پاکستان کی ترقی: اعلیٰ تعلیم
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن
پاکستان کو آج بیشمار مسائل کا سامنا ہے جن میں حکمرانی کا ناقص نظام، مناسب طویل مدتی منصوبہ بندی کا فقدان، آبادی میں بے قابو اضافہ، انتہائی ناقص تعلیمی نظام، مناسب صنعتکاری کا فقدان، روزگار کے مواقع میں کمی، بدعنوان قیادت اور انصاف کی عدم فراہمی شامل ہیں۔ اسکا نتیجہ ایک دیوالیہ ملک ہے جسکو پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے ناقابل برداشت شرح سود پر نئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں پالیسی کی بڑی غلطیوں میں سے ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کا مسلسل فقدان ہے۔ پائیدار اقتصادی حکمت عملیوں پر اکثر قلیل مدتی سیاسی تحفظات کو فوقیت حاصل رہی ہے۔ اس کم نظری کے نتیجے میں متعددAdhoc پالیسیاں وجود میں آتی ہیں اور سنہرے مواقع ضائع ہوتے ہیں۔ علم پر مبنی معیشت کی طرف منتقلی کے واضح طویل مدتی نظریے کے بغیر، ہم نے مخصوص سماجی و اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کی ہے۔ اس غلطی کو دور کرنے کیلئے، ہمیں اسکی سماجی و اقتصادی ترقی کی پالیسیوں میں طویل المدتی منصوبہ بندی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے جس کا بنیادی ہدف جدید ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت حاصل کرنا ہو۔ اس میں واضح، قابل پیمائش اہداف اور مقاصد کا تعین، جامع حکمت عملی تیار کرنا اور سیاسی تبدیلیوں کے دوران پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانا شامل ہونا چاہئے۔ ایسا کرنے سے پاکستان معاشی ترقی کیلئے مزید مستحکم اور پائیدار راہ ہموار کر سکتا ہے۔
ہماری سماجی و اقتصادی ترقی کی پالیسیوں میں نااہل انتظامیہ ایک مستقل رکاوٹ رہی ہے۔ بدعنوانی، افسر شاہی کی نااہلی اور کمزور اداروں نے موثر پالیسی کے نفاذ اور وسائل کی تقسیم میں رکاوٹیں ڈالی ہیں، جس سے ملک کی اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچا ہے۔اسکے علاوہ اعلیٰ پیمانے پربدعنوانی کی بدنامی نے عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں اور امداد دینے والوں کیلئےپاکستان اپنی ساکھ کھو چکا ہے،ناقص انتظامیہ کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے ہمیں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے جو شفافیت، احتساب اور اداروں کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہوں۔ اس میں خود مختار انسداد بدعنوانی ایجنسیوں کے ذریعے بدعنوانی کا مقابلہ کرنے کی کوششیں شامل ہوں، نوکر شاہی کے عمل کو ہموار کرنا اور سرکاری ملازمین کیلئے صلاحیت سازی میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ مزید برآں، قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے اور شہریوں اور کاروباری اداروں کی انصاف تک رسائی کو یقینی بنانے کیلئے قانونی اصلاحات ضروری ہیں۔ آبادی میں بے قابو اضافے نے ہمارے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ ہمیں آبادی پر قابو پانے کے موثر اقدامات کرنانےچاہئیں اور خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
پاکستان کا ناقص تعلیمی نظام ایک بڑی خرابی ہے جو سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ تعلیمی نظام نے کم شرح خواندگی، فرسودہ نصاب اور ناکافی سرمایہ کاری کے ساتھ جدوجہد کی ہے، جس سے اقتصادی ترقی محدود ہو گئی ہے۔ اس لیے ہمیں فوری طور پر سماجی و اقتصادی ترقی کے بنیادی محرک کے طور پر تعلیم کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی بنیادی ڈھانچےمیں سرمایہ کاری میں اضافہ، اساتذہ کی تربیت ، معیار کو بہتر بنانا اور روزگار کی ضروریات کے مطابق نصاب کو جدید بناناضروری ہے۔اس کے بعدہی ہم ایک ایسی ہنر مند اور باشعور افرادی قوت پیداکر پائیں گے جو معاشی ترقی کو آگے بڑھا سکے۔
اس کی ایک بہترین مثال پاک آسٹرین جامعہ برائے اطلاقی سائنس و انجینئرنگ ہے جو میری نگرانی میں ہری پور ہزارہ میں قائم کی گئی جس کی فنڈنگ کے پی حکومت کی طرف سے فراہم کی جا رہی ہے۔ یہ کاروبا ر کو فروغ دینے کیلئے ایک’’انٹرپرینیورئل جامعہ‘‘ہے جسکی کارکردگی کا اندازہ صرف پی ایچ ڈی حاصل کنندگان کی تعداد ، تحقیقی اشاعتوں یا دیگر تعلیمی معیارات کی تعدادسے نہیں بلکہ اسکے فیکلٹی اور طلباء کی پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی پر پڑنے والے اثرات سے لگایا جائے گا۔ یہ جامعہ تین آسٹرین، ایک جرمن اور پانچ چینی جامعات کے ساتھ قریبی شراکت داری میں قائم کی گئی ہے، جن میں سے ہر ایک نے جامعہ کے ایک حصے کو ترقی دینے کا مکمل ذمہ لیا ہے۔ اس میں تمام طلباءکیلئے ڈگری کا اہل ہونے سے پہلے اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ کم از کم 500گھنٹے صنعت میںکام کر نا لازمی ہے۔ اگرچہ یہ جامعہ صرف 3 سال پرانی ہے لیکن اس کے ٹیکنالوجی پارک میں تجارتی ترقی کے مختلف مراحل میں دس مصنوعات تیار کی جارہی ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور جامعہ میری نگرانی میں سیالکوٹ کے قریب سمبڑیال میں وفاقی حکومتوں کے فنڈز سے بنائی جا رہی ہے۔ اگر سندھ حکومت مقامی صنعت سے منسلک ایسی ’’انٹرپرینیورل جامعہ‘‘ میں دلچسپی ظاہر کرے تو غیر ملکی تعاون سے سندھ میں بھی ایسی ہی جامعہ جلد قائم کی جاسکتی ہے۔
تحقیق اور ترقی، جدت طرازی اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنے سےمتحرک اور متنوع معیشت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ مزید برآں، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے (SMEs) نئی صنعتوں کی ترقی کی حوصلہ افزائی ، نئی صنعتیں اور ملازمتیں پیدا کر سکتے ہیں۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں (SOEs) نے ہماری حکومت کے وسائل کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنے ہیں۔ لہٰذا ناکارہ سرکاری اداروںکے مسئلے سے نمٹنےکیلئے، ہمیں ان اداروں کے نظم و نسق میں جامع اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔
بدعنوانی اس ملک میں ہمیشہ سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے، جو ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچا رہا ہے، اداروں پر عوامی اعتماد کو ختم کر رہا ہے اور ترقی میں رکاوٹ کا سبب ہے۔ اسکا انتہائی مربوط تانا باناہے جس کی جڑیں سیاست اور افسر شاہی سے لیکر قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور کاروبار تک معاشرے کے مختلف شعبوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ 230ملین افراد کی آبادی میں 30سال سے کم عمر آبادی 67فیصد ہے، اگر ہم اس حقیقی دولت میں سرمایہ کاری کریں تو پاکستان کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں ملک کے بہترین ماہرین اقتصادیات، سائنسدانوں اور انجینئرز کو اپنے وفاقی اور صوبائی وزراء اور سیکرٹریز کے طور پر مقرر کرنا چاہیے جو علم پر مبنی معیشت کی طرف منتقلی کی اہمیت اور راستے کو سمجھتے ہوں۔ آگے بڑھنے کا راستہ صرف تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، جدت طرازی، اور صنعت کاری میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں مضمر ہے۔ تاہم، یہ صرف ایک ایماندار، پربصیرت، اور تکنیکی طور پر قابل حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
کوئی تبصرے نہیں