ہماری سیاسی الجھنیں اور جناح ثالث؟
افضال ریحان
ان دنوں خبروں کی برسات ہے۔ ہفتے میں دو کی بجائے دن میں دو کالم بھی لکھے جائیں تب بھی موضوعات ختم نہ ہونے پائیں۔ ہماری جوڈیشری میں ہی جو دلچسپ مقدمات اور ان کی تفصیلات چل رہی ہیں وہی کچھ کم نہیں اور پھر انتخابات کی آمد آمد ہے صبح و شام نئی نئی کہانیاں بن رہی ہیں، جی چاہتا ہے اس صورتحال کا تفصیلی منظر نامہ لکھا جائے لیکن موقع ہی نہیں مل پا رہا۔ 8؍فروری کے انتخابات پتھر پر لکیر قرار دیے جانے کے باوجود کئی احباب ہیں جن کی تسلی نہیں ہورہی، ہماری صحافت میں بھی ایسے بہت سے تجزیہ کار ہیں ،جنہیں ہنوز الیکشن کا ماحول بنتانظر نہیں آتا۔ ن لیگ کی قیادت جلسے کیوں نہیں کر رہی؟ پی ٹی آئی کا کیا فیوچر ہے؟ وہ الیکشن لڑے گی یا بائیکاٹ کرے گی؟ کئی صحافیوں کو بلے کے نشان کی فکر دامن گیر ہے؟ ٹکٹوں کا اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کیا بنے گا؟ جنرل فیض کے مقدمے کا کلائمیکس کیا ہوگا؟ فیض آباد دھرنے کے اصل کلپرٹ کون قرار پائیں گے؟کھلاڑی کی اپروچ کیاہے؟وہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ کیا رویہ اپنانا چاہتا ہے؟ چھڑی کا یا گاجر کا؟ کیا اسے خود سمجھ نہیں آرہی کہ اس کومقتدرہ کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کرنا ہے اور سپریم جوڈیشری کے سامنے کس طرح بولنا
ہے؟
ایک طرف بیرسٹر گوہر کے ذریعے ٹھنڈی پھونکیں مار رہا ہے دوسری طرف شیر افضل کے ذریعے ردعمل کی پروا کئے بغیر میڈیا کے ذریعے عدالتوں میں دھاڑ رہا ہے یا انہیں انڈر پریشر لانا چاہتا ہے، اس سے بھی بڑھ کر الیکشن کمیشن کے سامنے اپنی پہلی توہین کی بخشش کرواتے ہوئے وہ اس سے بھی بھاری نئی توہین کا مرتکب ہوگیا ۔ اس نوع کی رپورٹس پڑھتے اور سنتے ہوئے درویش کو سخت حیرت ہوئی کہ کیا واقعی قیدی نمبر 804اس قدر فارغ ہوچکا ہے کہ اپنے وقار اور توقیر کا خیال کئے بغیر الیکشن کمیشن کی معزز قیادت پرچڑھ دوڑے! جب اپنے ذرائع سے تحقیق کروائی تو معلوم ہوا وہ تو گالم گلوچ تک چلے گئے تھے اور فزیکل ہونا چاہتے تھے لیکن وکلاء اور بہنوں نے بڑی مشکل سے قابو کیا۔ اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی کہ ہمارے نوجوانوں کے مقبول رہنما، ایک ملزم کی حیثیت سے اڈیالہ جیل میں ان کیمرہ کارروائی کے دوران جب فرد جرم پڑھی جارہی تھی تو غصے میں آپے سے باہر ہوگئے اور چلاتے ہوئے کہا کہ آپ کون ہوتے ہو مجھ پر فرد جرم عائد کرنے والے؟ میں تم سب کے نام بھی جانتا ہوں اور شکلیں بھی پہچانتا ہوں دوبارہ اقتدار میں آکر تم پر آرٹیکل 6کے تحت بغاوت کے مقدمات بنائوں گا تم لوگ جسکے کہنے پر یہ سب کچھ کر رہے ہو وہ بھی تمھیں بچا نہیں پائے گا میں جانتا ہوں تم لوگوں نے نوے دن میں انتخابات کیوں نہیں کروائے، اس سب کے باوجود اراکین الیکشن کمیشن نے کوئی جواب نہ دیا البتہ ایک رکن نے اتنا کہا کہ پی ٹی آئی چیئر مین توہین کے ایک اور کیس کا مواد فراہم کررہے ہیں، اس پوری صورتحال کو ملاحظہ کرتے ہوئے جو ہمارے قومی میڈیا میں بالتفصیل رپورٹ ہوچکی ہے سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک اول وآخر نفسیاتی کیس دکھائی دیتا ہے۔
سیانے کہتے ہیں کہ قدرت اگر تمھیں عروج دے تو پھر بھی عاجزی کے ساتھ رہو کیا پتہ کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج اور غرور و تکبر میں لتھڑا ہوا شخص تخت سے تختے پر آجائے۔ اس موقع پر درویش کو محترمہ بے نظیر صاحبہ کا ’’ڈاٹر آف دا ایسٹ‘‘ میں تحریر کردہ وہ واقعہ یاد آرہا ہے کہ جب انکے والد وقت کے تیور بدلنے پر قدرت کے شکنجے میں آئے تو چلائے کہ اس شخص کی یہ اوقات کے مجھے ہاتھ ڈالے میں دوبارہ برسرِ اقتدار آکر یہ اور وہ کردوں گا، صدام حسین کی آمرانہ ذہنیت اور کروفر کا کسے علم نہیں لیکن مکافات ِ عمل کے تحت جب وہ شکنجے میں آیا تو امریکی فوجی اسے کہہ رہے تھے کہ صدر بش نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور پھر جب عدالت میں جج اسکے خلاف فیصلہ سنارہے تھے تو وہ گالم گلوچ اور دھمکیوں پر اترا ٓیا تھا ،ابھی حال ہی میں کسی مغربی ملک کی عدالت کا وہ منظر سب کی نظروں سے گزرا ہوگا کہ ایک ملزم کیخلاف جب خاتون جج فیصلہ سنانے جا رہی تھی تو وہ ملزم چھلانگ لگاتے ہوئے اس پر چڑھ دوڑا عدالتی عملے نے بڑ ی مشکل سے اسے بچایا اسی لیے ہمارے صوفیاء فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اپنی ”میں“ یعنی غرور تکبر یا اکڑ کو مارو۔ صاحب آپ ذرا اقتدار کے وہ دن یاد کرو جب ایک ایک کا نام لے کر کہا کرتے تھے کہ میں تجھے چھوڑوں گا نہیں میں NROنہیں دونگا ،جب آپ کے ایما پرشرفاء کے ساتھ ذلت آمیز سلوک روا رکھا جاتا تھا آتے جاتے سب پر آوازے کسے جاتے تھے۔
ہمارے کچھ صحافی صاحبان نے اپنی لفظی جادوگری سے اس مصنوعی غبارے میں جو ہوا بھر رکھی ہے وہ ایک سوئی کی مار ہے، درویش پوری ذمہ داری سے یہاں یہ تحریر کیے دے رہا ہے کہ سوائے جعلی پروپیگنڈے کے مقبولیت کی اصلیت کچھ نہیں، ذرا تحمل سے غور کیجئے 9مئی کی اتنی بڑی پلاننگ پر ساتھ دینے کیلئے کتنی ”قوم“ باہر نکلی تھی؟ دو تین ہزار کے مسلح جتھے ہر گز عوام نہیں کہلاتے نہ ہی انہیں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کہا جاسکتا ہے،یہ محض ایک پریشر گروپ تھا؟ جو اقتدار کی ہوس میں جمع ہوا تھا اور ہٹائے جانے پر خزاں کے پتوں کی طرح بکھر گیا ۔ افتاد ن اور پی پی پر بھی ٹوٹی مگر انکے لوگ تو اس شتابی سے نہیں ٹوٹے اب بلا ملے نہ ملے، وکٹ ملے گی نہ رن، اسی کارن ن لیگ کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی چنداں محتاجی محسوس نہیں ہورہی سوائے طاقتوروں کی مجبوری کے۔
کوئی تبصرے نہیں