سردار شہروز خان بہتر ہے۔۔۔!!!

   شوکت علی ملک

ویسے تو ہمارے علاقے کی بدقسمتی ہے کہ یہاں بھی چند خاندان ہی سیاست پہ قابض ہیں مگر ان خاندانوں میں نئے چہرے سامنے آنا بھی گویا ایک اچھی تبدیلی ہے اور راقم بذات خود علاقائی سیاست میں نئے چہروں اور خصوصاً نوجوان قیادت کے آگے آنے کو خوش آئند قرار دیتا ہے، کیونکہ ایک پڑھا لکھا وژنری نوجوان لیڈر ہی علاقے کی تعمیر ترقی کےلیے بہترین کام کرسکتا ہے۔


اور پھر ایک ایسا شخص جس کی پہچان ہی فلاحی کاموں سے ہو اس کا سیاست میں آنا نیک شگون ہوگا، ہمارا علاقہ ابھی تک بنیادی سہولیات کی فراہمی سے محروم ہے، ایسے میں سردار شہروز خان ٹمن جوکہ ایک نوجوان پڑھے لکھے اور فلاح انسانیت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی شخصیت ہیں۔ انہوں نے ٹمن میں ایک ویلفیئر سوسائٹی کے چیئر پرسن کی حثیت سے کئی ایک اہم ترین فلاحی پروجیکٹس لگائے ہیں جوکہ ان کے فلاح انسانیت کے جذبے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔


گزشتہ دنوں شادی کی ایک تقریب میں جاتے ہوئے راقم کی جب سردار شہروز خان ٹمن سے گفتگو ہوئی اور سیاسی میدان میں قدم رکھنے بارے سوال کیا تو انکا یہی کہنا تھا کہ ہمیشہ سے فلاح انسانیت کے کاموں میں دلچسپی ہے، مگر بدقسمتی سے اتنے زیادہ وسائل نہ ہونے کے باعث یہ کام سر انجام دینا انتہائی مشکل ہے جس کےلیے آپ کے پاس اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں نمائندگی لازمی ہے تب ہی آپ علاقے کی حقیقی معنوں میں خدمت کرسکتے ہیں۔


ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاست میں آکر روایتی سیاستدانوں کی طرح پروٹوکول انجوائے کرنا اور مال بنانا ہرگز مقصد نہیں بلکہ علاقائی محرومیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مشکل حالات میں سیاسی میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اگر علاقے کی عوام اور خصوصاً نوجوان نسل نے اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعے موقع فراہم کیا تو توقعات سے بڑھ کر علاقائی تعمیر و ترقی اور مسائل کے حل کےلیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گے، اور تمام تر علاقائی محرومیوں کا خاتمہ اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔


مگر دوسری جانب انتہائی مثبت سوچ کی حامل شخصیت سردار شہروز خان ٹمن کے بازو مظبوط کرنے کی بجائے ان کے اپنے کئی ایک مہربان ان کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف عمل ہیں، اور ن لیگی کی اعلیٰ قیادت بھی ان کو ٹکٹ دینے سے گریزاں ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ ایک پڑھے لکھے وژنری نوجوان لیڈر کو موقع فراہم کیا جاتا کہ وہ اپنی مثبت سوچ کی حامل قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار کاتے ہوئے علاقائی تعمیر و ترقی کےلیے قابلِ قدر خدمات انجام دے سکے۔ مگر بدقسمتی سے ہماری ہاں تو ہمیشہ الٹی گنگا ہی بہتی ہے۔


تو ایسے میں ماضی کے حالات و واقعات اور سیاسی لیڈران کی کئی دہائیوں پر محیط مایوس کن کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ پرانے پاپیوں اور مردہ سیاسی گھوڑوں کو زندہ کرنے اور ایک بار پھر اپنے اوپر مسلط کرکے خود کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو مسائل کی دلدل میں دھکیلنے کی بجائے ایک نوجوان لیڈر جو کہ ہر لحاظ سے باقی تمام امیدواران سے بہتر ہیں اور فلاح انسانیت کا جذبہ لیے مثبت سوچ کیساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ان کو بھی ایک موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.