لاہور کا سحر اور وحید صابر کے خیالات!!!

محمد اکرم چوہدری 

 جیا… ڈبائی کے ایک بے یارو مددگار مہاجر کو انتظار حسین میں ڈھال دیا… انبالہ کا ناصر رضا اس کی آنکھوں کے سامنے ناصر کاظمی بنا… منٹگمری کے محمد منیر کو کھلے دل سے منیر نیازی کی شناخت دی… غرض یہ کہ دلاور علی کو میرزا ادیب، شیر محمد کو ابنِ انشا، قدسیہ چٹھہ کو بانو قدسیہ، محمد اختر کو ساغر صدیقی، ملک واصف کو واصف علی واصف، عبدالحئی کو ساحر لدھیانوی، اورنگزیب خان کو قتیل شفائی،اللہ وسائی کو نورجہاں، رگھو پتی سہائے کو فراق گورکھپوری، غلام مصطفی کو صوفی تبسم کی پہچان اسی شہرِ طلسمات کی دین ہے۔ پھر یہ بات بھی آپ سب جانتے ہیں کہ مولانا ظفر علی خاں، حمید احمد خاں، حفیظ جالندھری، مولانا صلاح الدین احمد، استاد دامن، کرشن چندر، فکر تونسوی، کنہیا لال کپور، احسان دانش، اشفاق احمد، مستنصر حسین تارڑ،حبیب جالب،خورشید رضوی جیسے اہلِ کمال کو علمی و ادبی عظمت اسی شہرِ دل پذیر کی بخشی ہوئی ہے۔انھی ادبی فتوحات کی بنا پر یونیسکو نے حال ہی میں نہایت بجا طور پر اس شہر کو ’’ شہرِ ادب‘‘ قرار دیا ہے۔

باقی رہ گیا کہ لاہور کی عمر کیا ہے جب برطانوی ماہرین نے 1959 میں یہاں کھدائی کی تو انھیں یہاں سے چار ہزار سال پرانے مٹی کے برتن ملے تھے۔ اسی طرح محلہ مولیاں میں 2900 سال پرانے نوادارات ملے۔ یہ وہ دور ہے جب ہڑپہ ختم ہو رہا تھا۔ تو یہ بالکل صاف ہے کہ لاہور یہاں پر شروع سے آباد ہے اور یہ ہڑپہ کے دور سے شروع ہوتا ہے۔



تو کیا ہم اپنی باری لے چْکے بس

تو کیا اب ہم ہیں رزقِ یاد مولا

تو کیا یہ سب بساطِ رنگ و مستی

بچھے گی اب ہمارے بعد مولا

تو کیا یہ ہمدمی دائم رہے گی؟

یہ غم ہے کیا مِرا ہمزاد مولا

ہمارے چاہنے والے ہمیں اب

نہیں دیکھیں گے کیا دلشاد مولا

یہ جان و مال میرے تجھ پہ صدقے

ترے محبوب پر اولاد مولا

مرے لاہور پر بھی اک نظر کر

ترا مکہ رہے آباد مولا

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.