پاکستان کو… نواز دو مجیب
مجیب الرحمٰن شامی
نواز شریف کے دائیں شہباز شریف تو بائیں عرفان صدیقی بیٹھے ہوئے تھے۔مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما بھی سٹیج پر جلوہ گر تھے۔ سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے تلاوتِ قرآن پاک سے تقریب کا آغاز کیا‘اور پھر منشور کی تیاری کے مختلف مراحل پر روشنی ڈالی۔مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف نے بھی مختصر الفاظ میں حالِ دل کہا‘سامعین اور ناظرین کو ایک بار پھر یاد دلایا کہ اگر اُن کی 16ماہی حکومت معیشت کو نہ سنبھالتی تو ملک دیوالیہ ہو جاتا‘ ایسا ہوتا تو پھر حالات کتنے بدتر ہوتے‘اس کا تصور ہی دل دہلا دینے کیلئے کافی ہے۔ منشور کمیٹی کے چیئرمین عرفان صدیقی نے منشور تو پڑھ کر نہیں سنایا لیکن اس کی تیاری کے دوران مشاورت کا جو وسیع اہتمام کیا گیا تھا اس پر خوب روشنی ڈالی۔عرفان صاحب نے یقین دلایا کہ جو منشور تیار کیا گیا ہے‘ وہ تصوراتی نہیں۔ ہروعدے کو پورا کرنے کیلئے وسائل کا اہتمام بھی ہو گا‘اس پر پوری توجہ دی گئی ہے۔قائد مسلم لیگ نواز شریف نے گفتگو کا آغاز کیا تو بھی منشور کی تفصیلات پڑھ کر نہیں سنائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ منشور کی کاپیاں تحریری طور پر مہیا کر دی گئی ہیں‘ان کا مطالعہ کر کے رائے قائم کی جا سکتی ہے۔انہوں نے محتاط الفاظ میں ماضی کا جائزہ پیش کیا‘اور اس بات پر بار بار تاسف کا اظہار کرتے رہے کہ ان کے راستے میں کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں نے معاشی ترقی کا سفر کھوٹا کر دیا۔وہ بار بار ماضی میں کھو جاتے‘لیکن جو وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا‘ اُسے واپس لانا ممکن نہیں تھا۔آنکھوں کے سامنے گزشتہ پانچ عشرے تصویر کی صورت پھر رہے تھے۔ نوجوان نواز شریف کن ارادوں کے ساتھ سیاست کے میدان میں داخل ہوئے‘وزیراعظم بنے‘ ایک قومی سیاسی رہنما کے طور پر اُبھرے۔1990ء میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو توقع یہی تھی کہ پاکستان بہت جلد بڑی معاشی طاقت بن جائے گا۔سرکاری اداروں کو پرائیوٹائز کرنے‘ نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے‘ اور ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے حوالے سے ان کے اہداف واضح تھے‘لیکن صدر غلام اسحاق خان رکاوٹ بن گئے۔ ان کے ساتھ ٹکرائو نے فراٹے بھرتی حکومت کو اُلٹا کر رکھ دیا۔ 1977ء کے انتخابات کے بعد جو بحران پیدا ہوا‘ اس نے اس سوچ کو توانا کر دیا کہ صدر کا منصب بے اختیار نہیں ہونا چاہیے۔1977ء میں بھٹو حکومت کے منعقد کردہ انتخابات پر دھاندلی کے سنگین الزامات لگے تو صدرِ مملکت (فضل الٰہی چودھری)سے مطالبہ کیا جانے گا کہ وہ مداخلت کریں‘ قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیں یا حکومت کو برخواست کر دیں۔اس مطالبے کو تسلیم کرنے کا کوئی آئینی راستہ موجود نہیں تھا‘ ڈیڈ لاک بڑھا تو مارشل لاء نے راستہ بنا لیا‘اور ذوالفقار علی بھٹو ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کیے گئے۔اس کے بعد یہ سمجھا جانے لگا کہ اگر صدرِ پاکستان کے پاس کوئی آئینی اختیار ہوتا تو وہ حکومت کے خلاف کارروائی کر کے ملک کو مارشل لاء سے بچا سکتے تھے۔اس سوچ نے دستور میں اُس ترمیم کا دروازہ کھولا جس کے تحت صدرِ مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا صوابدیدی اختیار دے دیا گیا۔سمجھا جانے لگا کہ اب سیاسی عمل غیر ہموار نہیں ہو سکے گا۔اگر کسی منہ زور حکومت نے حدود سے تجاوز کیا‘تو اُسے آئینی طور پر گھر بھیجا جا سکے گا۔یہ اختیار جو انتہائی نیک نیتی سے صدرِ مملکت کو فراہم کیا گیا تھا‘ ملک میں عدمِ استحکام پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا۔سب سے پہلے تو خود جنرل ضیاء الحق نے اسے وزیراعظم محمد خان جونیجو کے خلاف استعمال کیا۔ جب ایسا ہوا تو ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں تھا‘ یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا کہ اس اختیار کے استعمال نے آئینی بحران پیدا کر دیا۔ نئے انتخابات سے پہلے ہی جنرل ضیا الحق ہوائی حادثے میں لقمہ ٔ اجل بن گئے‘ تو ان کی جگہ غلام اسحاق خان صدر منتخب ہوئے‘انہوں نے اس صوابدیدی اختیار کو پہلے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی اسمبلی کے خلاف استعمال کیا تو بعدازاں وزیراعظم نواز شریف کو نشانہ بنایا۔نواز شریف سپریم کورٹ پہنچے‘ اور مقدمہ جیت گئے‘لیکن ترقی کے جس سفر کا آغاز انہوں نے کیا تھا وہ جاری نہ رہ سکا۔ دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ایٹمی دھماکہ کر دیا‘ نواز شریف نے منہ توڑ جواب یوں دیا کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت کو عیاں کر دیا۔بھارتی وزیراعظم نے یہ منظر دیکھا تو پاکستان کے ساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہرکر دی۔ دونوں ممالک ناقابل ِ تسخیر بن چکے تھے۔دونوں ایک دوسرے کو تباہ کر دینے پر قدرت حاصل کر چکے تھے۔دہشت کے اس توازن نے پُرامن بقائے باہمی کی ضرورت کو اُجاگر کیا‘ وزیراعظم واجپائی خود چل کر پاکستان پہنچے اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ٹھوس پیش رفت پر اتفاق کر لیا۔جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں فوجی جرنیلوں کے ایک ٹولے نے وزیراعظم سے بالا ہی بالا کارگل کا محاذ کھول دیا‘ اور یوں دوستی کا یہ سفر جاری نہ رہ سکا۔ وزیراعظم نے جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تو جرنیلوں کے ٹولے نے وزیراعظم کے خلاف بغاوت کر دی۔ نواز شریف کو ہتھکڑیاں لگا کر کال کوٹھری میں ڈال دیا گیا۔ ایک بوگس مقدمہ قائم کر کے عمر قید کی سزا دلوا دی گئی۔ بعدازاں اُنہیں جلا وطن کر کے سعودی عرب پہنچا دیا گیا۔ نواز شریف کو ایک اور امتحان سے گزرنا پڑا‘کئی سال بیرون ملک گزارنے کے بعد واپس آئے تو 2013 ء کے انتخابات میں قوم نے تیسری مرتبہ اُنہیں وزیراعظم منتخب کر لیا۔اس بار اُنہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ کا راستہ اختیار کیا گیا۔اپوزیشن رہنما عمران خان کے ساتھ مل کر اُنہیں اقتدار سے نکال دیا گیا۔ انتخابات کا انعقاد ہوا تو وزارتِ عظمیٰ کا تاج عمران خان کے سر سجا ہوا تھا۔ نواز شریف حوالۂ زنداں ہو چکے تھے۔عمران خان دورِ حکومت میں جو کچھ ہوا‘وہ تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے۔فوجی قیادت اور ان کے درمیان ٹکرائو کے بعد ان کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہو گیا۔ اب وہ اڈیالہ جیل میں بیٹھے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انتخابات کی آمد آمد ہے اور نواز شریف ایک بار پھر ملک کی قیادت سنبھالنے کا ارادہ کر کے میدانِ عمل میں ہیں۔ وہ مسلم لیگ ہائوس میں بیٹھے میڈیا پرسنز کے ایک جم ِ غفیر کو گزرے ہوئے دنوں کی جھلکیاں دکھا رہے تھے‘ تو دیکھنے والی کئی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں۔نواز شریف کے منشور میں جو بھی لکھا ہو‘ وہ ایک بار پھر ملک کو معاشی طاقت بنانے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں ان کا ماضی ان کے حق میں گواہی دے رہا ہے۔وہ جو کہتے ہیں‘ اُسے کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں‘ انہوں نے بہت کچھ کر دکھایا ہے‘موٹرویز تعمیر کی ہیں‘ لوڈشیڈنگ کے اندھیرے ختم کیے ہیں‘دہشت گردی کے عفریت کا منہ موڑا بلکہ توڑا ہے۔سرمایہ کاری کی فضا ہموار کی ہے لیکن راستہ کھوٹا کرنے والوں نے بار بار اُنہیں روکا ہے۔ کیا وہ چوتھی بار وزیراعظم بن سکیں گے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کیا وہ اپنا سفر بلا روک ٹوک جاری رکھ سکیں گے؟یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے‘مسلم لیگ کے منشور کی شہ سرخی ہے‘پاکستان کو نواز دو... پاکستان کو نواز ملے گا تو ہی یہ کہا جا سکے گا کہ اسے نواز دیا گیا ہے... یعنی نواز شریف عطا کر دیا گیا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
کوئی تبصرے نہیں