اسلامی جمہوریہ: اولیگار کی بمقابلہ جمہوریت
ڈاکٹر مجاہد منصوری
قارئین کرام ! OLIGARCHY، پولیٹکل سائنس کی ایڈوانس اسٹڈیز کی زبان میں استعمال ہونے والی ایک اہم اصطلاح ہے مگر اس ناچیز کا محتاط علمی اندازہ بھی ہے کہ اس (اصطلاح)کو مسلمہ اور مانی جانی جمہوری ریاستوں میں بھی شعوری کوشش سے عام نہیں ہونے دیا گیا۔ کیوں ؟ ناچیز کا تحقیقی مفروضہ (HYPOTHESIS)ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی ترقی یافتہ جمہوری ریاستوں میں قوتِ عوام کی طاقت کے تمام راز آشکار ہونے پر مشتمل اولیگارکی ’’مافیا راج ‘‘ نے ریاست کی اصل طاقت ووسائل کا
اختیار اپنے ہی ہاتھ میں رکھتے، بعض عوامی غیظ و غضب یا قوت ِاخوت ِعوام سے اپنے تحفظ کیلئےحکمران عسکری قیادت ،قاضی اور بڑے بڑے بابوئوں کو بھی اپنی مرضی سے چن کر اپنے فرنٹ مین کے طو رپر منتخب حکمرانوں ہم خیال گروہ ،خاندان حتیٰ کہ سیاسی جماعتوں(جو بظاہر عوامی ہوتی ہیں ) کے بنانے اور عوام پر مسلط کرنے کی اہانت اختیار کر لی ۔مافیا راج کی یہ گھڑی طاقت ان کو حاصل طاقتوں اور اختیار میں سے ایک ہے، اس کمال فنکاری سے اولیگارکی ٹولوں نے امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے جمہوریت کے چمپئن ممالک میں بھی حکمرانوں تک کو اپنا ٹو ڈی بنایا ہوا ہے تبھی تو جمہوری نظام رو بہ زوال ہو کر سراب مانند ہو گیا ہے۔ تبھی تو ابراہام لنکن کے امریکہ میں ٹرمپ، بھارت میں مودی اور قائد اعظم کے پاکستان میں فوجی آمروں کے گھڑے ’’مٹی کے مادھوئوں ‘‘ کو سیاسی دیوتابنا دیا گیا۔ عالمی اولیگارکی نے تو ترقی پذیر ممالک میں اپنا بار بار مسلسل راج لانے کی صلاحیت اختیار کرکے فلسفہ جمہوریت عوام کی حکومت عوام کے ذریعے ،عوام کے لئے، کو فریب نظر میں تبدیل کر دیا اس تناظر میں ناچیز پاکستانی پولیٹکل سائنس کے اساتذہ محققین اور پی ایچ ڈی ، ایم فل جواں سال سکالرز کو تجویز اور زور دیتا ہے۔
’’اولیگارکی بمقابلہ جمہوریت‘‘ ایم اے کی سطح پر ایک سمسٹر کا کورس متعارف کرایا جائے کہ یہ پاکستان کے علمی دفاع سیاسی استحکام خصوصاً غریب و مفلوک و مقہور پاکستانیوں کی حالت زارمیں تبدیل کرنے کا بنیادی ہی نہیں فوری اور نا گزیر تقاضہ ہے، مایوس نہ ہوا جائے وطن عزیز میں خوف وہراس اور آئین سے ماورا اقدامات اور لاقانونیت اور دو قانونی پریکٹس کا جو سونامی آیا ہوا ہے اللہ اکبر !اس کے مقابل مملکت خداداد میں شعور و خودشناسی قوت عوام کا لاوا بھی پک چکا ہے پاکستانی اولیگارکی اس قوت عوام کے قوت اخوت عوام میں تبدیل ہونے میں صرف رکاوٹ نہیں تمام ریاستی وسائل و اختیار سے مشترکہ مسائل کی شدت کا احساس رائے عامہ میں ڈھلنے اور اس کے نتیجے میں عوامی اتحاد کی بنتی شکل کو روکنے کے خلاف مافیا راج مزاحمت پر تل گیا ہے اسکے نتیجے میں تو پاکستان کا 50سال قبل نافذ العمل آئین پاکستان جامد کرکے مملکت اپنی ہی تشریح سے عشروں سے چلائی جا رہی ہے گو یا ’’سب چلتا ہے ‘‘ نہیں چلے گا تو پھر ملک میں آئین کی ہی چلے گی ، غیر آئینی ہو گئی نگراں حکومتیں اس کا عیاں ثبوت ، ہماری نام نہاد جمہوری حکومتوں نے آئین میں شامل حقیقی عوامی سیاست و قیادت کی نرسری اور روز مرہ کی جملہ بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے نظام لوکل گورنمنٹ سسٹم کو بلاامتیاز رولنگ پارٹی ہر دور میں غصب کئے رکھا اور آمرانہ ادوار میں اسے صرف اس لئے جاری رکھا کہ حکومت کی بالائی سطح پر آمرانہ گرفت قائم اور بڑھتی رہے اور عوام اور سیاست دانوں کی شرکت کا ٹھپہ کنگ پارٹی منتخب بلدیاتی اداروں کی سرگرمی سے بڑا اتمام حجت ہو جائے جو ایوب خان کی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا ہی ماڈل بن جاتا ہے ۔یوں ہم ابھی60کی ہی دہائی میں جی رہے ہیں درمیان میں 2008تا 2018ء کا جو عشرہ آیا اس میں میثاق جمہوریت کی فریق جماعتیں اپنی منتخب حکومتیں قائم ہونے کے باوجود اولیگارکی ذہنیت اور خاندانی غلبے کی سیاست و حکومت میں کوئی تازگی نہ لاسکیں ۔نتیجتاً اسٹیبلشمنٹ کی کچھ نہ کچھ کبھی کم کبھی زیادہ مداخلت کی گنجائش باقی رہی۔
یہ عشرہ اس لحاظ سے تو مایوس کن رہا کہ اپنے پس منظر، میثاق جمہوریت وکلا کی ملک گیر ہوئی تحریک بحالی جمہوریت کے باعث کم از کم انتخابی سیاست و تشکیل و تکمیل حکومت کے حوالے سے تو Sustainable رہی لیکن عوامی مفادات اور گورننس کی کوالٹی کے حوالے سے پھر سخت مایوس اور تباہ کن پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اقتدار کی مدت پوری کیں لیکن بیڈگورننس ،کرپشن اور اقربا پروری کے حوالے سے بدترین، جس میں ہر دو حکومتوں نے باہمی غیر علانیہ گٹھ جوڑ سے اپوزیشن کو فرینڈلی بنا کر بحالی جمہوری عمل کو عشرہ کفارہ بنانے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے کردار میں کمی کا فائدہ خالصتاً اولیگارکی کی ذہنیت سے اٹھایا اتنا کہ طبقہ امراء پھر امیر سے امیر اور غریب ،غریب تر ہوتے گئے ۔انہیں مشرف دور میں بلدیاتی نظام سے جو کچھ بہتر سہولتوں کی فراہمی شروع ہوئی تھی وہ لپیٹ دی گئی اندازہ اس سے لگائیں کہ اس دور میں پروپیگنڈے سے گڈ گورننس کا چرچا کرکے بھاری بھرکم کرپشن اورنٹیڈ ترقیاتی عوام کو غیر مطلوب منصوبے بغیر عوامی مطالبے خواہش اور ضرورت کے شروع کئے میٹرو اورنج ٹرین کے کم ترین عوامی فوائد کے کرپشن زدہ منصوبوں کا ماڈل، خیبر پختونخوا کی خٹک وزارت کو بھی کرپشن کی راہ پر ڈالا گیا اورتبدیلی حکومت بھی اولیگار کی سے متاثر ہوئی ۔ عمران کی ساڑھے تین سالہ حکومت اس لحاظ سے متاثر کن رہی کہ عالمی و بائی بحران میں بھی مثالی اور عالمی اعتبار کی حد تک گڈ گورننس کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہی اس نے قدرتی آفات میں بھی دو سال میں 5.8اور 6.1سالانہ جی ڈی پی کی عظیم کامیابیاں حاصل کیں۔اور بیشتر غریب نواز منصوبے شروع کئے۔
اس سارے پس منظر کے ساتھ بحالی جمہوریت کا ایک عشرہ شروع ہونے کے بعد پاکستان دوسرا عشرہ ابتدائی دو سال میں ہی دوران وباء(کوویڈ 19) پاکستانی اولیگارکی بڑی پروڈکٹ پی ڈی ایم کی ملک گیر اور مستقل سیاسی عہدوں میں ڈگمگا گئی ۔گزشتہ عالمی جمہوریت کے عشرے میں شروع ہوا جمہوری عمل ہارس ٹریڈنگ کی بحالی سے ٹوٹ گیا ۔جب اسلام آباد کے سندھ ہائوس میں افطار کی شاموں پر حکمران جماعت کے لوٹوں کی خریدوفروخت کا بازار لگا ۔جس کا اہتمام اولیگار کی سے ہے ۔8فروری کو پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ ہوا چاہتا ہے کہ ملک میں سب اچھا ہے کی تھیوری کا اولیگار کی ماڈل حکومت و سیاست چلتی رہے یا زیر عتاب مہنگائی کے مارے اور بنیادی حقوق سے محروم ہوئی اور حقِ ووٹ غصب ہونے کے خطرے سے دو چار قوت ِعوام شفاف اور مکمل آئینی اقدامات سے خوفزدہ لیکن اختیارات سے مالا مال اولیگارکی رکاوٹوں کو راہ سے ہٹا سکے۔
کوئی تبصرے نہیں