ہمارے ہاں بھی الیکشن پایا جاتا ہے

بلال الرشید

عمران خان، شاہ محمود قریشی، صنم جاوید اور تحریکِ انصاف کے دیگر رہنمائوں کے کاغذات مسترد ہو گئے۔ نواز شریف، مریم نواز، کئی لیگی اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے منظور۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس گل حسن اورنگزیب صاحب فرماتے ہیں کہ نگران حکومت کے زیرِ نگرانی ایسا خوفناک نظام چل رہا کہ الیکشن کے ہنگام تحریکِ انصاف کو اپنے قائد سے مشاورت کی بھی اجازت نہیں ۔جج صاحب نے استفسار کیا کہ نگران حکومت الیکشن ڈی ریل کرنا چاہتی ہے؟ اب آپ مجھے بتائیں کہ نگران حکومت جو چار دن کی مہمان ہے، اس کی کیا بساط۔ جج صاحب کیوں اس نظام کو خوفناک کہہ رہے ہیں۔ جمہوریت میں عدالتیں اور پارلیمنٹ یقینی بناتے ہیں کہ کوئی سیاسی انتقام نہ لیا جائے۔ پھر یہ سب کون کر رہا ہے۔


جنرل مشرف کا مارشل لا ختم ہونے کے بعد آپ نے پیپلزپارٹی کا دور دیکھا، نون لیگ کا دور دیکھا، تحریکِ انصاف کا دور دیکھا۔ کیا ان تینوں ادوار میں کسی لیڈر پہ آپ نے 180مقدمے قائم ہوتے دیکھے۔ کسی لیڈر پہ ایسی دفعات لگتے دیکھیں۔ عمران خان نے کہا تھا کہ میں نواز شریف کا اے سی اتاروں گا، نہیں اتار سکے۔ کیا ان تینوں ادوار میں کبھی سیاسی لیڈروں نے پریس کانفرنس کر کے دوسری جماعتوں کا رخ کیا؟ کیا ان تینوں ادوار میں اس طرح سے ایک سیاسی جماعت کے کاغذات مسترد کیے گئے۔ کیا ان ادوار میں سیاسی لیڈروں نے ججوں پہ ایسا پہ تبرہ کیا؟ آج کیوں ہو رہا ہے؟


سر آئینہ میرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے


کیا ان تینوں ادوار میں آپ نے بڑے ٹی وی پروگرامز کو اس طرح سے بند ہوتے ہوئے دیکھا؟ کیا ان تینوں ادوار میں آپ نے صحافیوں کو بیرونِ ملک فرار ہوتے دیکھا۔


لولی لنگڑی، جیسی بھی جمہوریت تھی، کیا ان تینوں ادوار میں آپ نے کسی سیاسی پارٹی کے ہزاروں سیاسی کارکنوں کو جیل جاتے دیکھا۔ آصف علی زرداری نے 2009ء میں ججز بحالی پہ اختلافات کے بعد پنجاب میں نون لیگ کا تختہ الٹتے ہوئے گورنر راج لگا دیا تھا۔ اس کے باوجود یہ جو کچھ اب ہو رہا ہے، اس میں سے کچھ بھی اس وقت نہیں ہوا تھا۔ اس سب کو بھی چھوڑ دیں، بالکل برعکس جنرل مشرف کے دور میں ٹی وی چینلز کو لائسنس جاری ہوئے۔ حکومت پہ تنقید کا موقع دیا گیا۔ مشرف نے جب 2002ء میں انتخابات کرائے تو کیا حریف سیاسی لیڈروں کے کاغذات اس طرح مسترد کیے؟ کیا جنرل مشرف کے الیکشن میں دو صوبوں میں ایم ایم اے کی حکومت بننے نہ دی گئی، حالانکہ سر سے پائوں تک وہ امریکی جنگ میں پاکستان کو شریک کر چکے تھے۔


جج صاحب جو یہ الفاظ کہہ رہے ہیں کہ خوفناک نظام چل رہا ہے تو اس کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے۔ گو ملک میں جمہوریت ہے مگر اتنی ہی جتنی دنیا کو دکھانے کیلئے ضروری ہے۔ کسی ایک سیاسی جماعت کو فرنٹ پہ رکھا جائے گا مگر اس کا کردار صرف نمائشی ہو گا۔ اس کیلئے فی الحال نون لیگ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جہانگیر ترین اور پرویز خٹک بھی آن بورڈ ہیں۔ اس سارے کھیل میں میاں محمد نواز شریف کہیں فٹ نہیں ہوتے۔


میاں محمد نواز شریف توجب تک اپنا یا سامنے والے کا سر نہ پھاڑ لیں، انہیں چین نہیں آتا بلکہ زیادہ تر ان کا اپنا سر ہی پھٹتا ہے۔ کٹھ پتلی حکومت کا کام ہوگا سامنے رہنا اور کوسنوں کا ہدف بننا۔ امریکہ، افغانستان اور بھارت سے تعلقات انہی کے ہاتھ میں ہوں گے، جن کے ہاتھ میں ہوا کرتے ہیں۔ اب اندرونی معاملات اور ایسے اندرونی معاملات، حتیٰ کہ زراعت اور بجلی چوری روکنے کی منصوبہ بندی، سب انہی کے ہاتھ ہو گا۔ پورا زور لگا یا جا رہا ہے، کبھی زراعت اور کبھی معدنی ذخائر پہ غور ہو رہا ہے کہ کیسے ملکی معیشت کو استوار کیا جائے۔ ابھی تک کچھ بن نہیں پایا۔


بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ضم کر لیا اور پاکستان نے برائے نام احتجاج کیا۔ یہاں البتہ نواز شریف کا رول نکلتا ہے۔ ان کے بھی بھارت کے بارے میں یہی جذبات ہیں۔


اسٹیبلشمنٹ معیشت کیسے ٹھیک کرے گی؟ عمران خان کو ہٹا کر جب پی ڈی ایم کی حکومت بنائی گئی تو ڈالر کی قیمت میں سو روپے سے زیادہ اضافے سے تیرہ چودہ ہزار ارب روپے کا ہمارا قرضہ ہی بڑھ گیا تھا۔ تیل کی قیمت بھی بے حد بڑھی۔ اسٹیبلشمنٹ بہرحال یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ اس نے معیشت ٹھیک کر کے چھوڑنی ہے۔ چاہے اس کیلئےباغات اگانا پڑیں یا پاکستان کے قیمتی معدنی ذخائر بزورِ بازو دریافت کرنا پڑیں۔ کسانوں سے آرمی چیف کے خطاب سے واضح ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا اس سارے عمل میں طاقت کے مراکز کو بے حد کھٹک رہا ہے۔ اس پہ کریک ڈائون متوقع ہے۔


جمہوریت کا اللہ حافظ ہے۔فیصلہ سازوں کو یہ بھی پروا نہیں کہ عمران خان کو الیکشن سے باہر کر کے یہ الیکشن متنازع ہو جائے گا۔ الیکشن کے نام پر انہوں نے صرف ایک رسم پوری کرنی ہے۔ دنیا کو دکھانےکیلئے کہ ہمارے ہاں بھی الیکشن پایا جاتا ہے۔


اس منصوبے کی راہ میں عمران خان سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ عدالتیں اور وکیل دوسری بڑی رکاوٹ بن کے سامنے آ سکتے ہیں، گو ابھی آثار واضح نہیں۔ سب سے بڑی حیرت پیپلز پارٹی پر ہے جو کبھی آئین کی سب سے بڑی محافظ سمجھی جاتی تھی۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.