Caesar's Wife رؤف
رؤف کلاسرا
انسانی تاریخ حیران کن کرداروں سے بھری پڑی ہے۔ ایسے ایسے مقدمات آپ کو تاریخ میں پڑھنے کو ملتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے اور ان مقدمات سے جو اخلاقی اسباق ملتے ہیں وہ ہزاروں سال بعد بھی یاد رہتے ہیں۔ ایسے واقعات ہر دور میں مختلف طریقوں سے دہرائے جاتے ہیں جس پر ہم کہتے ہیں کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ دراصل انسانی جبلت ہزاروں سال میں ذرا بھی تبدیل نہیں ہوئی لہٰذا ان حالات میں انسان ایک جیسا ایکٹ اور ری ایکٹ کرتے ہیں اور نتائج بھی وہی نکلتے ہیں جو ہزاروں سال پہلے نکلے تھے۔ یہ ایک واقعہ پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ قدیم زمانوں میں حکمرانوں میں کیا کیا خوبیاں تلاش کی جاتی تھیں یا ان سے کیا توقعات ہوتی تھیں۔
62قبل از مسیح میں رومن جنرل سیزر اپنے عروج پر تھا۔ اس نے گال کو فتح کرکے وہ کارنامہ سرانجام دیا تھا جس کا اس سے قبل رومن جنرل یا حکمران خواب ہی دیکھتے تھے۔ اگرچہ اسے گال کو فتح کرنے کا حکم نہیں ملا تھا لیکن سیزر ان علاقوں کی طرف نکلا ہوا تھا تو اس نے سوچا کہ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ اگرچہ ماضی میں کچھ ایسی جنگی کوششیں ناکام ہوئی تھیں ‘خیر وہ الگ کہانی ہے کہ گال کی فتح کے بعد ہی سینیٹرز سیزر سے ڈر گئے تھے کہ روم اب ریپبلک نہیں رہے گا اور آمریت کی شکل اختیار کر لے گا‘ سیزر اب ڈکٹیٹر بن جائے گا۔ اس خوف کا نتیجہ سیزر کے قتل کی صورت میں نکلا جس پر روم میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ مارک انٹونی‘ جو سیزر کا دوست اور جنرل تھا‘ نے سیزر کے خلاف سازش رچانے والے بروٹس اور دیگر سازشیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور انہیں شکست دی۔ بروٹس نے خود کو تلوار پر گرا کر خودکشی کر لی تھی۔
سیزر کے قتل سے پہلے اس کی پہلی بیوی نے ایک دیوی کا میلہ سجایا جہاں اُس کی پوجا ہونی تھی۔ اس میلے میں صرف روم کی خواتین شرکت کر سکتی تھیں‘ مردوں کو اس میلے میں جانے کی اجازت نہ تھی؛ تاہم ایک مرد عورت کا بھیس بدل کر اس میلے میں پہنچ گیا لیکن اس کا بہت جلد پتا چل گیا اور اسے پکڑ لیا گیا۔ اسی دوران یہ بات مشہور ہو گئی کہ وہ نوجوان دراصل سیزر کی بیوی کا عاشق ہے اور اسے ملنے کیلئے وہاں بھیس بدل کر آیا۔ اس پر کھسر پھسر شروع ہوگئی۔ اگرچہ اس سوال کی گنجائش موجود تھی کہ وہ نوجوان واقعی وہاں سیزر کی بیوی کیلئے گیا تھا یا کسی اور خاتون کیلئے؛ تاہم سیزر کو اپنی بیوی کے کردار پر کچھ شک سا پیدا ہو گیا۔ لوگ اس کی بیوی کے کردار پر انگلی اٹھا رہے تھے۔ اس کے منہ پر نہ سہی لیکن دل میں لوگ یہی سوچتے تھے کہ سیزر کی بیوی کا کردار ٹھیک نہیں۔ سیزر نے کچھ دن سوچا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ اگرچہ اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں تھا لیکن لوگوں کے سوچنے پر تو پابندی نہیں لگائی جا سکتی تھی۔ سیزر کو محسوس ہوا کہ اب اس کی بیوی کے کردار پر سوال اٹھ چکے ہیں۔ یہ سوال غلط تھے یا صحیح‘ اس سے قطع نظر ایک شک تو پیدا ہو گیا تھا۔ ایک جنرل یا حکمران کیلئے یہ اچھی بات نہیں تھی کہ اس کی بیوی کے کردار پر لوگ انگلیاں اُٹھائیں۔ سیزر نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا اور اس کی جو وجہ اس نے بیان کی وہ تاریخ کی کتابوں میں امر ہو گئی۔ سیزر نے کہا: Caesar's wife must be above suspicion۔ مطلب یہ کہ سیزر کی بیوی ہر شک و شبہ سے پاک ہونی چاہیے۔ سیزر کا یہ جملہ آنے والی صدیوں میں ایک سند بن گیا کہ کسی حکمران یا مشہور انسان کی بیوی؍ اہلِ خانہ پر بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کوئی غلط کام کر سکتے ہیں۔
بعد ازاں سیزر کے اس اقدام پر کئی سوالات بھی اٹھائے جاتے رہے کہ اسے اس حد تک جانے کی کیا ضرورت تھی کہ محض شک کی بنیاد پر طلاق دیدے۔ سیزر کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں تھا کہ اس کی بیوی پر جو شک کیا جا رہا تھا‘ وہ ٹھیک تھا یا غلط۔ جب کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا تو پھر سیزر نے یہ فیصلہ کیوں کیا۔ اگر اس کے پاس اپنی بیوی کے خلاف کوئی ثبوت ہوتا تو بات سمجھ آتی تھی کہ ایسی بیوی کے ساتھ نہیں رہا جا سکتا لیکن سیزر کی سوچ یہ تھی کہ لوگوں کا دھیان اس طرف گیا تو گیا کیوں کہ وہ شخص خواتین کے اس کٹھ میں صرف اس کی بیوی کو ملنے گیا تھا۔ اسے علم تھا کہ یہ شک لوگوں کے ذہنوں میں پنپتا رہے گا‘ لوگ اسے عجیب و غریب نظروں سے دیکھیں گے کہ دیکھو! وہ رومن جنرل جا رہا ہے جس کی بیوی کا فلاں کے ساتھ چکر ہے‘ یوں نہ صرف وہ اپنی نظروں سے گر جائے گا بلکہ اس کی اخلاقی قوت بھی کمپرومائز ہو جائے گی۔ یوں اپنی مورل اتھارٹی قائم رکھنے کیلئے ضروری تھا کہ اس کے گھر کے افراد بھی کلین ہونے چاہئیں۔
سیزر ایک لیڈر‘ ایک حکمران تھا۔ لیڈر کو خود اور اس کے اردگرد موجود لوگوں کو عام انسانوں جیسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ لیڈر کا کردار عوام کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے‘ یہ ایسا ہونا چاہیے کہ عوام کا اپنے لیڈر پر اعتبار ہمیشہ قائم رہے۔ عام لوگ اپنے لیڈر کی ساکھ ہی پر تو ریاست کے تابع بنتے ہیں اور اسے یہ حق دیتے ہیں کہ وہ ان پر حکمرانی کرے‘ ان کی زندگی موت کے فیصلے کرے۔ اگر لیڈر یا اس کی بیوی پر ہی اخلاقی یا مورل کرپشن کی باتیں ہونے لگیں تو پھر کوئی بھی حکمران اپنے حکمرانی کا جواز کھو بیٹھتا ہے‘ اس کی عزت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ لیڈر پر عوام کی آنکھیں جمی ہوتی ہیں‘ وہ لائم لائٹ میں ہوتا ہے‘ لوگ اس کی طرف رہنمائی کیلئے دیکھتے ہیں‘ اسے اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں‘ وہ کردار میں ان سے بہتر ہوتا ہے اسی لیے ان کا حکمران ہوتا ہے۔ عوام اپنے حاکم سے عام لوگوں والی حرکتوں کی توقع نہیں رکھتے‘ لہٰذا حاکم پر یہ بوجھ ہوتا ہے کہ اس نے نہ صرف اپنے کردار کو درست رکھنا ہے بلکہ اس کے قریبی افراد بھی مثالی کردار کے مالک ہونے چاہئیں۔ عوام کو شک نہ ہو کہ وہ کسی قسم کی دو نمبری یا کرپشن میں ملوث ہیں۔ اگر ایسے شکوک حکمرانوں بارے پیدا ہو جائیں تو پھر معاشرے بکھرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر وہاں انارکی جنم لینے لگتی ہے۔ قانون کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ عام لوگ پھر ریاست کی اتھارٹی کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔
ذرا تصور کریں کہ آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے کے معاشرے میں بھی حکمران کے کردار بارے لوگ کتنے حساس تھے کہ ان کا حاکم کیسا ہونا چاہیے‘ ان کے حکمران کی بیوی اس کردار کی حامل ہو کہ کوئی اس پر شک نہ کر سکے کہ وہ کوئی غلط کام کر سکتی ہے۔ اگر شک پیدا ہو بھی جائے تو سیزر جیسا حکمران محض اس بات پر طلاق دے دے کیونکہ اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ اگر حکمران کی بیوی پر لوگ انگلیاں اٹھاتے رہے تو اس کی حکمرانی کی مورل اتھارٹی کمزور پڑ جائے گی‘ وہ اپنی رعایا سے نظریں نہیں ملا پائے گا۔ سیزر چاہتا تو وہ اپنی بیوی کا دفاع کر سکتا تھا کیونکہ کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اس لیے جب اس نوجوان کا ٹرائل شروع ہوا تو سیزر نے کوئی گواہ یا ثبوت پیش نہیں کیا لیکن چونکہ یہ بات باہر نکل چکی تھی لہٰذا سیزر نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اور بار بار ایک ہی بات کہتا تھا کہ سیزر کی بیوی کو ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہونا چاہیے۔ سیزر کی بیوی کا کرپشن کرنا تو بہت دور کی بات‘ اس پر تو کرپشن کا شک بھی نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہزاروں سال پہلے حکمران اور حکمرانی کا ایسا ناقابلِ یقین معیار صرف رومن جنرل سیزر ہی قائم کر سکتا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں