شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے لئے آصف زرداری کا کردار
نصرت جاوید
بھاگ دوڑ کی عمر نہیں رہی۔ یہ کالم لکھنے اور ٹی وی سکرینوں پر گفتگو کے لئے بنیادی طورپر اپنے تجربے کے علاوہ ٹویٹر جسے اب ایکس کہا جاتا ہے پر انحصار کرتا ہوں۔گزشتہ چار دنوں سے مذکورہ پلیٹ فارم مگر پاکستان میں سنگدل محبوب کی طرح تھوڑی دیر کو اپنی جھلک دکھا کر غائب ہوجاتا ہے۔ ٹویٹر تک رسائی میں تعطل کے اذیت دہ وقفوں کی بابت ایک طویل کالم بھی لکھا تھا۔ وہ چھپ گیا تو سرکار کے کسی نمائندے نے دل کو جھوٹی ہی سہی تسلی دینے کے لئے رابطہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ اپنی اوقات تو عرصہ ہوا جان چکا ہوں۔سرکار کی اس مسئلہ کی بابت بے اعتنائی نے مگر ایک با رپھر یاد دلایا کہ دورِ حاضر کے حکمران لاکھوں لوگوں کے زیر استعمال ایک اہم سہولت کے فقدان کی وجوہات بیان کرنے کو آمادہ نہیں۔ اس کے باوجود ہم ایک ’’جمہوری‘‘ ملک ہونے کا ناٹک رچائے جارہے ہیں۔
ٹویٹر کی عدم دستیابی کا اگرچہ ایک فائدہ ہوا ہے۔ اپنا ٹی وی پروگرام ختم کرکے رات ساڑھے نو بجے کے قریب گھر لوٹتا ہوں تو گھر والوں سے تھوڑی گپ لگانے کے بعد کھانا کھاتے ہی بستر کا رخ کرلیتا ہوں۔دو روز سے طبیعت مضمحل تھی۔ نیند اس کے سبب پوری نہ ہوئی تھی۔ کھوئی نیند پوری کرنے کے لئے ڈاکٹر کی تجویز کردہ گولی کھائی اور بتی بجھاکر سوگیا۔ٹیلی فون سائلنٹ موڈ پر تھا۔ 12بجے کے بعد مگر مسلسل گھوں گھوں کرنا شروع ہوگیا۔ بالآخر اس پر نگاہ ڈالی تو علم ہوا کہ جس ٹی وی کے لئے ٹاک شوکرتا ہوں اسے تبصرہ درکار ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کی رات گئے ایک پریس کانفرنس کا ذکر تھا جس کے ذریعے قوم کو اطلاع یہ دی گئی تھی کہ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے مابین حکومت سازی کے لئے اتفاق ہوگیا ہے۔ جو بندوبست طے ہوا ہے اس کے مطابق آصف علی زرداری ایک بار پھر وطن عزیز کے صدر منتخب ہوکر تاریخ بنائیں گے۔شہبازشریف بھی دوبارہ وزیر اعظم کا منصب سنبھال لیں گے۔ اس کے علاوہ حکومتی عہدوں کی بندر بانٹ بھی ہوئی ہے۔ اسے قابل قدر دکھانے کے لئے ’’کچھ لو۔ کچھ دو‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جائیں گے۔
آپ سے کیا پردہ۔ منگل کی رات جس ڈرامائی انداز میں مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے مابین مک مکا (معافی چاہتا ہوں۔اتفاق رائے)کا اعلان ہوا ہے اس نے مجھے حیران نہیں کیا۔ 1985ء کے برس سے اقتدار کے کھیل کو اسلام آباد میں مقیم صحافی ہونے کے سبب بہت قریب سے دیکھ رہا ہوں۔ ’’اندر کی (کوئی) خبر‘‘ نہ ہونے کے باوجود محض تجربے کی بنیاد پر پورے اعتماد سے یہ محسوس کررہا تھا کہ بالآخر مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کو مل کر ہی حکومت بنانا ہوگی۔ انتخابات کے انعقاد سے چار ماہ قبل ہی رپورٹر کی جبلت استعمال کرتے ہوئے اندازہ ہوگیا تھا کہ نواز شریف کے چوتھی بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹنے کے امکانات معدوم تر ہوتے جارہے ہیں۔ مسلم لیگ (نون) کے سرکردہ رہ نما اپنے قائد کو زمینی حقائق سے بے خبررکھے ہوئے تھے۔ ہمہ وقت خاندان کے چندافراد اور جی حضوری مصاحبین کے ’’حصار‘‘ میں رکھے نواز شریف کو نظر بظاہر ’’جھانسہ‘‘ دیا جارہا تھا کہ ہمارے عوام کی اکثریت ا نہیں چوتھی بار پاکستان کا وزیر اعظم دیکھنے کو بے چین ہے۔
نہایت دیانتداری سے جب میں نے نواز شریف کے چوتھی بار وزیر اعظم پاکستان منتخب ہونے کے امکانات کو رد کرنا شروع کیا تو تحریک انصاف کی بھونڈی نقالی میں مصروف مسلم لیگ (نون) کی سپاہ ٹرول نے میری ’’چھترول‘‘ شروع کردی۔ تحریک انصاف 2011ء سے مجھے شریف خاندان کا ’’لفافہ‘‘ ثابت کرنے میں مصروف رہی ہے۔ یہ الزام 2018ء میں عمران خان کے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی ٹی وی سکرینوں سے میری فراغت کا باعث بھی ہوا۔ اپنے صحافتی کیرئیر میں پہلی بار ایک ادارے نے مجھے ’’مالیاتی بوجھ‘‘ ٹھہراکر ملازمت سے فارغ کردیا۔ وگرنہ ہمیشہ ہر نوکری سے ازخود مستعفی ہونے کی عادت تھی۔
عمران حکومت کے دوران ایک ٹی وی چینل کو محترمہ مریم نواز صاحبہ کی پرویز رشید صاحب کے ساتھ ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو بھی فراہم کردی گئی تھی۔ان کے مابین ہوئی گفتگو نے مجھے شریف خاندان سے ’’ٹوکریاں‘‘ لینے والا صحافی بھی بنادیا۔ اب حکومت میں آنے سے قبل ہی مسلم لیگ (نون) نے میری چھترول شروع کردی ہے۔حکومت سازی کے چند ہی دن بعد اپنے برے دن لوٹنے کا لہٰذا انتظار کررہا ہوں۔زندگی کا کافی عرصہ گزارلیا ہے۔ جو رہ گئی ہے وہ ماضی کی طرح اکثر حکومت کے عتاب ہی میں گزرے تو حیرت نہیں ہوگی۔
اصل موضوع کی جانب لوٹتے ہوئے اصرار کروں گا کہ شہباز شریف صاحب کی وزارت عظمیٰ پر واپسی 8فروری2024ء کے انتخابات سے قبل ہی طے ہوچکی تھی۔ آپ کو اس ضمن میں شبہ ہے تو تھوڑی دیر کو تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر پاس ہوئے ان قوانین کو یاد کرلیں جن کے ذریعے ’’ان‘‘ کو وفاقی حکومت کیساتھ ’’ایک پیج‘‘ پر یکجا ہونے کو یقینی بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے شہباز شریف صاحب فرانس گئے تھے۔ وہاں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران وہ آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کی توجہ لینے کو بے چین رہے۔ ان کی بھرپور کاوشوں کی بدولت بالآخر عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ اس امر پر رضا مند ہوا کہ پاکستان کی معیشت کو ’’ہنگامی طبی امداد‘‘ کی صورت 3ارب ڈالر کی رقم تین قسطوں میں فراہم کی جائے۔ مذکورہ رقم کی فراہمی کا جو بندوبست ہوا وہ انتخابات کا ا نعقاد یقینی بنانے کا سبب بھی ہوا۔مجھے سو فیصد یقین ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ شہباز شریف کے جو مذاکرات ہوئے ہیں ان میں چند ایسے اقدامات بھی طے کرلئے گئے ہیں جنہیں 8فروری کے بعد ’’منتخب‘‘ کہلاتی حکومت کے ذریعے لاگو کرنا مقصودہے۔
کوئی پسند کرے یا نہیں شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوانے میں آصف علی زرداری نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ اگر اس کے عوض ایک بارپھر پاکستان کا صدر منتخب ہوکر تاریخ بنانے کے خواہاں ہیں تو مسلم لیگ (نون) ان کی خواہش کو سختی سے رد کرنے کی قوت کی حامل نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی کے ووٹوں کے بغیر شہباز شریف کا وزیر اعظم منتخب ہوناممکن ہی نہیں تھا۔ انتخابی نتائج اسے پیپلز پارٹی سے سمجھوتوں پر مجبور کرچکے ہیں۔ کائیاں سیاستدان ہوتے ہوئے آصف علی زرداری نے مسلم لیگ (نون) کی مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔سیاست اپنی قوت کو بھرپور اور بروقت انداز میں استعمال کرنے کا نام ہی تو ہے۔ میری توقع کے عین مطابق لہٰذا پی ڈی ایم (2)کی حکومت کا آغاز ہونے والا ہے۔ سیٹ بند خواتین وحضرات باندھ لیں او جہاز اڑجانے کے بعد بھی انہیں باندھے رکھیں۔ دوران پرواز آپ کو اکثر جھٹکے محسوس ہوتے رہیں گے۔
٭…٭…٭
کوئی تبصرے نہیں