8 فروری: قوتِ اخوتِ عوام یا نظامِ بد ہی؟
ڈاکٹر مجاہد منصوری
استحکام پاکستان کو شدت سے مطلوب الیکشن۔ 24 کا پولنگ ڈے 8فروری بالآخر آن پہنچا۔ یہ روز جمہور ’’جیسے آیا ہے‘‘یہ تحریک و قیام پاکستان تک کی سنہری تاریخ کے بعد بنتی 75سالہ اذیت ناک سیاسی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ ہوگا، جو تب تحریر ہو رہا ہے جب ناقابل برداشت مہنگائی اور بدترین سماجی ناانصافی میں جکڑے محروم و مفلوک عوام اپنی ہی روایتی بہترہی نہیں عشروں سے ملک پر مسلط نظام بد کو قوتِ اخوتِ عوام سے اکھاڑ پھینکنے پر پُرعزم ہوگئے ہیں۔
کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے ذہین استعمال سے انہوں نے جو اپنی سیلف کیپسٹی بلڈنگ کی ہے اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام پاکستان 8فروری کو ووٹ کی طاقت سے سرشار مسلط موروثی و مافیا راج اور اس کے معاونین کو شکست دینے کے جذبے سے میدان انتخاب میں اتریں گے۔ بلاشبہ اسلامی جمہوریہ میں اولیگارکی (مافیہ راج) منجانب عوام مکمل جمہوری جذبے سے کھل کھلا کر چیلنج ہوگیا ہے۔ ملکی ثابت شدہ سب سے پاپولر جماعت کی مرکزی قیادت اور صوبائی و شہری اجتماعی لیڈر شپ اسیر یا روپوش ہے۔ الیکشن کمیشن کے مکمل جانبدارانہ اور خلاف آئین و حلف مجموعی طرز عمل نے ازخود اور شفاف و غیر جانبدار آزادانہ انتخاب کی آئینی پابند نگران حکومت کو نظر نہیں آرہا کہ انعقاد الیکشن کے حوالے سے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کتنی جانبداری سے ن لیگ اور پی پی کو انتخابی جلسوں، ریلیوں اور ورکرز کنونشن کی تو بمطابق روایت اور قانون اجازت د ے رہی ہے لیکن پی ٹی آئی کے خلاف فسطائیت مچائی ہوئی ہے ۔ جہاں بھی وہ مقامی جلسہ جلوس بھی کرتے ہیں پولیس آدھمکتی ہے۔ مین سٹریم میڈیا ان کی کوریج نہیں کرسکتا۔ انتخابی مہم چلانے کے لئے دوسروں کی طرح ریلی، جلسے کا اعلان کریں تو دفعہ 144 لگا دی جاتی ہے، پکڑ دھکڑ کا سلسلہ الگ جاری ہے۔ ان کے بینرز اور پوسٹر اکھاڑے جا رہے ہیں۔ جس طرح پی ڈی ایم اور اس کی حکومت سیاسی جمہوری عمل کےارتقاء کو ریورس گیئر میں ڈال کر آئین و قانون شکنی کا کھلواڑ مچاتی مسلط ہوئی اور نگرانی اوڑھنے کے ساتھ تادم ہے، اس نے الیکشن ٹالنے کی شکست کے بعد شفاف و غیرجانبدار انتخاب کو عوام کی بھاری اکثریت کا اٹل ہدف بنا دیا ہے۔ اگرچہ خواص و عوام کے لئے قانون تو یکساں ہی بنائے گئے لیکن ان کے نفاذ کے الگ الگ معیار نے معاشرے کو اقتصادی حالت اور بنیادی ضروریات کے حوالوں سے بھی خطرناک بنا دیا ہے۔باہمی فاصلے ہی پیدا نہیں کئے بلکہhaves and have notsکی مہلک تقسیم میں اضافہ ہوتا رہا، جو اب تیز تر ہے۔ کورونا وبا میں آئیڈیل اور اس کے بعد بھی 6.1سالانہ جی ڈی پی کی کامیابی سے چلتی ساڑھے تین سالہ (بشمول دو سال کرونا وبا کے) عمران حکومت کو متروک ہوگئے غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے اکھاڑ کر ملکی تاریخ کی (عوامی مفادات کے حامل )حوالے سے پی ڈی ایم کی سب سے بدترین16ماہی حکومت قائم کی اس کے متحدہ پلیٹ فارم پی ڈی ایم نے دوران وبا بھی آزاد سیاسی فضا کا ناجائز فائدہ اٹھا کر منطقی مہنگائی کو حکومت کے کھاتے میں ڈال کر وہ اودھم مچایا جس نے بلاشبہ عمران حکومت کی ساکھ کو نقصان تو پہنچایامگراس گھمبیر قومی بحران کے فوری شروع ہوتے ہی حیران کن حد تک عوام نے تمام تر تلخ ترین حقائق کو خود بھانپتے مشترکہ مفادات سے نکلی لیڈر لیس اجتماعیت سے اپنا مدعا سامنے لانے کی استعداد ببانگ دہل دکھائی۔یوں مقبولیت کھوتا معزول وزیراعظم پریشان حال عوام کے ساتھ فوری اور اتنا جڑ گیا کہ پیچیدہ ہوتے سیاسی عمل میں عوام کی ’’تیزی سے پختہ ہوتی رائے‘‘ پر عمران کی تیز ترین حکومت کھوئی تحریک انصاف دیکھتے دیکھتے ملک کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی فیڈرل فورس میں تبدیل ہوگئی۔ اور پی ڈی ایم خصوصاً ن لیگ کو بڑے خسارے سے دوچار۔ عوام نے بڑے بحران کا آغاز ہوتے ہی، جو کچھ ہو رہا تھا کے ردعمل میں فوراً عمران خان کے ’’سات خون معاف کردیئے اور جن 14کا الزام پی ڈی ایم حکومت لگانے والی تھی اسے بھی پیشگی لغو قرار دے دیا، ایسے میں خان نے جھٹ سے اپنی پوزیشن لے لی کہ ایوان کو چھوڑ کر خود کو عوام کے ساتھ جوڑ لیا۔ پی ڈی ایم کے سب اتحادیوں نے عمران کی عوامی پوزیشن کی تیز تر بحالی دیکھی تو الیکشن کو ممکنہ حد تک ٹالنے، متحد رہنے اور اسٹیبلشمنٹ سے مسلسل رجوع و اکتفا کی پوزیشن لے لی کہ منی لانڈرنگ جیسے سکہ بند الزامات کی زد سے نجات ان کے فیصلے کا بڑا اور فوری ہدف تھا۔ عوامی تیز تیز بننے والی رائے عامہ کی وجوہات میں مہنگائی میں ناقابل برداشت مسلسل اضافہ، اس میں بھی بڑا پلس،خان اعظم کے بیانیوں سے یہ پیدا ہوا قومی خودی کا احساس عوام کی محرومیاں اور خواص کی پرتعیش طرز زندگی کا پردہ چاک ہونے سے ہوا، جس کی قابل یقین تصدیق عوام کو ہوتی گئی، پاکستانی سیاست میں بیرونی مداخلت اور HAVES AND HAVE NOTS کے وضاحتی ابلاغ نے عوام کے بڑے حصے خصوصاً نوجوانوں اور خواتین کو مستقل ذہنی تبدیلی کی حد تک متاثر کیا جو ابلاغ عامہ کا مشکل ترین ہدف ہوتا ہے۔ اوپر سے مین سٹریم میڈیا پر خان کی اسیری اور تحریک انصاف کی خبروں پر لگی پابندیوں اور بے بنیاد مقدمات کی بھرمار نے جلتی پر تیل کا کام کرکے لوگوں کو خان کی طرف مائل کیا، متوازن ذہن بلکہ مخالف ذہنوں کو بھی تحریک انصاف کے خلاف اتنی ناانصافی اس دور میں کیسے ہضم ہوتی کہ زمانے کے انداز بدلے گئے۔ تجسس کی پیاس بجھانا انسان کی فطری ضرورت ہے، وہ ایک بااعتبار میڈیا ہی پوری کرتا ہے۔ یہ بھی بین الاقوامی حقیقت ہے کہ روایتی مین سٹریم میڈیا سرمائے اور پابندیوں سے متاثر ہوتا سوشل میڈیاکے واضح منفی پہلوئوں کے باوجود سول سوسائٹی میں اپنے اثر و اعتبار کا اضافہ کر رہا ہے۔ قدرتاً کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے ذہین استعمال سے اس کا نتیجہ استعمال بڑوں و نوخیزوں کے ہاتھ میں ہے، جنہیں بڑوں نے مایوس کیا ہے۔ یوں بھی اس کا ہما گیر تجزیہ کیا جائے تو یہ ایک بڑا قومی اثاثہ بننے کی صلاحیت سے مالا مال ہے، لیکن اس کو اور اس کے جوان سال یوزرز کو مطعون کرنے کی بجائے نظام انصاف اور قومی سیاست و معیشت کی سمتیں درست کرنا ناگزیر ہوگیا ہے ۔ یہ شروع ہوگیا تو سوشل میڈیا گستاخی و آلود گی سے بھی پاک ہونے لگے گا۔ اس کے مثبت پہلو پاکستان میں تو تیزی سے جگہ بنا رہے لیکن اب یہ سب کچھ اس سوال سے جڑ گیا ہے کہ 8فروری عوامی آئینی حق رائے دہی کو ایمانداری سے تسلیم کرکے آغازِ اصلاح کا دن ہے جس سے رواں ارتقاء شروع ہو، یوں یہ تعمیر وطن میں قوتِ اخوتِ عوام کا آغازہوگایا طرز کہن کے جبر کے آخری تباہ کن دفاع کا؟ یاد رکھا جائے عوامی نوٹس ایٹ لارج بہت سنجیدہ اور مثبت ہے۔ وماعلینا الالبلاغ۔
کوئی تبصرے نہیں