’’کیا ہم غلام ہیں؟‘‘


محمد بلال غوری

’’ہم کوئی غلام ہیں؟‘‘ یہ مبہم نعرہ دیکر نوجوان نسل کو شتر بے مہار آزادی دیدی گئی ہے ۔اب وہ کسی کھونٹے سے بندھے رہنے کو تیار نہیں۔ پاکستانیت ان کیلئے بے معنی ہے، اخلاقیات اور تہذیب و شائستگی کی کوئی قدر و قیمت نہیں، معاشرتی اقدار کا ان کے نزدیک کوئی مطلب نہیں،رشتے ناتے،تعلقات اور دوستیاں سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ پشاور میں چند روز قبل پیش آنے والے افسوسناک واقعہ کو ہی دیکھ لیں۔صوبائی دارلحکومت کے نواحی علاقے بڈھ بیر کا نوجوان عطاالرحمان جو ایک عرب ملک میں بسلسلہ روزگار مقیم تھا اور وہاں سینیٹری ورکر کے طور پر مزدوری کرتا تھا۔ اسے بتایا گیا کہ پاکستان میں حق و باطل کا معرکہ بپا ہے۔ انقلاب کی جدوجہد پورے عروج پر ہے اور یہی وقت ہے کھڑے ہونے کا ۔ عطاالرحمان دو ماہ کی چھٹی لیکر پاکستان آگیا اوریہاں تحریک انصاف کی انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہو گیا۔ باپ نے کئی بار حالات کی نزاکت سے آگاہ کیا، سمجھایا اور محتاط رہنے کی تلقین کی۔ عطاالرحمان چاہتا تھا کہ گھر کی چھت پر تحریک انصاف کا پرچم لہرا کر بغاوت کا اعلان کرے مگر باپ نے نصیحت کی کہ ووٹ جسے چاہے دو لیکن گھر پر کسی سیاسی جماعت کا جھنڈا نہ لگائو۔ ایک ہی گھر میں ووٹروں کی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔ بالخصوص جب گھر کے سربراہ کی رائے آپ کے برعکس ہو تو اس کا احترا م لازم ہے۔ یہ وقت ہم سب نے دیکھا ہے۔ جوانی میں جوش و جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ ہمارے والد صاحب کی سیاسی وابستگی کے برعکس ہم ان نئے امیدواروں کی حمایت کررہے ہوتے جن کے جیتنے کا قطعاً کوئی امکان نہ ہوتا۔ سیاسی رواداری کے تحت ہر ایک اپنے من پسند امیدوار کو ووٹ دیتا لیکن گھر پر جھنڈا لگانے کی اجازت نہیں ہوا کرتی تھی۔ پشاور کے اس گھرانے میں بھی یہی بحث چل رہی تھی مگر عطاالرحمان کے دماغ میں یہ خناس بھردیا گیا تھا کہ ہر قیمت پر، ہر حالت میں آزادی حاصل کرنی ہے۔ استعماری طاقتوں کے آگے جھکنا نہیں۔ اس نے اپنے باپ کو ہی اسٹیبلشمنٹ سمجھ کر بغاوت کر دی۔ عطا الرحمان جاکر بازار سے پی ٹی آئی سے جھنڈا لے آیا اور گھرکی چھت پر لگا دیا۔ ایک بار پھر باپ سے تکرار کا آغاز ہوا۔ والد نوررحمان نے پھر سے سمجھانے کی کوشش کی مگر اس نے اسی انداز میں جواب دیا جو تحریک انصاف کے وابستگان کی پہچان ہے۔ یہ تلخ کلامی اس حد تک بڑھی کہ والد نوررحمان نے طیش میں آ کر پستول نکال لیا اور فائرنگ کرکے اپنے سگے بیٹے عطاالرحمان کوموت کے گھاٹ اُتار دیا۔ مقتول کے بھائی عارف الرحمان، جن کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوا ہے، کے مطابق والد نور رحمان کی کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں تھی تاہم انکے علاقے میں عوامی نیشنل پارٹی کی حمایت موجود ہے اور بالعموم اے این پی کے ہی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں۔


میں نے اس المناک واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کی توتحریک انصاف کے سیاسی کارکنوں کے تبصرے پڑھ کر مزیدرنج ہوا۔ بدبختوں نے اس واقعہ کو بھی سیاست کے ’’ترازو‘‘ میں تولنے کی کوشش کی اور کہنے لگے ’’بندہ بھی ہمارا مارا گیا ہے اور آپ برا بھلا بھی ہمیں کہہ رہے ہیں۔‘‘ (ویسے جمع کا صیغہ میں نے ازخود استعمال کیا ہے ورنہ یہ وہ نسل ہے جو اپنے سگے باپ کو بھی آپ کہہ کر مخاطب کرنے کی روادار نہیں)۔ شاید یہ ان کی سیاسی تربیت کا اثر ہے کہ وہ ان حالات میں بھی خونی رشتوں کی اہمیت نہیں سمجھ پا رہے۔ سیاسی عدم برداشت کے باعث ایک باپ نے اپنا بیٹا کھو دیا ہے اور اب وہ تادم مرگ اس اذیت اور کرب کے باعث ہر روز مرے گا۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے۔


پہلے ہمارے ہاں مذہبی عدم برداشت کو فروغ دیا گیا اور صورتحال یہاں تک جا پہنچی کہ لوگ مسلکی یا مذہبی موضوعات پر بات کرنے سے گریز کرنے لگے اور اب سیاست کو ایک مذہب اور مسلک کا درجہ دیکر سیاسی گفتگو کو بھی شجر ممنوعہ بنا دیا گیا۔ پہلے بھی اس ملک میں سیاست ہوتی تھی، انتخابات کے دوران جوش و جذبے کی فضا پائی جاتی تھی، کبھی شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات کا چرچہ ہوتا تھا، بنگلہ بندھو کی شخصیت کا جادو یوں سر چڑھ کر بول رہا ہوتا کہ اگر وہ کہتے کہ کل ہڑتال ہوگی تو واقعتاً پہیہ جام ہو جاتا۔ آپ سب نے ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ بھی دیکھا ہو گا۔ قائد عوام کے دیوانوں اور جیالوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم پر جمع ہوئے تو بہت کشیدہ ماحول تھا۔ پی این اے کی تحریک کے دوران بھی یوں لگتا تھا جیسے یہ کوئی سیاسی لڑائی نہیں بلکہ حق وباطل کا معرکہ ہے۔ مگر بعد میں سامنے آنے والے حقائق سے معلوم ہوا کہ یہ بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنے کیلئے رچائی گئی ایک عالمی سازش تھی۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں ایم آر ڈی کی تحریک چلی۔ پیپلز پارٹی کے کارکن چوٹ کھائے ہوئے تھے۔ ہرمحفل میں سیاست موضوع بحث ہوا کرتی تھی لیکن کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ شریک محفل مخالف سیاسی کارکن نہیں بلکہ کسی ’’کلٹ‘‘ کے پیروکار ہیں۔ پھر نوے کی دہائی میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ سیاسی عدم بلوغت کا زمانہ تھا۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالا گیا۔ انتخابی مہم کے دوران گھٹیا نوعیت کے الزامات لگائے گئے۔ ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ جیسے نعرے لگے مگر نوجوان نسل کو حقیقی آزادی دلانے کے نام پر یوں ہر چیز سے آزاد کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔


’کیا ہم غلام ہیں‘ کا نعرہ لگانے سے پہلے ذرا سوچئے! ہم کس سے آزادی چاہتے ہیں؟ کس قسم کی آزادی چاہتے ہیں؟ یہ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ اس عدم برداشت کا سبب کیا ہے؟ کیا ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے کیلئےمعاشرے کے نفسیاتی جائزے کی ضرورت نہیں؟

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.