چینی ماڈل
جاوید چوہدری
میرا جواب تھا ’’مجھے خطرہ ہے اگر آپ کی حکومت بن گئی تو میاں نواز شریف ماضی کی طرح اس بار بھی فوج سے لڑ پڑیں گے اور یوں آپ پانچ سال پورے نہیں کر سکیں گے‘‘ میرے میزبان نے ہنس کر کہا ’’جی نہیں‘ اس بار ایسا نہیں ہو گا‘ میاں نواز شریف پہلی مرتبہ اپنی مدت پوری کریں گے‘ ہم اس بار فوج سے نہیں لڑیں گے‘‘۔
میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ میزبان کا جواب تھا ’’شریف فیملی 35 سال بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے ہم نے اگر سیاست کرنی ہے تو ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنا پڑے گا‘ فوج کے ساتھ ہماری جنگ کے بعد عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور نہ ہمارے عالمی دوست‘ ہم ہر بار اکیلے ہوتے ہیں اور ہم سیاسی‘ معاشی اور کاروباری نقصان بھی اٹھاتے ہیں چناں چہ اب ہمارے پاس صرف دو آپشن ہیں‘ ہم سیاست چھوڑ دیں یا ہم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلیں اور میاں صاحب نے اس بار دوسرا آپشن لے لیا ہے‘ ہم فوج سے نہیں ٹکرائیں گے‘‘ ۔
میں نے میزبان سے اتفاق کیا‘ مجھے ان کے تجزیے میں جان محسوس ہوئی‘ پیپلز پارٹی کو چالیس سال کی تھکا دینے والی جدوجہد اور ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قربانی کے بعد اس حقیقت کا ادراک ہوا تھا‘ محترمہ بے نظیر بھٹو 2007 میں امریکا کی مدد سے پاکستان واپس آئیں‘ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے جنرل پرویز مشرف کو مجبور کر کے بے نظیر بھٹو کے سامنے بٹھایا اور محترمہ این آر او کے تحفے کے ساتھ فاتح کی حیثیت سے 18 اکتوبر2007کو پاکستان پہنچیں لیکن اس کا کیا نتیجہ نکلا؟
یہ صرف دو ماہ میں دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں‘ محترمہ کے بعد آصف علی زرداری کے پاس بھی دو آپشن تھے‘ یہ ’’نہ کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر عمران خان بن جاتے یا پھر کھپے کا علم اٹھا لیتے‘ زرداری صاحب نے دوسرا آپشن لیا اور انھوں نے اقلیتی پارٹی ہونے کے باوجود وفاق میں بھی حکومت بنائی اور یہ مسلسل 15 سال سندھ کے حکمران بھی رہے‘ اس دوران زرداری فیملی پر کیا کیا کیس نہیں بنے لیکن زرداری فیملی اس کے باوجود ملک میں بھی رہی اور اقتدار میں بھی‘ یہ جلاوطنی سے بھی بچ گئی اور اسے در در کی ٹھوکریں بھی نہیں کھانی پڑیں۔
اب عمران خان کے بعد پیپلز پارٹی کا خیال تھا پی ٹی آئی کا ملبہ ان کے حصے آ جائے گا لیکن یہ ملبہ اور اقتدار دونوں میاں نواز شریف کو مل رہے ہیں مگر آصف علی زرداری یہ زخم بھی برداشت کر رہے ہیں‘ یہ اب بھی احتیاط کا دامن نہیں چھوڑ رہے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ جانتے ہیں اس کا انجام طویل جلاوطنی‘ پارٹی کے خاتمے اور سرمائے کی بربادی کی شکل میں نکلے گا لہٰذا یہ آج بھی افہام و تفہیم کا پرچم اٹھا کر پھر رہے ہیں۔
یہ 2024 کے الیکشنز میں سندھ میں حکومت نہیں بنا پاتے تو بھی یہ خاموش بیٹھ کر اپنے وقت کا انتظار کریں گے‘ یہ لڑنے اور ’’حقیقی آزادی‘‘ کی غلطی نہیں کریں گے‘ یہ فراست انھیں 40 سال کی مسلسل خواری کے بعد ملی‘ یہ اسے چند سال کے اقتدار کے لیے کبھی ضایع نہیں کریں گے‘ میاں نواز شریف بھی 35سال کے تجربات کے بعد یہ باریک نقطہ سمجھ پائے ہیں چناں چہ یہ بھی اس بار یہ غلطی نہیں کریں گے‘ یہ مریم نواز کو وزیراعظم بنانے کے لیے پانچ سال پورے کریں گے‘ یہ اس بار پرانی غلطی نہیں دہرائیں گے۔
عمران خان کو بھی اب یہ نقطہ سمجھ لینا چاہیے‘ ہم تیسری دنیا ہیں اور تیسری دنیا میں صرف طاقت کی پرستش ہوتی ہے یہاں انقلاب اور حقیقی آزادی صرف خوابوں میں ممکن ہے اور یہ اس وقت تک خوابوں میں رہے گی جب تک سیاسی لیڈرز اور عوام ایک نہیں ہوتے اور ہمیں اس منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت لمبا سفر طے کرنا ہے‘ یہ پانچ دس سال کی بات نہیں مگر سیانے کہتے ہیں جب انسان کی مت ماری جاتی ہے تو پھر اسے سامنے پڑی حقیقتیں بھی دکھائی نہیں دیتیں اور عمران خان اس وقت اس عمل سے گزر رہے ہیں۔
آپ ان کی عقل کا اندازہ توشہ خانہ اور سائفر کے مقدموں سے لگا لیجیے‘ یہ وہ کیس تھے جنھیں ان کے وکیل چھ ماہ تک کھینچ سکتے تھے‘ سائفر میں 25 اور توشہ خانہ کیس میں 16گواہ تھے‘ یہ اگر ان گواہوں پر پانچ پانچ گھنٹے جرح کرتے‘یہ اگر سوال کر کے ان کی مت مار دیتے تو عدالت بے بس ہو جاتی‘آخر میں عمران خان کو بے شک سزا ہو جاتی لیکن وکلاء یہ مقدمے پروفیشنلی لڑ کر ٹائم بھی گین کر لیتے‘ اپنی مہارت کا ثبوت بھی دے دیتے اور عمران خان کے لیے عوام کی ہمدردی بھی سمیٹ لیتے مگر بدقسمتی سے وکلاء مقدموں کی فائنل اسٹیج پر عدالت سے ہی غائب ہو گئے۔
انھوں نے بائیکاٹ کر دیا اور یوں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزائیں ہو گئیں جب کہ ان کے مقابلے میں عدت میں نکاح کے کیس میں وکلاء کو بحث نہیں کرنی چاہیے‘ اس میں چاہیے تھا عمران خان اور بشریٰ بی بی خاموش رہتے‘ ان کے وکلاء عدالت میں پیش نہ ہوتے‘ دونوں 342 کے بیان میں الزامات مسترد کر دیتے اور اس کیس کا فیصلہ ہونے دیتے‘ اس سے ان کی عزت بچ جاتی اور سو لوگوں کے سامنے ان کی عائلی زندگی کے راز بھی نہ کھلتے لیکن آپ عقل دیکھیے‘ جو کیس لڑنے چاہیے تھے ان کے وکلاء نے ان کا بائیکاٹ کر دیا اور جس مقدمے میں زبان بند ہونی چاہیے تھی اس میں وکلاء نے خواتین اور غیرمردوں کے سامنے چودہ چودہ گھنٹے بحث کی‘ بشریٰ بی بی کے اپنے وکیل عثمان گل نے خاور فرید مانیکا سے بیڈ رومز کی باتیں پوچھیں۔
’’مینوپاز‘‘ تک کی باتیں ہوئیں‘ مانیکا کو یہ تک کہنے پر مجبور کیا گیا میرے بیڈ روم میں عمران خان کا مساج ہوتا تھا‘ خاور مانیکا نے ذلفی بخاری اور جہانگیر ترین کے وہ پیغامات بھی عدالت میں دکھا اور سنا دیے جن سے جج صاحب اور وکلاء کو بھی شرم آ گئی‘ بشریٰ بی بی کے بچوں اور بیٹوں کے وہ پیغام بھی پڑھے گئے جن سے عدالت کے کان سرخ ہو گئے جب کہ سلیمان اکرم راجہ دو گھنٹے عدالت میں خواتین کے ایام ڈسکس کرتے رہے اور یہ کارروائی عمران خان کی بہنوں‘ بشریٰ بی بی اور خواتین وکلاء کی موجودگی میں ہوئی۔
اس مقدمے میں جج قدرت اللہ نے دفعہ 496 بی ختم کر کے عمران خان اور بشریٰ بی بی پر ایک ایسا احسان کیا جس کا شکریہ یہ برسوں تک ادا نہیں کر سکتے‘ یہ غیرازدواجی تعلقات کی دفعہ ہے‘ اس کے اخراج کے بعد مانیکا کے اس ملازم محمد لطیف کی گواہی بے اثر ہو گئی جس نے اپنے حلفیہ بیان میں ڈکلیئر کیا تھا عمران خان اور بشریٰ بی بی کے درمیان غیرشرعی تعلقات تھے لہٰذا اگر مقدمے میں 496 بی برقرار رہتی تو گواہ محمد لطیف پر بھی جرح ہوتی اور اس کے نتیجے میں بھری عدالت میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے پلے کیا بچ جاتا؟
جج قدرت اللہ نے 16جنوری کو فرد جرم عائد کرتے وقت یہ دفعہ نکال دی جس کے نتیجے میں دو فروری کو محمد لطیف پر جرح نہیں ہوئی گو واقفان حال 496بی کے اخراج کو بشریٰ بی بی کی ڈیل قرار دے رہے ہیں‘ ان کا دعویٰ ہے جس دن یہ دفعہ نکلی تھی اس دن بشریٰ بی بی کی پہلی ڈیل ہوئی تھی‘ بی بی 496بی کا نتیجہ جانتی تھی چناں چہ اس نے یہ مطالبہ منوا لیا‘ بہرحال ہم اگر اسے سائیڈ پر بھی رکھ دیں تو بھی عدالت میں دو دن جو کچھ ہوا‘ وہ قابل افسوس تھا‘ یہ معزز لوگ ہیں‘ یہ خاندانی رئیس اور طاقتور بھی ہیں‘ عمران خان وزیراعظم اور بشریٰ بی بی خاتون اول رہیں لیکن ان کے وکلاء نے جرح کے نام پر ان کو عدالت میں ذلیل کر کے رکھ دیا۔
عدالت میں ’’آپ کی نسل گندی ہے‘‘ تک کے لفظ بولے گئے‘ شیطان‘ یار‘ گناہ گار اورمنافق تک کے لفظ دہرائے گئے اور پوری عدالت منہ نیچے کر نے پر مجبور ہو گئی لیکن آپ عمران خان کا اعتماد دیکھیے‘ یہ اس دوران بھی ہنستے رہے‘ عدالت میں ٹہلتے رہے‘ خاور مانیکا پر فقرے کستے رہے اور رپورٹروں کو دیکھ کر ہاتھ سے ہیٹرک کا نشان بناتے رہے‘ مجال ہے اگر کسی کو ذرا سی بھی شرم آئی ہو۔
عمران خان کے لیے اس مقدمے میں ہزار نشانیاں چھپی ہیں‘ خان کواب تک یہ سمجھ جانا چاہیے‘ یہ اگر سیاست کرنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں آصف علی زرداری اور نواز شریف کی طرح عقل کو ہاتھ مارنا ہوگا‘ انسان اوپر خدا اور نیچے ریاست سے بگاڑ کر امن سے زندگی نہیں گزار سکتا اور یہ دنیا کی تلخ ترین حقیقت ہے‘میں نجومی نہیں ہوں‘ قیافہ شناس بھی نہیں ہوں لیکن صحافت کے تیس سالوں کے تجربے کے بعدمیں یہ سمجھ سکتا ہوں عمران خان کے پاس اب بھی ایک موقع موجود ہے‘ یہ ریاست کے سامنے سرینڈر کرے‘ سمجھوتہ کرے‘ اپنی پارٹی اور خاندان بچائے‘ امن کا راستہ اختیار کرے اور 2028 کے الیکشن میں جیت کر اقتدار میں آ جائے اور یہ اس وقت کا انتظار کرے جب اس کی پارٹی اور عوام دونوں واقعی ایک جان ہوں اور پاکستان ترکی اور خان طیب اردگان بن جائے۔
اس وقت سے پہلے حقیقی آزادی صرف عدالتوں میں ایڑھیاں رگڑ سکتی ہے اور ہاں میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں ملک کے اگلے دو سال بہت اہم ہیں اگر عمران خان نہ رکا اور میاں نواز شریف نے بھی اقتدار میں آ کر ووٹ کی عزت تلاش کرنا شروع کر دی تو پھر اس ملک میں 20 سال کے لیے چینی ماڈل آ جائے گا‘ چین ویٹو پاور کے ذریعے ہمیں عالمی پابندیوں سے بچائے گا اور ملک میں صرف ایک پارٹی ہو گی اور وہ اصلی اور نسلی پارٹی ہو گی اورباقی سب لیڈرز اور پارٹیاں غائب ہو چکی ہوں گی چناں چہ یہ سب لوگ ٹھیک ہو جائیں یا پھر چینی ماڈل کا انتظار کریں‘ وہ وقت اب زیادہ دور نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں