ملک سے وفاداری کون نبھائے گا؟؟؟؟
محمد اکرم چوہدری
خبر کچھ یوں ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 128 لاہور سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سلمان اکرم راجہ نے قرآن پر حلف لیتے ہوئے کہا کہ "سب سے پہلے میں خود قرآن پاک پر حلف لیتا ہوں،
منتخب ہونے پر پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کا وفادار رہوں گا اور ایوان میں ہم پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی ہوں گے۔ پارلیمنٹ کیاندر میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا ممبر رہوں گا اور تصور بھی نہیں کر سکتا کہ میں پی ٹی آئی یا بانی پی ٹی آئی سے غداری کروں۔ افواہ پھیلائی جا رہی ہے پی ٹی آئی امیدوار جیت کر دیگر پارٹیوں میں چلے جائیں گے، یہ افواہ ہے اور سراسر غلط بات ہے، جس نے کاغذات نامزدگی میں کہا پی ٹی آئی کا ہے وہ جیت کر بھی وہیں رہیگا، الیکشن کمیشن کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہم آزاد ہیں۔ میں نے کاغذات نامزدگی میں لکھا ہے میں پی ٹی آئی کا امیدوار ہوں، میں نے پی ٹی آئی کی جانب سے جاری ٹکٹ بھی آر او کو جمع کرایا تو کوئی مجھے کس طرح آزاد کہہ سکتا ہے۔ سب امیدواروں کو قرآن پاک پرحلف لینا چاہیے، ہم بانی اور پارٹی کے وفادار رہیں گے، ہم کسی لالچ اور کسی خوف میں نہیں آئیں گے۔"
سلمان اکرم راجہ ایک منجھے ہوئے قانون دان ہیں۔ وہ سیاست کر رہے ہیں، انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ وہ انتخابات میں حصہ لیں لوگوں کے پاس جائیں، ووٹ کی درخواست کریں، لوگ ان کی بات مانیں ہو سکتا ہے لوگ ان کی بات نہ مانیں۔ جیسے سلمان اکرم راجہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ایسے ہی ملک بھر میں سیاسی جماعتیں انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہین، دن کا بڑا حصہ جلسے جلوسوں کی خبریں سنتے دیکھتے گذرتا ہے۔ سو یہ سب اپنی اپنی جگہ ووٹرز کو قائل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ گوکہ میں ذاتی حیثیت میں اس اور بالخصوص ان حالات میں عام انتخابات کا حامی نہیں، ملک کی معاشی حالت بہت کمزور ہے، انتظامی اعتبار سے ہم بہت کمزور ہو چکے ہیں، ادارے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں، کوئی سنبھالنے والا نہیں، عام انتخابات کے بعد بھی سیاست دان آپس میں الجھتے رہیں گے، ہارنے والے دھاندلی کا رونا روئے گا، جیتنے والا بھی یہی کہے گا کہ اس کے ساتھ بھی ہاتھ ہو گیا ہے، نہ ہارنے والا مطمئن ہو گا نہ جیتنے والا آرام سے بیٹھے گا، جس طرح کا ہمارا سیاسی ماحول ہے اور بحثیت قوم جتنے بیصبرے ہم ہو چکے ہیں اس کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ عام انتخابات کے بعد کچھ سکون آئے گا۔ ان حالات میں سلمان اکرم راجہ جیسے سمجھدار، تجربہ کار، آئینی و قانونی معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے قانون دان سے اس عمل کی توقع ہرگز نہیں تھی۔ آپ سیاست کرنا چاہتے ہیں کرتے رہیں لیکن قرآن کریم اور مذہب کو کیوں جھوٹ اور اس الزامات سے بھرے اس عمل کا حصہ بنا رہے ہیں۔ کیا قرآن کریم صرف حلف اٹھانے اور قسموں کے لیے ہی رہ گیا ہے، ملک کی سینکڑوں عدالتوں میں روزانہ کتنے ہی لوگ ہوں گے جو جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں، کتنے ہی لوگ ہوں گے جو سوچے سمجھے بغیر پیسے بنانے کے لیے جھوٹی قسموں کا سہارا لیتے ہیں۔ کیا سلمان اکرم راجہ نہیں جانتے کہ اس ملک میں حلف کے نام پر کیا ہوتا ہے، اگر اتنے بڑے بڑے اور کامیاب لوگوں کو بھی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے یہ کام کرنا پڑے تو سمجھ جائیں کہ ہم اخلاقی طور پر کتنا گر چکے ہیں، کس تنزلی کا شکار ہیں کہ ہمیں قرآن کریم پر ہاتھ رکھنا پڑ رہا ہے۔ کون لوگ ہیں جو اس کام کے لیے ابھار رہے ہیں اور کون ہیں جو آنکھیں بند کر کے یہ عمل دہرا رہے ہیں۔ خدارا ایسے کاموں سے دور رہیں۔ الیکشن میں حصہ لیں اپنی منصوبہ بندی سے ، مستقبل کی حکمت عملی اور گفتگو سے لوگوں کو قائل کریں ایسے کاموں سے عوامی ہمدردی حاصل کرنا کہاں کی سیاست ہے۔
بہرحال یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، ہر کوئی اپنے ایم این اے، اپنے وزیر، اپنے وزیراعلیٰ، اپنے وزیراعظم اور اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ کا وفادار بنا نظر آتا ہے، کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اس ملک سے بھی کسی نے وفاداری نبھانی ہے یا نہیں، بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں بھی اپنے سیاسی مفادات کے لیے قومی سوچ کے بجائے سیاسی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔ ہر جماعت خود کو ناگزیر سمجھتی ہے، ہر جماعت یہی سمجھتی ہے کہ وہ حکومت میں ہے تو جمہوریت ہے ورنہ ملک میں جمہوریت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ کیا ایسے جمہوری رویوں سے ملک کی خدمت اور تعمیر ہو سکتی ہے۔ کہیں بھی دیکھیں یہی حالات ہیں جب کوئی پھنستا ہے تو اسے قرآن یاد آتا کے چونکہ ووٹرز معصوم ہیں، سادہ لوح لوگوں کو مذہب کے نام پر اپنی طرف کھینچا جا سکتا ہے سو سیاست دان ایسا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، اب سلمان اکرم راجہ کا حلف بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ کاش کہ ملک میں موجود سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں نے ووٹرز کی سیاسی تربیت کی ہوتی تو لوگ آج کارکردگی اور منشور پر انتخابی مہم نظر آتی، لوگ کارکردگی پر سوالات کرتے، لوگ سیاسی قیادت سے سوال کے قابل ہوتی، آج سوال کے نام پر بدتہذیبی ہے، بدتمیزی ہے، میں نہ مانوں کی رٹ ہے، عدم برداشت ہے، نفرت کی سیاست ہے، انتقامی جذبات ہیں، جھوٹے نعرے اور کھوکھلے وعدے ہیں۔ کیا ایسے ہم مشکلات سے نکلیں گے، کیا ایسے مسائل حل ہوں گے، کیا ایسے عدم برداشت کا کلچر ختم ہو گا، آج سیاست دان خود لوگوں میں غصہ پیدا کرنے والے بیانات جاری کر رہے ہیں کل کلاں یہی لوگ تحمل مزاجی کا درس دیں گے، لوگ کس کی بات مانیں۔ جب تک سیاسی قیادت سنجیدہ نہیں ہو گی، حقیقت پسندی سے کام نہیں لے گی اس وقت استحکام ممکن نہیں ہے۔
آخر میں شہزاد نیر کا کلام
دکھ درد کو آنکھوں سے گذرنے نہیں دیتا
سیلاب تو دیتا ہے وہ ، جھرنے نہیں دیتا
میں اس کے دلِ سخت میں گھر کیسے کروں گا
جو اپنی گلی سے بھی گزرنے نہیں دیتا
رہتا تو ہے آنکھوں میں وہ آئینہ برابر
جب مجھ کو سنورنا ہو سنورنے نہیں دیتا
خود ٹوٹ کے بکھروں تو بکھر جاؤں بلا سے
میں درد کی دولت تو بکھرنے نہیں دیتا
دل اب بھی لپکتا ہے سرِ ساحلِ خواہش
وہ چاند سمندر کو اترنے نہیں دیتا
پھر مجھ کو اٹھا دیتا ہے دامن کی ہوا سے
مرنے کا ارادہ ہو تو مرنے نہیں دیتا
میں مائلِ انکار تو ہو جاتا ہوں دنیا !
دل مجھ کو محبت سے مکرنے نہیں دیتا
پیمانہء لبریز تو ہجراں کی عطا ہے
آ جائے تو وہ آنکھ بھی بھرنے نہیں دیتا
ہونٹوں کی تمنا تو بڑی بات ہے نیر
آنکھوں کی تمنا بھی وہ کرنے نہیں دیتا
کوئی تبصرے نہیں