موجودہ عسکری قیادت کے شدید تحفظات ہیں۔
صحافتی حلقوں میں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ نواز شریف کی پچھلے 5 یا 6 عسکری سربراہوں سے تو بن نہیں سکی اب موجودہ عسکری قیادت سے کیسے بن پائےگی جبکہ اب تو سویلین قیادت کیلئےSpace بھی بہت کم رہ گئی ہے۔
نون کی اعلیٰ قیادت کا خیال ہے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ نواز شریف کی فوجی سربراہوں سے نہیں بنی، ان کے بقول نواز شریف نے بھرپور کوشش کی کہ عسکری سربراہوں کے ساتھ مل کر چلا جائے لیکن بدقسمتی سے ماضی کے عسکری سربراہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو سب سے اوپر اور بالاتر سمجھتے تھے اس لئے ان سے نبھ نہ سکی۔
نون کی اعلیٰ قیادت کا اندازہ ہے کہ موجودہ عسکری سربراہ ماضی کے لوگوں سے مختلف ہیں وہ دھوکہ نہیں دیتے اور جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں، اس لئے نون لیگ کا خیال ہے کہ ملکی ترقی کی خاطر وہ عسکری قیادت کے ساتھ مل کر چل سکتے ہیں۔ اس حوالے سے شہباز شریف نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ عسکری سربراہ اور وزیر اعظم کے درمیان رابطہ کار کے فرائض انجام دیں گے۔
آدھا کالم تو نونی اور عسکری منصوبوں اور عزائم کی نذر ہوگیا۔ آیئے اب ان دونوں کی منصوبہ بندی کا جائزہ لیں۔
عسکری منصوبے کا مطلب یہ بتایا جاتا ہے کہ ملک کی معیشت کی ترقی میں آنے والی رکاوٹوں کو عسکری اور سیاسی قیادت مل کر دور کرے۔ لیکن تضادستان میں دیکھا گیا ہے کہ جس کمیٹی یا منصوبے میں مقتدرہ شامل ہو جائے وہاں سیاستدان مکمل طور پر بے اثر ہو جاتے ہیں اور یوں وہاں کے سارے معاملات مقتدرہ سنبھال لیتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مقتدرہ اور اہل سیاست کے وزن میں ایک اور دس کا فرق ہے۔
مقتدرہ اس قدر طاقتور ہے کہ جہاں بھی عسکری عنصر شامل ہوتا ہے وہاں سویلین اثر و رسوخ آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے، معاشرے کو چلانا ہے تو سویلین اور مقتدرہ میں طاقت کا توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔
ایس آئی ایف سی کی سوچ تو مثبت ہی ہوگی مگر زراعت، مائننگ یا دوسرے شعبوں میں بہتری کیلئے صرف عسکری دماغوں سے کام نہیں چلے گا اس کیلئے پروفیشنل اور ماہر مشیروں کی ضرورت ہے جو اس وقت کہیں نظر نہیں آ رہے۔ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ جنرل حمید گل کو فارن پالیسی ایکسپرٹ بنا دیا گیا اور جنرل تنویر نقوی کو سیاسی نظام کی بہتری کا ٹاسک دے دیا گیا۔
جنرل حمید گل کی افغان پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اسی افغانستان سے ہم پر حملے ہو رہے ہیں جس کی ہم نے سالہاسال مدد کی، معاشی اور جانی نقصانات اٹھائے۔ جنرل تنویر نقوی نے اہل سیاست کو شامل کئے بغیر نیا نظام دے ڈالا جونہی اہل سیاست آئے انہوں نے ان کے نظام کو لپیٹ ڈالا۔ ماضی کی یہ مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ معیشت، زراعت اور دوسرے ٹیکنیکل معاملات کے بارے میں حتمی فیصلے فوج کو نہیں کرنےچاہئیں بلکہ اس بارے میں عالمی ایکسپرٹس سے رائے لینی چاہیے؟
اسی طرح نونی قیادت نے جو پروگرام بنایا ہے اس پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ تضادستان میں کسی کو بھی دس سال کی حکومت نہیں ملتی یہاں تو تین سال مل جائیں تو غنیمت ہے، اس لئے اسے شارٹ ٹرم پالیسی ترتیب دینی چاہیے تاکہ جو بھی بہتری وہ کرنا چاہتے ہیں اسکے اثرات جلدی سے جلدی نظر آئیں۔ اسحاق ڈار لاکھ مخلص اور محنتی سہی لیکن ملک کی معاشی صورتحال جس منزل تک پہنچ چکی ہے اس کیلئے نئی اپروچ اور تازہ خون کی ضرورت ہے۔ نونی قیادت ابھی تک پرانی ٹیم پر بھروسہ کئے ہوئے ہے، نوجوان آگے لائیں گے تو بات بنے گی۔
سیاسی اور عسکری منصوبے بنانے والوں سے آخر میں عرض ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو بھی قومی اورسیاسی دھارے میں شریک ہونے دیا جائے، اگر ان کے ساتھ بیگانگی کا سلوک جاری رہا تو اندیشہ ہے کہ ملک کی اس نئی پارٹی کے لوگ ریاست اور سیاست سے بےپروائی کا رویہ اختیار کرلیں گے اور ایسا ہوا تو یہ بہت بڑا قومی نقصان ہوگا۔
نون ہو یا عسکری ادارے انہیں معاشرے کو جوڑنے پر غور کرنا چاہیے۔ معیشت کی بہتری کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے اور تحریک انصاف کو انصاف دیئے بغیر سیاسی استحکام آ نہیں سکتا۔
کوئی تبصرے نہیں