اسرائیلی دہشت گردی اور عالمی عدالت انصاف
محمد عبداللہ حمید گل
جنوبی افریقہ کے جرأتمندانہ اقدام نے اسرائیلی جنگی جرائم کو دنیا بھر میں بے نقاب کر دیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف میں صہیونی وحشیانہ مظالم کے کیس کی سماعت کا آغاز ہو چکا ہے۔ جنوبی افریقہ نے گزشتہ برس اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں درخواست دائر کی تھی۔ جنوبی افریقہ کے صدر راما فوسا کے مطابق اسرائیل حماس کے ساتھ جنگ میں نسل کشی کر کے اقوامِ متحدہ کے کنونشن 1948ء کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ جنوبی افریقہ نے 84 صفحات پر مشتمل جو درخواست جمع کرائی‘ اس میں کہا گیا کہ اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے مترادف ہیں۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیلی حکام کے وہ عوامی بیانات اس امر کے گواہ ہیں جن میں تباہی اور نسل کشی کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے 1948ء میں جاری کردہ نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کے مطابق نسل کشی کا مطلب ہے کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ و نابود کرنے کے ارادے سے کارروائیاں کرنا اور شدید جسمانی نقصان پہنچانا۔ غزہ میں اس وقت یہی سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ جنوبی افریقہ کے دلائل کی مضبوطی کا تجزیہ کرنے کے لیے امریکہ کے مشہور روزنامہ ''دی وال سٹریٹ جرنل‘‘ کی ایک رپورٹ کا حصہ ہی کافی ہے جو 30دسمبر 2023ء کو شائع ہوئی‘ جس کے مطابق غزہ کے 36 ہسپتالوں میں سے زیادہ تر اب غیر فعال ہیں‘ صرف 8ہیلتھ کئیر سنٹرز باقی رہ گئے ہیں۔ غزہ کے تاریخی امتیازی آثار بشمول بازنطینی دور کے گرجا گھر، مساجد، عمارتیں اور سکول نابود ہو چکے ہیں جبکہ بیس لاکھ سے زائد آبادی کے لیے بجلی اور پانی پچھلے تین ماہ سے بند ہیں۔ غزہ کی پچاس فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ انفراسٹرکچر بری طرح برباد ہو چکا ہے۔ اب تک 23ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں لگ بھگ دس ہزار سے زائد بچے ہیں۔ 115 سے زائد صحافی بھی اس دوران ہلاک ہو چکے ہیں جو کسی بھی جنگ میں سب سے زیادہ تعداد ہے جبکہ 60 ہزار سے زائدفلسطینی شہری زخمی ہوئے ہیں۔ یو نیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی بمباری سے غزہ میں ہر روز اوسطاً10 بچے معذور ہو رہے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے وکلا نے عالمی عدالت میں صہیونی جارحیت کی وڈیو ز بھی دکھائیں جن کو دیکھ کر اسرائیلی وکلا کی ٹیم بھی حیران رہ گئی۔ جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت سے اپیل کی کہ وہ غزہ میں فوری جنگ روکنے کے احکامات جاری کرے۔ عالمی عدالت میں افریقی وکیل نے کہا کہ اس سے بڑھ کر نسل کشی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آ ئی سی یو میں موجود نومولود بچوں کو وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا گیا۔ اسرائیل نے غزہ میں جو تباہی مچائی اس پر باقاعدہ جشن بھی منایا، غزہ کے علاقوں کو کھنڈر بنا کر اسرائیل نے وہاں اپنے جھنڈے لہرائے، اسرائیلی فوجی سرعام غزہ کی عمارتوں کو بموں اور بارودی مواد سے اڑا کر وڈیوز بناتے رہے۔ اسرائیل کا نسل کشی کا مقصد اس کے جارحانہ اقدام سے واضح ہے۔ یہ عالمی عدالتِ انصاف کے سامنے نسل کشی کا رواں صدی کا سب سے بڑا مقدمہ ہے۔ اسرائیل یہ سمجھتا تھا کہ وہ ہفتے‘ دس دن میں حماس کا مکمل خاتمہ کر دے گا لیکن دنیا میں شدید رسوا ہونے کے باوجود حماس کو ختم کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ ہزاروں شہریوں کی قربانی کے باوجود غزہ کے مسلمان‘ حماس کے مجاہدین اور ان کی قیادت‘ سبھی پُرعزم ہیں۔ اسرائیلی فوج کا زمینی انخلا پسپائی کی شہادت دے رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اب اس کوشش میں ہیں کہ حماس کو تنہا مقابلہ کرنا پڑے‘ اس لیے لبنان میں حماس کے اہم رہنما کو ڈرون حملے میں نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا لیکن حماس کی جانب سے کسی کمزوری کا اظہار نہیں کیا گیا۔ حماس کے رہنما صالح العاروری کی شہادت پر لبنان حکومت نے اسے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ گویا انسانی تاریخ یہ منظر ایک بار پھر دیکھ رہی ہے کہ کمزوروں کا گروہ طاقتوروں کا مقابلہ کیسے کرتا ہے۔ منظر عام پر آنے والی رپورٹس کے مطابق شمالی کوریا بھی فلسطین کی مدد کے لیے میدان میں اتر آیا ہے۔ جنوبی کوریا کے خفیہ ادارے نے تصدیق کی کہ غزہ کی عسکری تنظیم حماس اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شمالی کوریا میں بنائے گئے ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ شمالی کوریا ایسی رپورٹس کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے۔ قبل ازیں وائس آف امریکہ کی کوریائی زبان کی سروس نے بھی یہ رپورٹ دی تھی کہ حماس نے شمالی کوریا کے ایف سیون راکٹ استعمال کیے۔ اسرائیل پر داغے جانے والے کئی راکٹوں پر کوریائی زبان تحریر تھی۔
دوسری جانب غزہ کی جنگ کی آگ پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیلتی جا رہی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے یمن کے حوثیوں کے خلاف نیا محاذ کھول لیا ہے۔ یاد رہے کہ یمن دنیا میں واحد ملک ہے جس نے اسرائیل کے خلاف باقاعدہ جہاد کا اعلان کر رکھا ہے۔ فلسطینی حمایت میں پیش پیش رہنے والے یمن کے حوثیوں پر امریکی و برطانیہ نے فضائی حملے کیے ہیں جس کے بعد یمن کے انقلابی رہنما عبدالمالک بدر الدین الحوثی نے امریکہ و برطانوی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اپنی قوم کو پیغام دیا کہ دشمن کو میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا جائے گا۔ کیا امریکی، برطانوی اور صہیونی یہ سمجھتے ہیں کہ یمن پر حملہ کرنے سے حوثی غزہ کے دفاع سے باز آ جائیں گے؟ عبدالمالک حوثی نے کہا کہ ہم قسم کھاتے ہیں کہ ہم غزہ کا دفاع نہیں چھوڑیں گے۔ عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق لڑاکا طیاروں، بحری جہازوں اور آبدوزوں کے ذریعے یمن کے دارالحکومت صنعا، ساحلی شہر حدیدہ اور شمالی شہر سعدہ کے درجنوں مقامات پر بمباری کی گئی۔ امریکی و برطانوی حملوں میں ٹام ہاک میزائل کا استعمال کیا گیا۔ سعودی عرب نے امریکی و برطانوی حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے کہ حوثیوں نے گزشتہ برس خبردار کیا تھا کہ بحیرہ احمر میں اسرائیل اور اس کے حامیوں کے آنے‘ جانے والے سبھی جہازوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ گزشتہ سال نومبر اور دسمبر میں اسرائیل کے بحری جہازوں پر حوثی حملوں میں 500 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
بحیرۂ احمر براعظم ایشیا اور افریقہ کے درمیان‘ شمال میں نہر سویز کے ذریعے بحیرہ روم اور جنوب میں بحر ہند کے ساتھ ملنے والا 2250 کلومیٹر لمبا اور 255 کلومیٹر چوڑا سمندر ہے۔ بحیرۂ احمر کو بحرِ ہند سے جدا کرنے والی پانی کی پٹی صرف 20 میل چوڑی ہے۔ اسے باب المندب کہتے ہیں۔ اس پٹی کے ایک جانب یمن اور دوسری جانب افریقی ملک جبوتی (Djibouti) واقع ہے۔ جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے بحیرۂ احمر کو مشرقِ وسطیٰ اور بحر ہند کے جیو پالٹیکس میں زمانہ قدیم سے جو اہمیت حاصل رہی ہے‘ وہ ابھی تک برقرار ہے۔ بحیرۂ احمر تیل و قدرتی گیس اور دیگر اشیا کی نقل و حمل کے لیے دنیا کی اہم ترین تجارتی آبی گزرگاہ ہے۔ S&P Global Market Intelligence کے ایک حالیہ تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ ایشیا اور خلیج میں یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں 15 فیصد اشیا بحیرۂ احمر کے راستے بھیجی جاتی ہیں جن میں 5.21 فیصد ریفائنڈ تیل اور 13 فیصد خام تیل کی مصنوعات شامل ہیں۔
اس وقت سعودی عرب کے جنوب میں ایک پسماندہ ملک یمن بڑی طاقتوں کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ یمن کے حوثی کھلم کھلا اسرائیل کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ جب 24 نومبر 2023ء کو حوثیوں نے اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنایا تھا تو صرف تین گھنٹے کے اندر اسرائیل گھٹنے ٹیکتے ہوئے سیز فائر پر مجبور ہو گیا تھا۔ امریکہ و برطانیہ کی مذموم منصوبہ بندی یہی ہے کہ چونکہ بحیرۂ احمر میں امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس سمیت بڑی طاقتوں کے جہاز چلتے ہیں‘ اس لیے وہ غزہ پر جارحیت کے ذریعے حماس کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ نہ صرف غزہ پر قبضہ کر لیا جائے بلکہ غزہ کی 3 سے 7 ٹریلین کیوبک فٹ گیس بھی یورپ استعمال کرے اور اس کے ساتھ ساتھ غزہ پٹی کا بھی قلع قمع کر دیا جائے۔ امریکہ کے لیے اسرائیل کو روکنا بہت آسان تھا لیکن امریکہ خود اس جنگ میں کود پڑا جو اس کی اپنی جنگ نہیں لیکن وہ اسرائیل کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھتا ہے۔ حوثی کافی عرصے سے امریکہ کو للکار رہے تھے کہ آئو بحیرۂ احمر میں ہمارا مقابلہ کرو اور امریکہ اس سے دور بھاگ رہا تھا مگر اب ایسا لگتا ہے کہ امریکہ بری طرح اس گھن چکر میں پھنس گیا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق امریکہ اور برطانیہ نے آسٹریلیا، ہالینڈ، بحرین اور کینیڈا کی حمایت سے یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر مشترکہ حملے کیے ہیں جس کے لیے قطر کی العدید ایئربیس کو بھی استعمال کیا گیا۔
دوسری طرف ایران اور شام نے غیر مشروط طور پر یمن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ایران سے وابستہ ملیشیا عراق میں امریکی فوجیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ صنعا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر یمنی جنگی طیاروں کی تیاریاں جاری ہیں اور حوثیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے صنعا میں امریکہ کا ایک جدید ترین F22 طیارہ مار گرایا ہے۔ یمن پر امریکی اور برطانوی حملوں کے بعد تیل کی قیمتوں میں اچانک 2.5 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کئی امریکی جاسوس طیارے لبنان کے ساحل پر بھی تعینات کر دیے گئے ہیں۔ سلطنت عمان نے یمن جانے والے کسی بھی فوجی طیارے کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ادھر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے یمنی ردعمل کے خوف سے اپنے تمام فضائی دفاعی نظام کو چوکس کر دیا ہے۔ سعودی عرب یمن پر 'گہری تشویش‘ کے ساتھ فضائی حملوں کی کڑی نگرانی کر رہا ہے جبکہ سعودی عرب نے بحیرہ احمر میں سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی زوردیا ہے۔ یمن کے حوثیوں کی تنظیم انصار اللہ نے علاقائی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ ''اگر آپ نے اپنی فضائی حدود امریکہ اور برطانیہ کے لیے کھول دیں تو آپ ہمارے ساتھ باضابطہ طور پر جنگ میں ہیں‘‘۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مغرب کو خبردار کیا ہے کہ وہ یمن میں کسی قسم کی حماقت کے ارتکاب سے باز رہے۔
کوئی تبصرے نہیں