آئی ایم ایف ہمارا زیادہ سگا ہے؟

رؤف کلاسرا

کچھ دنوں سے میں سوچ رہا ہوں کہ کیا آئی ایم ایف پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں سے زیادہ پاکستان کے چوبیس کروڑ عوام کا سگا ہے؟ اس ادارے کے اہلکاروں کو ہماری اتنی فکر کیوں ہے؟ وہ کیوں سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں سے ملتے پھرتے اور ان سے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو سٹینڈ بائی پروگرام کی ستر کروڑ ڈالرز کی قسط تبھی ریلیز کریں گے اگر وہ ملک میں سیاسی استحکام لانے کا وعدہ کریں اور اس پروگرام کی جو شرائط طے ہوئی تھیں‘ ان پر عمل کریں گے۔ وہ کیوں پاکستان میں سیاسی استحکام چاہتے ہیں‘ وہ کیوں سیاسی جماعتوں کے لیڈروں یا ان کے گماشتوں سے ملاقاتیں کر کے ان سے ایک ہی ضمانت مانگتے ہیں کہ وہ پاکستان کے سیاسی حالات ٹھیک کریں تاکہ ان کا دیا ہوا قرض اور اس کے مقاصد پورے ہو سکیں۔ شاید آپ کو بھی یہ بات عجیب لگے گی کہ جب اس ملک کے چوبیس کروڑ عوام‘ حکمران‘ سیاستدان یا ریاستی ادارے استحکام نہیں چاہتے‘ انہیں اسی شور شرابے میں نیند آتی ہے تو آئی ایم ایف کے اہلکار کیوں اپنی نیندیں ہمارے لیے خراب کرتے ہیں۔ وہ جائیں‘ دنیا کے باقی ممالک کی فکر کریں اور ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں۔ جب ہم خود کو بدلنا ہی نہیں چاہتے تو انہیں کیا تکلیف ہے؟ آپ نے دنیا کے کسی اور ملک بارے سنا کہ آئی ایم ایف یا اس جیسے مالیاتی ادارے وہاں کے سیاستدانوں سے مل کر سیاسی استحکام کی ضمانتیں مانگ رہے ہوں؟ مطلب جن حکمرانوں اور سیاستدانوں اور اداروں کا کام ہی یہی ہے کہ وہ ریاست کو متحد رکھنے کیلئے استحکام لائیں‘ قانون اور آئین پر ملک کو چلائیں تاکہ معیشت اُبھرے‘ لوگوں کی زندگیوں میں آسانی پیدا ہو‘ وہ آئی ایم ایف کو ضمانتیں دینے کو تیار نہیں۔

کسی بھی ملک کی ترقی دو چیزوں کی محتاج ہوتی ہے‘ وہاں سیاسی استحکام ہو اور قانون کی حکمرانی ہو۔ وہ ملک چند برسوں میں دوسروں سے آگے نکل جائے گا۔ مڈل ایسٹ ممالک اس کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے چند دہائیوں میں ترقی کی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ وہاں جمہوریت نہیں بادشاہت ہے لہٰذا وہاں پالیسیوں کا تسلسل ہے اور سیاسی عدم استحکام کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ان ملکوں میں سیاست کا نام بھی کوئی نہیں جانتا۔ مطلب یا آپ جمہوریت اور سیاست کھیل لیں یا پھر ترقی کر لیں۔ اب یہ بھی کہیں گے کہ دنیا کے کئی ممالک نے جمہوریت اور سیاست کیساتھ بھی ترقی کی ہے‘ لیکن وہاں سیاسی استحکام اور قانون کی برتری کا رواج ہے۔

خبریں آرہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے اعلیٰ عہدے دار یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کو اس بات پر قائل نہیں کریں گے کہ وہ پاکستان کو ستر کروڑ ڈالر کی قسط ریلیز کرے۔ ان کے بقول اس انکار کی وجہ تحریک انصاف کیساتھ روا رکھا جانے والا سلوک ہے۔ اُس کے حامیوں کو الیکشن نہیں لڑنے دیا جا رہا۔ ان کا لیڈر جیل میں ہے۔ ورکرز اور لیڈروں پر پرچے اور مقدمے ہیں۔ ان کا انتخابی نشان چھین لیا گیا ہے۔ ان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ وہ ان حالات میں کیسے کسی عالمی ادارے کو تسلی دے سکتے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام رہے گا جبکہ الیکشن کی ساکھ پر بھی سوال اُٹھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ان باتوں میں وزن ہے کہ جیل میں بیٹھا بندہ کیسے اور کیونکر سیاسی استحکام کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اب عمران خان کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک وہ یہ کہیں کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم‘ تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ دوسرا وہ آئی ایم ایف وفد کو تسلی دیں کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے‘ ہم آپس میں نپٹ لیں گے۔ لیکن اگر ستر کروڑ ڈالرز کی قسط نہ ملی تو پاکستانی معیشت کو بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے جیسے فروری 2022ء میں لگا تھا جب عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام سے اچانک نکلنے کا فیصلہ کیا اور ڈالر راتوں رات 160روپے سے 188روپے تک پہنچ گیا تھا جسے بعد میں مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار بھی نہ روک سکے اور یہ اوپن مارکیٹ میں 340روپے سے بھی تجاوز کر گیا تھا۔

شیخ رشید اسی وجہ سے قہقہے لگا کر کہتے تھے کہ عمران خان جاتے جاتے بارودی سرنگیں بچھا گیا ہے۔ وہ بارودی سرنگیں یہی تھیں کہ آئی ایم ایف پروگرام ختم کر دو جس سے ملکی معیشت تباہ ہو گی۔ اور پھر وہی ہوا۔ اس دوران جب مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف کیساتھ ڈیل کرنے کے قریب تھے تو دو حیران کن پلان سامنے آئے۔ پہلا پلان شوکت ترین نے تیار کیا جب انہوں نے پنجاب میں محسن لغاری اور خیبرپختونخوا میں تیمور جھگڑا کو فون کیے کہ آئی ایم ایف کو خط لکھیں۔ محسن لغاری بھانپ گئے تھے کہ ایسا خط پاکستانی ریاست کو نقصان دے گا۔ اندازہ کریں کہ شوکت ترین‘ جنہیں اس ملک نے سب کچھ دیا‘ وہ یہ سازش کررہے تھے کہ ریاست یا ملک ڈوب جائے۔ سری لنکا بن جائے۔ پوری دنیا سے ہم کٹ جائیں۔ یہاں تیل‘ گیس اور بجلی سمیت سب کچھ بند ہو جائے۔ کیونکہ ڈیفالٹ کی صورت میں آپ نہ کوئی چیز منگوا سکتے تھے‘ نہ بیچ سکتے تھے۔ آپ کی ایل سیز ہی نہیں کھلنی تھیں کہ آپ کوئی آرڈر دے سکتے کیونکہ ڈالرز ہی نہیں ہونے تھے۔ شوکت ترین پر اس حرکت پر ایف آئی آر درج ہوئی لیکن آج تک وہ آزاد پھر رہے ہیں۔ دوسرا پلان اسحاق ڈار نے لندن میں بیٹھ کر تیار کیا۔ اس وقت اگر آئی ایم ایف کیساتھ معاہدہ طے پا جاتا تو ڈالر کی قیمت دو سو اور دو سو بیس روپے کے درمیان رہنی تھی۔ لیکن اسحاق ڈار کو ملک سے زیادہ اپنی فکر تھی کہ اگر وہ اب پاکستان واپس نہ لوٹے اور وزیرِ خزانہ نہ بنے اور مقدمات ختم نہ کرائے تو ان کا گھر اور کروڑں روپے کیسے واپس ہوں گے۔ یوں مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر اسحاق ڈار کو لایا گیا جنہوں نے آتے ہی آئی ایم ایف کو آڑے ہاتھوں لیا اور چھ ماہ ضائع کیے۔ جو کام ستمبر میں کرنا تھا وہ اگلے سال مارچ اپریل میں کیا گیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ یوں ہمارے دو بڑے وزیر خزانہ شوکت ترین اور اسحاق ڈار نے خود غرضی سے کام لیا اور معیشت کا بیڑا غرق کر دیا۔ دونوں کو نہ اس ملک کی فکر تھی نہ ہی چوبیس کروڑ عوام کی۔

یقینا اس معاملے میں ڈار صاحب کو میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی پوری حمایت حاصل تھی جیسے شوکت ترین کو عمران خان کی۔ وہ آئی ایم ایف‘ جسے ڈار صاحب نے آڑے ہاتھوں لیا تھا‘ اس کی سربراہ کو منانے کیلئے شہباز شریف اب وزیراعظم ہو کر منت ترلے کررہے تھے۔ یوں اسحاق ڈار نے عمران خان کی شوکت ترین کے ذریعے بچھائی ہوئی سرنگوں میں مزید بارود ڈالا تاکہ رہی سہی کسر پوری ہو جائے۔ اور وہی ہوا کہ ڈالر کی سمگلنگ شروع ہو گئی اور معیشت کا بیڑا غرق ہوا اور مہنگائی نے سب کو کچل کر رکھ دیا۔ جس نے بارودی سرنگ بچھائی تھی وہ اڈیالہ جیل میں دیسی مرغ کھا رہا ہے‘ شوکت ترین جس نے ان سرنگوں میں بارود ڈالا تھا‘ وہ آج کل دبئی میں مزے کر رہا ہے جبکہ ڈار صاحب‘ جنہوں نے ان بارودی سرنگوں کو سلگائے رکھا‘ وہ نیب سے اپنی جائیداد اور پچاس کروڑ روپے واگزار کروانے اور حکومت ختم ہونے کے بعد لندن کی ایجوائے روڈ پر شام کو واک کے بعد کافی پیتے تھے۔ اور یہاں آئی ایم ایف کے اہلکار اسلام آباد کی سڑکوں پر خوار پھرتے پاکستانی سیاستدانوں سے ضمانتیں مانگتے پھر رہے ہیں کہ وعدہ کرو‘ اگر ہم ستر کروڑ ڈالر دے دیں تو آپ سیاسی استحکام لائیں گے۔ اور ہمارے لیڈر پہاڑ پر چڑھ گئے ہیں کہ نہیں ہم یہ ضمانت نہیں دے سکتے۔ جبکہ جن چوبیس کروڑ لوگوں کیلئے آئی ایم ایف سیاسی استحکام مانگ رہا ہے‘ وہ اپنے پسندیدہ سیاستدان اور حکمران کیلئے گلی محلے میں گالی گلوچ سے لے کر سوشل میڈیا پر طعنے دے دے اور ناچ ناچ کر ہلکان ہو رہے ہیں کہ تیرا لیڈر چور ہے‘ دوسرا کہتا ہے تیرا لیڈر ڈاکو ہے۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.