نظام عدل پی ٹی آئی کے وجود نیم جاں میں روح پھونک رہا ہے

شکیل انجم

کیا ادارے اس لئے غیر فعال ہو گئے کہ عمران خان کا دوبارہ اقتدار میں آنے کا تاثر بیدار ہورہا ہے؟ اور’’پروعمران‘‘قوتیں متحرک ہو گئی ہیں؟ کیا عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف انتشار اور بلوہ کی سیاست کا آغاز کرے گی یا شرافت کا شعار اپنائے گی؟ کیا ملک بھر میں انتخابی عمل سے قبل ہی دہشتگردی کے حوالے سے ’’تھرٹ الرٹ‘‘ جاری ہونے لگے ہیں اور تحریک انصاف کے مخالف امیدواروں اور ان کے گھروں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا؟ اس سے ملتے جلتے کئی سوالات امید اور مایوسی کے درمیان معلق عوام کی چہ میگوئیوں میں شامل ہیں!ان سوالات کے صحیح جواب ڈھونڈنے کے لئے عمران خان اور تحریک انصاف کے ماضی میں جھانکنا ضروری ہے۔تاریخ کے اوراق پر لکھا ہے کہ عمران خان طاقت کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے پر یقین رکھتے ہیں، بغاوت، خودسری اور خودغرضی ان کی رگوں میں شامل ہے۔ ماضی ایسی کئی مثالوں کا گواہ ہے جب عمران خان صرف ذاتی مفاد کے لئے قومی سلامتی، ملکی معیشت اور ریاستی رٹ کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے اور ان سےکسی بھی وقت اور کسی بھی موقع پر ریاست سے ٹکراؤ کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ماضی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ گواہی دیتی ہے کہ نظام عدل کی جانب سے تحریک انصاف کو دی جانے سیاسی مراعات کی وجہ سے دنیا بھر میں عمران خان کے گمراہ اور پاکستان دشمن گروہ سوشل میڈیا پر ’’زہرافشانی‘‘ کرنے لگے ہیں۔حالات سے مایوس عوام میں یہ تاثر قائم ہورہا ہےکہ عمران کی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر فیصلہ ساز ادارے بیک فٹ پر جا رہے ہیں۔نظام عدل کا وہی روپ سامنے آرہا ہے جو گذشتہ پانچ برسوں میں دیکھاجارہا ہے۔وہی انداز جب نظام عدل نے ریاست کے تمام اداروں/ستونوں کے آئینی اختیارات اپنے’’قبضۂ قدرت‘‘ میں شامل کرلئے ہیں۔جو اختیارات آئین کی کتابوں میں الیکشن کمیشن کو حاصل ہیں، ان کا استعمال بھی صرف تحریک انصاف کی خواہشات کے مطابق کیا جارہا ہے ۔جس کے نتیجے میں ایک بار پھر ’’جوڈیشل مارشل‘‘ کا تاثر قائم ہورہا ہے۔ یا ایک بار پھر Judicial activism کے رحجان میں اضافہ کی باتیں ہو رہی ہیں۔عدلیہ کی جانب سے عمران خان کی مرضی کے فیصلوں کا جو تاثر قائم کیا جارہا ہے،جمہوریت اور جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والوں میں بےچینی اور تذبذب کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کررہا ہے۔اس احساس عدم تحفظ کا فائدہ اٹھانے والا طبقہ معاشرے میں غیریقینی پیدا کرنے کی کوششوں میں ہے اور ملک کے مستقبل کو غیر محفوظ ثابت کرنے والا گمراہ طبقہ سوشل میڈیا پر پاکستان اور اس کے سلامتی کے اداروں پر کیچڑ اچھالنے میں لگ گیا ہے۔اس بات کا تذکرہ چیف آف آرمی اسٹاف نے بھی قومی کسان کنونشن سے خطاب کے دوران کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر مایوسی پھیلا کر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ریاست اپنا وجود کھو چکی ہے لیکن ہم ریاست کے خلاف نفرت پھیلانے اور منفی پروپیگنڈہ کرنے والے ریاست مخالف مافیا کی سرکوبی کریں گے۔ رویوں میں تبدیلی کے اس بہاؤ میں بعض ’’بڑے صحافی‘‘ اپنی مقبولیت میں اضافہ اور گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے گمراہوں کے دستے میں شامل ہو کر عمران خان کو’’معصوم‘‘ ثابت کرنے کے لئے پینترا بدل رہے ہیں اور صرف عمران خان کو لیول پلینگ فیلڈ مہیا کرنے اور جمہوری اقدار کی پاسداری اور جمہوریت کی بقاء اور معیشت کے استحکام کے لئے بغاوت، غداری اور سنگین جرائم ختم کرنے پر زور دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔لیکن عمران خان کو جیلوں اور عدل کے ایوانوں کی جانب دی جانے والی علی الاعلان سہولت کاری کئی سوالوں کوجنم دے رہی ہے۔قوم گروہوں میں تقسیم ہو رہی ہے’’پروعمران خان‘‘ اور’’اینٹی عمران خان‘‘ قوتیں پیدا ہورہی ہیں،انتشار اور امن کے پیروکاروں کے درمیان اعصابی جنگ جاری ہے جس کے نتیجے میں ریاستی رٹ کے مضروب اور مفلوج ہونے کے خدشات سر اٹھارہے ہیں۔ادھر انٹیلی جنس ایجنسیوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متنبہ کیا ہے انتخابی عمل کے دوران دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہو گا جس میں اہم سیاسی اور حکومتی شخصیات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے جن میں جمعیت علمائےاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان کو انتہائی احتیاط کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ان حالات میں جب تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستان کی جیلوں میں دہشتگردی کے مرتکب 42ہزار قیدیوں کو رہا کرکے خیبر پختون خوا میں آباد کردیا تھا، ملک میں دہشتگرد وارداتوں کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن قوم خوفزدہ نہیں بلکہ محتاط ہے اور روشن مستقبل کے لئے پرامید ہے!

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.