کربلائے سہگل آباد اور پراسرار مجرمانہ خاموشی رفیق


رفیق احمد

1 فروری 2024

پنجاب کے شہر قصور سے 4 جنوری 2018 کو زینب نام کی 7 سالہ بچی اغواء ھوئی۔ اور چند دن کے بعد بچی کی ڈیڈ باڈی کچرے کے ڈھیر سے ملی۔ میڈیا نے خبر کو خوب نشر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خبر نے پورے ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پہ شہہ سرخیوں میں جگہ حاصل کر لی۔

وزیراعظم ، وزیر اعلی آئی جی پنجاب سمیٹ متعدد آفیشلز نے نوٹس لیئے اور ٹی وی چینلز نے اس پہ پورے پورے پروگرام کیئے۔۔۔ میڈیا بیان دینے والے سرکاری و غیر سرکاری افسران کی لائنیں لگ گئیں۔ پولیس اور دوسری ایجنسیز نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور  تمام تکنیکی وسائل کو بروئے کار لاتے ھوئے بالآخر قاتل پکڑ لیا اور سفاک قاتل بہت قلیل عرصہ ٹرائل کے بعد اپنے انجام کو پہنچ گیا۔


6 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اسی جنوری کے مہینے کی 25 تاریخ کو چکوال(سہگل آباد) سے کومل شہزادی نامی 8 سالہ بچی اغواء ھوئی اور 28 جنوری کو کھیتوں سے بچی کی تشدد زدہ گلا کٹی ڈیڈ باڈی مل گئی۔۔۔۔۔

دونوں کیسوں میں پس پردہ سٹوری مختلف ھونے کے باوجود انتہاء کی مماثلت ھے۔۔۔لیکن


جنوری 2018 سے جنوری 2024 تک کے سفر میں جہاں اور بڑی بڑی معاشرتی تبدیلیاں رونما ھوئیں وہیں ھماری بےحسی بھی نقظہ عروج پہ چلی گئی۔


دو دن تو سوائے چکوال نیوز کے بچی کے اغواء کی خبر بھی کسی نے نشر نہ کی ۔ اور پھر بچی کے اتنے بیہیمانہ و سفاکانہ قتل کے بعد بھی سوشل میڈیا پہ دو تین لائنوں کی خبر چلی۔ قتل سے اگلی صبح میں نے چکوالنامہ اخبار میں اس خبر کو بہت تلاش کیا مجھے توقع تھی کہ آج کے اخبار کی تو شہہ سرخی یہی قتل ھو گی لیکن افسوس صد افسوس شہہ سرخی تو دور کی بات اس خبر کا کہیں نام و نشان تک نہ ملا۔ صحافتی حلقوں کی اس مجرمانہ خاموشی پہ بہت افسوس ہوا۔


اس حوالے سے بعض دوستوں نے یہ کہہ کر تسلی دے دی کہ DPO صاحب بڑی تندہی سے کیس کو فولو کر رہے ھیں اور DPO صاحب خود انکوائری کر رہے ھیں۔ DPO صاحب کی انکوائری سر آنکھوں پر لیکن کیا زینب قصوری کے کیس میں وہاں کے DPO ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے تھے بلکل نہیں یقینی طور پہ انہوں نے بھی کیس کو سنجیدہ لیا ھوا تھا۔ لیکن پولیس ڈیپارٹمنٹ کی اپنی ذمہ داری ھوتی ھے اور اہل صحافت کی اپنی ذمہ داری ھوتی ھے۔

گزشتہ دنوں چکوال کے ایک مدرسہ میں بچے کے ساتھ بدفعلی کا کیس سامنے آیا تو اسی میڈیا نے بال کی کھال اتار کے رکھ دی۔


کیا چکوال میں جیو نیوز ، اے آر وائی نیوز ، بول نیوز ، دنیا نیوز اور دوسرے بڑے قومی و بین الاقوامی چینلز کے نمائندے اور رپورٹر موجود نہیں ہیں؟


کیا جنگ ، نوائے وقت ، ایکپریس ، ڈان نیوز ، پاکستان نیوز اور دوسرے قومی اخبارات کے نمائندے یہاں موجود نہیں ہیں؟


کیا یہ سانحہ اس درجے کا نہیں تھا کہ وزیراعظم اور وزیر اعلی پنجاب اس کا نوٹس لیتے۔۔۔۔؟


جی ہاں چکوال کے صحافتی حلقے اور چکوال کے عوام سب ہی اس جرم میں شریک ھیں۔ علماء اور سیاسی سماجی شخصیات اس جرم میں شریک ھیں۔ نام نہاد انسانی حقوق کی مقامی تنظیمیں اس جرم میں شریک ھیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لمبے لمبے تبصرے کرنے والے پاکستان فلاح پارٹی کے قائدین اس جرم میں شریک ھیں۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چکوال کیپٹن ریٹائرڈ واحد محمود صاحب کی ٹرانسپیرنسی میں شک نہیں لیکن ایسے کیسز کو صرف سرکاری ملازمین کے رحم و کرم پہ چھوڑ دینا بھی درست نہیں ھوتا۔ ایسے کیسز سے سرکاری ملازمین کی Annual Confedencial Report  پہ بھی فرق پڑتا ھے اس لیئے سرکاری ملازم کی کوشش ھوتی ھے کہ ایسے کیسز کی تشہیر کم سے کم ھو۔۔۔۔

یہ کیس صرف یہاں تک نہیں ھے کہ بچی قتل ھو گئی اور دفن ھو گئی بلکہ یہ کیس ایک مستقل دروازہ ھے جیسے پوری طرح بند نہ کیا گیا تو کل ھمارے بچوں کی حفاظت کی ضمانت کسی کے پاس نہیں۔


لہذا اس کیس کو دبنے نہ دیا جائے۔ یہ مقتولہ تو ایسی مظلومہ ھے جس کے کیس کے مدعی بھی نہ ھونے جیسے ہیں۔


اے اہلیان چکوال سب کے سب اس مظلومہ کے مدعی بن جاو۔

اے چکوال کی صحافی برادری ، علماء کرام ، سیاسی و سماجی شخصیات ، انسانی حقوق کے علمبردارو ، چکوال پولیس ، وکلاء اہل قلم اس مظلومہ کے لیئے آواز اٹھاؤ اور قاتلوں کو نشان عبرت بننے تک چین سے نہ بیٹھو۔


بعض لوگ اس سانحہ کو Family matter کہہ کر دل کو تسلی دینے کی کوشش میں ھیں۔ کیا فیملی کا معاملہ سمجھ کر اس سے پہلو تہی کرنے کا کوئی جواز ھے ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.