ریفرنڈم یا الیکشن

 


منصور آفاق

یہ واقعہ خاصا پرانا ہے مگر نہ پاکستان کے حالات بدلتے ہیں اور نہ ہی زندگی کے واقعات پرانے ہوتے ہیں ۔یہ حیرت انگیز واقعہ جب بھی اس طرح کی صورتحال پیدا ہوتی ہے، مجھے یاد آجاتا ہے۔


میڈم نورما ایک ایسی برطانوی خاتون ہے جو ماورائی مخلوقات کے رابطے کی وساطت سے ماضی اور مستقبل میں جھانکنے کی قوت رکھنے کے بارے میں مشہور ہے۔ ایک دوست کی وساطت سے اُس سے ملاقات کیلئے آدھ گھنٹہ کا وقت ملا۔ میں اپنی بیگم کے ساتھ وہاں گیا۔ ایک لمبی ڈرائیو کے بعد قدرے ویران اور نیم تاریک راستہ سے ہوتے ہوئے ہم ایک بڑی سی مینشن نما عمارت میں داخل ہوئے۔ عمارت بظاہر کسی بھوت بنگلہ سے کم نہیں تھی۔ دیواروں پر جگہ جگہ کائی کی ہریالی تھی کسی کیتھیڈرل کی کھڑکیوں کی طرح رنگین شیشوں سے صدیوں کے دبیز پردے جیسے کبھی اٹھائے ہی نہیں گئے تھے، اندر سے کہیں دور کوئی شمع سی جلتی محسوس ہو رہی تھی، باہر کچھ اندھیرے سایوں کی وحشت، کچھ درجہ حرارت کی کمی اور کچھ تیز ہوا کی سائیں سائیں نے ماحول پر ایک ڈرائونا ساہو کا عالم طاری کر رکھا تھا۔ گاڑی ایک آہنی دروازے میں سے ایک کھلے اور روشن میدان میں عمارت کے استقبالیہ کے قریب کھڑی کرنے کے بعد جب ہم صدر دروازے کے قریب پہنچے تو میں نے پلٹ کر دیکھا۔ یہ میدان دراصل عمارت کے سامنے ایک ایسے باغیچہ کا حصہ تھا جِس میں دور دور تک صرف جھاڑیاں یا سوکھے ہوئے پودے اور درخت پاکستانی عوام کی طرح چیخ چیخ کر ان گنت محرومیوں کے موسموں کی داستان سنا رہے تھے۔ کچھ خزاں تھی اور کچھ سناٹا تھا کہ پائوں میں سوکھے پتے حشر کا سماں الاپتے محسوس ہو رہے تھے۔ نظر ایک لمحہ کا فاصلہ کئی برس میں طے کرتے ہوئے صدر دروازے پر اٹک گئی۔ رنگ اور وارنش سے بے نیاز بڑا سا پرانی لکڑی کا دروازہ جِس پرایک بڑا سا زنگ آلودہ آہنی اور چند ایک آرائشی بڑے بڑے کیلوں کے ابھرے ہوئے سر، بلب کی روشنی میں برسوں سے کسی نامعلوم آزمائِش میں گڑے ہوئے دِکھائی دیتے تھے۔ دروازہ پر دستک دیتے ہی چھت کی منڈیر کے کسی ٹوٹے ہوئے بوسیدہ حصے میں چھپا ہوا کوئی کبوتر کسی بدروح کی طرح پھڑ پھڑاتے ہوئے ہوا میں غائب ہو گیا ۔ میرے بدن میں جھرجھری آئی اور ایک چڑچڑاتی ہوئی آواز کے ساتھ لکڑی کا پرانا دروازہ تھوڑا سا کھلا۔ اس کے کھلنے کی آواز شاید سڑک تک سنائی دی ہو گی۔ سامنے ایک بڑی سی موم بتی والا لیمپ ہاتھ میں لئے ایک بوڑھی عورت کھڑی تھی اس نے ہماری طرف سرسری نظر سے دیکھا اور سر جھکا کر ہمیں اندر آنے کا اشارہ دیا۔ ایک طویل اور وسیع و عریض راہ داری سے گزر تے ہوئے ہم ایک کشادہ سے کمرہ میں آ گئے جس میں کسی طرح کا کوئی فرنیچر موجود نہیں تھا۔ راہ داری میں البتہ خاص تزئین و آرائِش کا ثبوت ملتا تھا۔ دیواروں کا رنگ اور وال پیپر اگرچہ اپنی طبعی عمر عرصہ سے پوری کر چکنے کے بعد شاید دوسرے یا تیسرے جنم کے سلسلوں سے گزر رہا تھا مگر ہر دو تین فُٹ کے فاصلے پر بڑے بڑے لکڑی کے فریموں میں قدیم گرجوں، حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ ؑکی مصلوب حالتوں میں تصاویر آویزاں تھیں۔ مختلف طاقوں میں موم بتیاں بھی روشن تھیں۔ یہاں کمرہ میں صرف دیواروں کے ساتھ ساتھ کچھ فاصلوں پر صلیب کی شکل کے قدیم زنگ آلود آہنی کینڈل اسٹینڈ کھڑے تھے اور ہر ایک میں مومی شمع جل رہی تھی۔ روشنی بہت کم تھی۔ ہم اس کمرے میں سے گزر کر ایک اور قدرے چھوٹے کمرے میں داخل ہوئے۔ درمیان میں لکڑی کا دس بارہ انچ قطر کا ایک گول مینارہ سا تھا زمین سے تقریباً تین فٹ اونچا۔ اس کے اوپر لوہے کی ایک کڑاہی نما چیز فٹ تھی جس میں ایک بڑی مشعل جل رہی تھی۔ ایک طرف بیٹھنے کیلئے پرانے زمانے کا لکڑی کا ایک صوفہ بھی پڑا ہوا تھا۔ فضا میں ’’ہوانا‘‘ سگار کی خوشبو رچی ہوئی تھی۔ یہاں پراسراریت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اس عورت نے ہمیں اشارہ سے وہیں بیٹھ جانے کیلئے کہا اور خود ایک چھوٹے سے دروازے سے اندر کہیں چلی گئی۔ اچانک اس کمرے میں ایک آواز گونجی یہ ایک ایسی آواز تھی جیسے بہت سی عورتیں بیک وقت بول رہی ہوں۔ اُس سے بیگم نے کچھ سوال جواب کئے پھر میری باری آئی تو میں نےذاتی سوالوں کے علاوہ ایک سوال پاکستان کے متعلق بھی کیا کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات کب ہونگے۔ میڈیم نورما نے کہا ’’الیکشن تو نہیں دکھائی دے رہے مگر کسی نئی حکومت کے اشارے مل رہے ہیں۔ الیکشن کے بغیر بننے والی نئی حکومت سے نتیجہ میں نے ’’قومی حکومت‘‘ یا پی ٹی آئی کے بغیر تمام پارٹیوں کے اتحاد کی حکومت کا نکالا اور وہاں کی منظر کشی اس لئے کی کہ ایسی پیشین گوئیاں کرنے والے ایسے حالات میں رہتے ہیں جیسے ان دنوں پاکستان کے دھند میں ڈوبی سیاسی صورتحال ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کےلئے کسی ریفرنڈم کا کوئی امکان ہے یا اس کی ضرورت نہیں محسوس کی جائے گی۔ سینیٹ کی قرارداد پر کوئی جج اپنے پر یہ تاریخ ساز داغ سجا لے گا۔ دوستو بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ سوائے ٹینشن اور ڈپریشن کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا جو سردیوں میں اور زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔ لوگ خود کشیاں کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت ایسے افراد کو جن کی تازہ تازہ اوپن ہارٹ سرجری ہوئی ہے، انہیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ یعنی جن پی ٹی آئی والوں کے دل بدلنے کا عمل ابھی ابھی ہوا ہے جنہیں ٹکٹ دینے کا اعلان نون لیگ نے کیا ہے، وہ خطرے کے نشان سے نہیں نکلے۔ ایسے موسم میں ہمارے پیارے آئندہ کے طے شدہ وزیر اعظم کی صحت کی خرابی کا بھی مسلسل خطرہ ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ نواز شریف اپنے لندن والے اسپتال تک پہنچ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ غیب کی باتیں تو صرف اللہ جانتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.