وہ لاہور کہیں کھو گیا

 


واصف ناگی

(گزشتہ سے پیوستہ)

عزیزقارئین!یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز جو کہ اس وقت بنک آف بنگال کی انتہائی خوبصورت عمارت میں ہے یہ حیوانات چرند پرند کے علاج کے حوالے سے ایشیا کا پہلا اور قدیم ترین تعلیمی ادارہ ہے ۔چھجو بھگت کے چوبارے اور اس یونیورسٹی کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے مگر افسوس کہ چھجو بھگت کے چوبارے پر نہ تو اس کی تاریخ درج ہے اور نہ یہ ذکر ہے کہ یہاں سے ایشیاء کے قدیم ترین حیوانات کی تعلیم اور علاج کے ادارے کا آغاز ہوا ہے ویسے تو اب اس کے پتوکی کیمپس میں کتوں کو بھی مجرم پکڑنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔لاہور میں ایک زمانے میں کھوجیوں کا بڑا اہم کردار تھا مجرموں کو پکڑنے میں بلکہ لاہور میں آج بھی ایک محلہ کھوجی یا محلہ کھوجیاں ہے اس کے بارے میں بھی آپ کو کبھی بتائیں گے ۔لاہور میں پولیس بھی ایک مدت تک کھوجیوں سے کام لیتی رہی ہے۔


برصغیر میں خصوصاً لاہور میں فوج اور پولیس کے فرائض کے لئے گھوڑوں کا بہت استعمال ہوتا تھا تانگوں، ٹمٹم ، بگھیوںکگ اور ریڑھیوں میں گھوڑوں کا استعمال ہوتا ہے۔ آمدورفت کے علاوہ ڈاک کی ترسیل کے لئے گھوڑوں کا بہت استعمال کیا جاتا تھا کہا جاتا ہے کہ کسی گورنر کے گھوڑے کو کوئی تکلیف ہوئی تو بہت پتہ کیا مگر گھوڑے کے علاج کے لئے کوئی نہ مل سکا چنانچہ اس وقت کے گورنر نے یہاں فوری طور پر حیوانات کے علاج کے لئے ایک ادارے کے قیام کا حکم دیا ۔


لاہور 1881ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج جس کاپہلا نام لاہور میڈیکل اسکول تھا اس کے ساتھ ہی لاہور ویٹرنری ا سکول یا پنجاب ویٹرنری اسکول کے قیام کا فیصلہ کیا گیا یہ تاریخی تعلیمی ادارہ و اسپتال چھجو بھگت کے چوبارہ میں قائم کیا گیا اس زمانہ میں یہ سارا علاقہ بہت کھلا اور گائوں کی صورت میں تھا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ گوالمنڈی بانسا والا بازار اور رتن باغ یہ سارہ علاقہ گائوں تھا چنانچہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس علاقہ میں بڑی خوبصورت عمارتیں تعمیر کروائیں جن کا آج کہیں بھی نام ونشان نہیں ہے۔ چھجو بھگت کا چوبارہ آج جس شکل و صورت میں ہے آج سے 100برس پہلے اپنی اصل شکل و صورت میں تھا۔


جب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میڈیکل اسکول تھا اور اب یونیورسٹی ہے وہاں کے طلبا اور طالبات فارغ اوقات میں چھجو بھگت کے چوبارے میں بیٹھا کرتےتھے چائے پیا کرتے تھے بلکہ مدتوں ایک شعر بولا جاتا تھا اب یہ تو نہیں معلوم یہ شعرکس کاتھا لیکن یہ آج بھی پڑھا جاتا ہے لیکن چھجو بھگت کے چوبارہ کی وہ پرسکون جگہ اب ویسی نہیں رہی پتہ نہیں کس ناسمجھ ایم ایس نے اس عمارت کے اندر دیگر عمارتیں بنا دیں اور اس عمارت کا تعمیراتی حسن فنا کر دیا شعر کچھ یوں ہے:


جو سکھ چھجو کے چوبارہ میں


نہ بلخ نہ بخارے میں


چھجو بھگت کے چوبارہ کا یہ سکھ پتا نہیں میواسپتال کی کس انتظامیہ نے اس کے ملحقہ بے ہنگم اور بدنما عمارتیں کھڑی کرکے خراب کر دیا۔ یہ بات سچ ہے کہ آج بھی اس عمارت میں جاکر سکون ملتا ہے۔ چھجو بھگت بھاٹیہ قوم کا ایک خدا پرست بھگت گزرا ہے اس کی صحبت اللہ کے نیک بندوں کےساتھ تھی مثلاً حضرت میاں میرؒ ، بالا پیر لاہوری، حضرت شاہ بلاول لاہور المشہور میاں وڈا (شیخ اسماعیل) کے ساتھ بہت دوستی تھی کہتے ہیں وہ صاحب کرامت بزرگ تھے اور ان کی کئی کرامات مشہور تھی چھجو بھگت کا چوبارہ دو منزلہ تھا اور اب اس کی دوسری منزل ختم کر دی گئی ہے ، اس کی سمادھی والی جگہ پر خواتین کے لئے نماز کا بندوبست کر دیا گیا ہے چھجو بھگت کے بارے میں بہت سی باتیں ہیں جو پھر کسی کالم میں عرض کروں گا ۔


لیں جی اپنی اصل بات کی طرف آتے ہیں لاہور ویٹرنری اسکول کاآ غاز ڈپلومہ کورس سے ہوا اور اس کا نام تھا ڈپلومہ آف ویٹرنری اسسٹنٹ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دوسالہ کورس اردو میں پڑھایا جاتا تھا گھوڑوں کی علاج گاہ کی وجہ سے اس کا نام گھوڑا اسپتال پڑ گیاجو آج تک اسی نام سے مشہور ہے ۔جنوری 1901ء میں اس سکول کو کالج کا درجہ مل گیا اور اس کا نام ہو گیا پنجاب ویٹرنری کالج اور 1905ء میں ڈپلومہ کا درجہ بڑھا کر اس کو جی پی وی سی کر دیا گیا اور اس کا دورانیہ تین سال کر دیا گیا۔ 1912ء تک یہ ادارہ چھجو بھگت کے چوبارے میں ہی رہا چوبارہ اس وقت ایک بلند وبالا عمارت تھی 1912ء میں بنک آف بنگال کی عمارت میں اس کے کچھ تعمیراتی کام کئے گئے اور دسمبر 1915ء میں وائسرائے و گورنر جنرل ہند چارلس بیرن ہارڈنگ نے افتتاح کیا اب یہاںچارسالہ ڈپلومہ کورس ایل وی پی شروع کر دیاگیا اور تدریسی طریقہ اردو کی بجائے انگریزی کر دیا گیاگوروں نے 1941ء میں حکم جاری کیا کہ پنجاب کے تمام کالجوں کا الحاق پنجاب یونیورسٹی کےساتھ لازمی طور پر ہو گا 1942ء میں پہلی بیچلر آف ویٹرنری سائنس کی گریجویٹ ڈگری کا اجراء ہوا 1946ء میں ہواپہلے بیج نے بیچلر آف ویٹرنری سائنس کی ڈگری حاصل کی آج کل ہم اس سے پہلے بیج کے فارغ التًحصیل ڈاکٹر کو تلاش کر رہے ہیں تاکہ اس سے کچھ پرانی یادیں معلوم کریں۔


1956ء میں کالج کا نام کالج آف اینمل ہسنڈری رکھ دیا گیا اور 1959ء میں کالج کے نصاب کا دورانیہ 5سال کر دیا گیا ہمیں یاد ہے کہ صدر ایوب خان اس کی تقریب میں ایک مرتبہ آئے تھے اور پورے کالج کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا اس موقع پر ڈاکٹر قیصر حسین ساگا جو غالباً اناٹومی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے انہوں نے مور ڈانس پیش کیا یہ مور ڈانس پورے ملک میں مشہور ہوا ۔


ان کا یہ ڈانس پھر لاہور کی ہرثقافتی تقریب میں ہونے لگا اور ہر تقریب میں ان کو بلایا جانے لگا اور یہ مور ڈانس بے شمار لوگوں نے کرنا شروع کر دیا ، ڈاکٹر صاحب نے یہ ڈانس بہت سے شاگردوں کو بھی سکھایا تھا۔(جاری ہے )

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.