وہ لاہور کہیں کھو گیا
واصف ناگی
(گزشتہ سے پیوستہ )
لاہور میں قیام پاکستان سے قبل ولایتی اور دیسی شراب کی کئی دکانیں تھیں بلکہ دیسی شراب کی کپیاں بھی ملا کرتی تھیں اس طرح لاہور میں جنرل ضیاءالحق کے اقتدار میں آنے تک بھنگ اور افیون کے ٹھیکے ہوا کرتے تھے ۔ہمیں یاد ہے کہ لوہاری دروازے کے باہر افیون اور بھنگ کے ٹھیلے ہوا کرتے تھے۔جہاں زیادہ تر کوچوان یعنی ٹانگہ بان بہت آیا کرتے تھے ہم نے خود کئی دفعہ وہاںلوگوں کو بھنگ پیتے دیکھا راوی دریا جو کبھی واقعی راوی دریا تھا اس کے پاس اور کناروں کے نزدیک بھنگ پینے جایا کرتے تھےویسے تو جی سی کے ہمارے کچھ کلاس فیلوز بھی وہاں بھنگ پینے جایا کتے تھے۔ افیون کبھی مائیں اپنے ان بچوں کو بھی دے دیا کرتی تھیں جو بچے رات کو بہت تنگ کرتے تھے۔ خیر بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ٹولنٹن مارکیٹ کے نکڑ پر ایڈل جی وائن ہائوس کے آگے جیولرز اور ساڑھیوں والوں کی دکانیں کبھی بہت تھیں اب صرف تین چار رہ گئی ہیں ۔
لاہور میں ایک اور شراب کی دکان راجہ وائن ہائوس ٹمپل روڈ پر ہوا کرتی تھی دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں جب بھی ہنگامے ہوتے تو اسٹوڈنٹس اور لوگ سب سے پہلے ان شراب کی دکانوں کو توڑ دیتے تھے حالانکہ ہنگامے کسی اورمسئلے پر ہوتے تھے البتہ لاہور میںسب سے پہلے ان دو شراب کی دکانوں کی شامت آتی تھی اس کے بعد ٹریفک سگنل ضرورتوڑ دیئے جاتے تھے اور اگر اس دوران کہیں اومنی بس آ گئی تو پھر اس پر خوب چاند ماری کی جاتی تھی ۔ایڈل جی وائن ہائوس کی دکان کے باہر بڑی خوبصورت پیلے رنگ کی ٹائل لگی ہوتی تھیں جن پر ابھرے ہوئے لال اور نیلے رنگ میں ایڈل جی وائن ہائوس لکھا ہوا تھا اور دکان کے شوکیس میں بڑے سلیقے اور خوبصورت انداز میں شراب کی بوتلیں سجی ہوتی تھیں خیر لاہور میں کئی شراب کی دکانیں قیام پاکستان سے قبل رہی ہیں ان کا ذکر پھر کبھی کریں گے۔
ہم بات کر رہے تھے ٹولنٹن مارکیٹ کی تو جناب کوئی یقین کرے گا کہ ٹولنٹن مارکیٹ میں گوریاں سیلز گرلزہوا کرتی تھیں اس زمانے میں لاہور ٹولنٹن مارکیٹ اور جاوا انٹر نیشنل اسٹور دو جگہیں تھیں جہاں سے غیر ملکی پرفیومز، غیر ملکی صابن، چاکلیٹ، بسکٹ اور بند ڈبوں میں پھل اور سبزیاں ملا کرتی تھیں جاوا انٹرنیشنل اسٹور بیڈن روڈ پر تھا بہت چلتا تھا خیر مدت ہوئی بلکہ 70برس قبل یہ جاوا انٹرنیشنل اسٹور بند ہو گیا تھا۔ بیڈن روڈ بھی لاہور کی بڑی تاریخی اور کبھی خوبصورت سڑک تھی یہاں بھی آج کئی ہندوئوں کے پرانے مکانات کچھ نہ کچھ اپنی اصل حالت میں موجود ہیں یہ سڑک جو کبھی دوطرفہ ٹریفک کے لئے تھی آج یکطرفہ ٹریفک بھی یہاں سے نہیں گزر سکتی ۔ہارڈویئر، بجلی، ڈرائی فروٹ، آئس کریم، پان سگریٹ یعنی اس سڑک پر ہر ایک چیز آپ کو مل جاتی ہے کبھی یہاں پر کیری ہوم کا کھانا پورے لاہور میںمشہو ر تھا ۔یقین کریں ہم کیا قوم ہیں ہم نے اپنی ہر تاریخی اور قدیم عمارت ،باغات اور نوادرات کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پطرس بخاری نے کیا خوبصورت بات کہی تھی کہ
’’لاہور کے کانٹے کا علاج نہیں یہ ہم سب کا معشوق ہے اور معشوق رہے گا‘‘
مولانا چراغ حسن حسرت نے کہا تھا ’’لاہور بجلی کا بٹن دبانے سے نہیں بن گیا لاہور ایک تہذیب ایک وضع کا نام ہے ‘‘ لاہور کے بارے میں ہزاروں ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور اہل قلم نے بڑی خوبصورت باتیں اور یادیں تحریر کی ہیں اگر ہم صرف ان تبصروں کو ہی اکٹھا کرلیں تو کئی کتابیں بن جائیں۔
ٹولنٹن مارکیٹ فن تعمیر کا ایک اچھوتا اور نادر نمونہ ہے پورے برصغیر میں اس طرز تعمیر کی آپ کو کوئی عمارت نہیں ملے گی۔ لکڑی کے شہتیروں اورشافٹ کہہ لیں یا لوہے کے گارڈر ان کو اس مہارت اور پیچیدہ انداز میں ایک دوسرے کےساتھ پیوست کیا گیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ہم سوچتے ہیں کہ انگریزوں نے یہ مارکیٹ ہمارے پاس کیا صاف ستھری چھوڑی تھی ہم نے اس مارکیٹ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ، یہ شکر ہے کہ یہ خوبصورت عمارت اس کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جن کی کوششوں سے این سی اے کے پاس موجود ہے اور اس کا بڑا اچھا اور مثبت استعمال ہو رہا ہے ۔ابھی حال ہی میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی اہلیہ ڈاکٹر وردہ نقوی صاحبہ جب اس تاریخی عمارت میں ڈگری شو کا افتتاح کرنے آئیں تو اس تاریخی عمارت کے تعمیراتی حسن سے بہت متاثر ہوئی تھیں ۔
سرخ ریت کے پتھر کے فرش یقین کریں اس عمارت کا حسن ہیں یہ تاریخی عمارت ملکہ وکٹوریہ کے کہنے پر 1864ء میں تعمیر ہوئی تھی ہم تو حکومت سے کہیں گے کہ اس تاریخی عمارت پر مزید کام کرکے اسے محفوظ اور خوبصورت بنایا جائے ۔
لیں جناب ہم پچھلے ہفتے لاہور کے دو قدیم ترین تعلیمی اداروں میں پہنچے پہلا ادارہ تو یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز اور دوسرا لاہور کالج یونیورسٹی گھوڑا ہسپتال جو کہ لاہوریوں میں آج بھی ایک تاریخی اور قدیم نام سے زندہ ہے۔ گھوڑا اسپتال جس کے یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز بننے سے پہلے کئی نام رہے یہ تعلیمی ادارہ بنک آف بنگال کی خوبصورت عمارت میں ہے یہ بڑی لال اینٹوں کی انتہائی خوبصورت ترین عمارت ہے اس تاریخی عمارت کے بالکل سامنے ہمارے خاندان کی ایک ہندو کی تعمیر کردہ 1910ء کی کوٹھی تھی جس میں ہم رہتے تھے اس سڑک کو ٹیپ روڈ اور پچھلی سڑک کو ریٹی گن روڈ کہا جاتا ہے کوئی یقین کرے گا کہ اس بنک آف بنگال کی فرنٹ والی دیوار صرف دو فٹ اور اس پر انتہائی مضبوط لوہے کا بڑا خوبصورت جنگلہ لگا ہوتا تھا اس ادارے کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ (جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں