50 روپے تنخواہ پر ملازمت کرنے والے چکوال کے موہن سنگھ جو دنیا بھر میں 35 لگژری ہوٹلوں کے مالک بنے
وقارمصطفی
عہدہ,صحافی و محقق، لاہور
بی بی سی اردو
دس فٹ چوڑا اور اتنا ہی لمبا یہ مکان موہن سنگھ اوبرائے کو برطانوی ہندوستان کے گرمائی دارالحکومت شملہ کے ایک ہوٹل میں ملازمت کے دوران ملا تھا۔
’دی سیسل‘ نامی اس ہوٹل میں انھیں کوئلے کا حساب رکھنا تھا۔ انھیں مکان بھی اس پہاڑی کے انتہائی نچلے حصے میں دیا گیا تھا جس پر یہ شاندار ہوٹل واقع تھا۔ یہ پہاڑی وہ دن میں دو بار چڑھتے، صبح کام پر آتے ہوئے اور دوپہر میں اپنی بیوی ایشران دیوی کے ہاتھ کا پکا سادہ سا کھانا کھا کر لوٹتے ہوئے۔
ان کی تنخواہ پچاس روپے تھی یعنی اس رقم سے دو گنا جو ان کی والدہ بھاگ ونتی نے سنہ 1922 میں جہلم (اب پاکستانی پنجاب میں چکوال) کے قصبے بھَون سے چلتے ہوئے انھیں دی تھی۔
موہن سنگھ کے والد ٹھیکیدار عطار سنگھ تو تب ہی انتقال کر گئے تھے جب وہ چھ ماہ کے تھے۔
صحافی باچی کَرکَریا لکھتی ہیں کہ ’اُن کی ماں، جو صرف 16 سال کی تھیں، طعنوں سے تنگ آ کر ایک رات اپنے شیر خوار بیٹے کو اٹھا کر 12 کلومیٹر پیدل چل کر اپنے میکے چلی گئیں۔‘
گاؤں میں ابتدائی تعلیم کے بعد موہن سنگھ نے راولپنڈی سے میٹرک کیا۔ وہ لاہور میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جب مالی تنگی کی وجہ سے پڑھائی جاری نہ رہ سکی۔
نوکری کے لیے یہ تعلیم ناکافی جانی تو ایک دوست کے کہنے پر امرتسر میں ان کے ساتھ رہے اور شارٹ ہینڈ اور ٹائپنگ کا کورس کیا۔ کام پھر بھی نہ ملا۔
ان کے چچا نے لاہور میں اپنی جوتوں کی فیکٹری میں انھیں نوکری دی لیکن جلد ہی پیسوں کی کمی کی وجہ سے وہ کارخانہ بند ہو گیا اور موہن سنگھ اپنے گاؤں لوٹنے پر مجبور ہو گئے۔
وہیں اشناک رائے کی بیٹی (ایشران دیوی) سے شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد کے دن سرگودھا میں برادرِ نسبتی کے ہاں گزرے۔
بَھون واپسی پر طاعون کی مہلک وبا پھوٹ پڑی۔ والدہ نے سرگودھا واپس جانے کا مشورہ دیا لیکن ان ہی دنوں ایک سرکاری دفتر میں جونیئر کلرک کی ملازمت کے لیے مقامی اخبار میں اشتہار دیکھا۔ جیب میں والدہ کے دیے 25 روپے لے کر نوکری کے لیے امتحان دینے کوئی پونے 400 کلومیٹر دور شملہ چلے گئے۔
موہن سنگھ کا فلسفہ یہ تھا کہ ’اگر آپ صرف پیسے کے بارے میں سوچتے ہیں، تو آپ صحیح کام نہیں کریں گے لیکن اگر آپ صحیح کام کرتے ہیں، تو پیسہ خود بخود آ جائے گا‘
موہن سنگھ کے مطابق وہ اس امتحان میں ناکامی کے بعد ایک دن مایوسی کے عالم میں ہوٹل ’دی سیسل‘ کے پاس سے گزرے تو اچانک اندر جا کر قسمت آزمانے کی خواہش پیدا ہوئی۔
’ایسوسی ایٹڈ ہوٹلز آف انڈیا کی ملکیت اس اعلیٰ درجے کے ہوٹل کے منیجر ایک مہربان انگریز تھے، نام تھا ڈی ڈبلیو گروو۔ مجھے 40 روپے ماہانہ پر بلنگ کلرک رکھ لیا۔‘
’جلد ہی میری تنخواہ 50 روپے کر دی گئی۔ بیوی بھی شملہ آ گئی تو ہم اپنے خستہ حال گھرمیں رہنے لگے۔ خود ہی دیواروں پر سفیدی کی جس سے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے لیکن ہم شکر گزار تھے کہ ہمارے سروں پر چھت تو ہے۔‘
اپنی زندگی کی یہ سب باتیں موہن سنگھ اوبرائے نے سنہ 1982 میں محقق گیتا پیرامَل سے سانجھی کی تھیں۔
’سیسل کی انتظامیہ بدلی تو ارنسٹ کلارک مینجر بن گئے۔ میں سٹینوگرافی جانتا تھا، کلارک نے مجھے کیشیئر اور سٹینوگرافر کا عہدہ دے دیا۔‘
’ایک روز پنڈت موتی لال نہرو سیسل میں ٹھہرے۔ تب وہ سوراج پارٹی کے رہنما تھے۔ پنڈت جی کو ایک اہم رپورٹ جلد اور احتیاط سے ٹائپ کروانا تھی۔ میں نے ساری رات جاگ کر وہ رپورٹ مکمل کی اور اگلی صبح انھیں دی تو انھوں نے 100 روپے کا نوٹ نکال کر شکریہ کے ساتھ مجھے دیا۔‘
’میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں جلدی سے کمرے سے نکل گیا۔ ایک سو روپیہ، جسے دولت مند پھینک دیتے ہیں، میرے لیے بہت کچھ تھا۔ روپے کی قوت خرید اتنی زیادہ تھی کہ میں نے بیوی کے لیے گھڑی، بچے کے لیے کپڑے اور اپنے لیے برساتی کوٹ خریدا۔‘
کلارک کا ایسوسی ایٹڈ ہوٹلز آف انڈیا کے ساتھ معاہدہ ختم ہوا تو انھوں نے دلی کلب کے لیے کیٹرنگ کا ٹھیکہ حاصل کر لیا۔ موہن سنگھ نے بھی ان کے ہاں ملازمت کی پیشکش قبول کر لی۔ ان کی تنخواہ اب 100 روپے تھی۔ دلی کلب کا معاہدہ صرف ایک سال کے لیے تھا اور کلارک نے جلد ہی نئے کاروبار کی تلاش شروع کر دی۔
شملہ میں کارلٹن ہوٹل ختم ہو چکا تھا۔ کلارک اسے لیز پر لینا چاہتے تھے لیکن ضامن درکار تھے۔
موہن نے پیرامَل کو بتایا ’میں نے اپنے کچھ امیر رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطہ کیا۔ کارلٹن اب کلارک ہوٹل بن گیا۔ پانچ سال کے بعد، کلارک نے ریٹائر ہونے اور ہوٹل کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے مجھے یہ کہہ کر پیشکش کی کہ وہ ہوٹل چلانے کے لیے کسی ایسے شخص کو ترجیح دیں گے جو اس کی روایت اور کارکردگی کو برقرار رکھ سکے۔‘
’درکار رقم کے لیے مجھے اپنے چند اثاثے اور اپنی بیوی کے زیورات کو رہن رکھنا پڑا۔ میں نے کلارک ہوٹل کی ملکیت اپنے ایک مہربان چچا کی مدد سے سنبھالی جو ماضی میں بھی میرے ساتھ کھڑے تھے۔‘
14 اگست 1934 تک موہن سنگھ، کلارک کے دلی اور شملہ میں ہوٹلوں کے واحد مالک بن چکے تھے۔
موہن سنگھ اور ان کی بیوی ہوٹل کے لیے گوشت اور سبزیاں خود خریدتے اور یوں انھوں نے بل میں 50 فیصد کمی کی۔
آہستہ آہستہ دارجیلنگ، چندی گڑھ اور کشمیر میں مزید ہوٹلوں کا اضافہ کیا۔
موہن سنگھ نے بتایا ’میں نے اپنے ہوٹل بنانے کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور پہلی کوشش اڑیسہ کے گوپال پور آن سی میں ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ان کی زندگی کا تقریباً ہر موڑ کسی نہ کسی وبا سے وابستہ رہا۔
سنہ 1933 میں کلکتہ (اب کولکتہ) میں ہیضے کی وبا پھیلی تھی۔ آرمینیائی رئیل اسٹیٹ ٹائیکون سٹیفن آراتھون کا گرینڈ ہوٹل سو سے زیادہ غیر ملکی مہمانوں کی موت کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔ لوگ کلکتہ جانے سے ڈرتے تھے۔ اپنے روایتی اعتماد اور عزم کے ساتھ وہ اس ہوٹل کو ایک انتہائی منافع بخش کاروباری منصوبے میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہے۔
سنہ 1939 میں دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی کلکتہ فوجیوں سے بھر گیا۔ برطانوی فوج رہائش تلاش کرنے کی شدید کوشش کر رہی تھی۔
موہن سنگھ نے کہا ’میں نے فوری طور پر ایک فرد کے دس روپے کرائے کے حساب سے 1,500 فوجیوں کے ٹھہرنے اور کھانے پینے کا بندوبست دیا۔ میں نے 1,500 روپے ماہانہ تنخواہ پر مسٹر گروو کو مینیجر رکھا جنھوں نے سیسل ہوٹل میں مجھے 50 روپے ماہانہ پر پہلی ملازمت دی تھی۔‘
یہ ہوٹل چلانا ان کے کیریئر کا ایک اہم سنگ میل تھا۔ سنہ 1941 میں حکومت ہند نے انھیں ہندوستانی ہوٹل انڈسٹری میں خدمات کے اعتراف میں رائے بہادر کے خطاب سے نوازا۔
سنہ 1943 میں موہن سنگھ نے ایسوسی ایٹڈ ہوٹلز آف انڈیا لمیٹڈ کے حصص خرید کر راولپنڈی، پشاور، لاہور، مری اور دلی میں قائم ہوٹلوں کی ایک بڑی چین کا اختیار حاصل کر لیا۔
اور تو اور کمپنی کی ملکیت کے ساتھ وہ ہوٹل بھی ان کا ہو چکا تھا جہاں انھوں نے اپنی پہلی ملازمت کی تھی۔
تقسیم کے بعد بھی 1961 تک راولپنڈی میں فلیش مینز، لاہور میں فلیٹیز، پشاور میں ڈینز اور مری میں سیسل اسی کمپنی کے پاس تھے۔ بعد میں اسے ایسوسی ایٹڈ ہوٹلز آف پاکستان نامی کمپنی میں ضم کر دیا گیا مگر اس کے اکثریتی شیئرز اوبرائے فیملی کے پاس ہی تھے تاہم 1965 کی پاکستان انڈیا جنگ کے بعد ان تمام ہوٹلوں کو دشمن کی جائیداد قرار دے کر ضبط کر لیا گیا۔
صحافی پال لیوس کے مطابق اگرچہ پاکستان کے صدر جنرل ضیا الحق نے بظاہر انھیں واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن موہن سنگھ کے ان سے ملنے سے پہلے ہی ان کا طیارہ حادثے میں انتقال ہو گیا۔
لیوس لکھتے ہیں کہ موہن سنگھ اوبرائے نے ہندوستانی ہوٹل انڈسٹری کو 20ویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔
’وہ انڈیا کے کونراڈ ہلٹن کہلائے۔ وہ خستہ حال اور کم قیمت والی جائیدادوں کو تلاش کرنے اور ان کی تجدید میں مہارت رکھتے تھے۔‘
’انھوں نے پرانے اور خستہ حال محلات، تاریخی یادگاروں اور عمارتوں کو شاندار ہوٹلوں میں تبدیل کیا جیسے کلکتہ میں دی اوبرائے گرینڈ، قاہرہ میں تاریخی مینا ہاؤس اور آسٹریلیا میں دی ونڈسر۔ شملہ میں اوبرائے سیسل کی عمارت 20ویں صدی کے اوائل میں تعمیر کی گئی تھی، وسیع اور پیچیدہ تزئین و آرائش کے بعد اپریل 1997 میں دوبارہ کھولا گیا۔‘
انڈیا، سری لنکا، نیپال، مصر، آسٹریلیا اور ہنگری میں تقریباً 35 لگژری ہوٹلوں کے ساتھ، اوبرائے گروپ، ٹاٹا گروپ کے تاج کے بعد ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی ہوٹل کمپنی بن گئی۔
ان کی قیادت میں، اوبرائے گروپ نے ہوٹلوں کا اپنا دوسرا برانڈ ’ٹرائیڈنٹ‘ متعارف کرایا۔ ٹرائیڈنٹ فائیو سٹار ہوٹل ہیں۔
ایک اور اہم سنگ میل 1966 میں اوبرائے سکول آف ہوٹل مینجمینٹ کا قیام تھا۔
یہ سکول اب ’دی اوبرائے سینٹر آف لرننگ اینڈ ڈویلپمینٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور مہمان نوازی کے انتظام میں اعلیٰ معیار کی پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرتا ہے۔
اپنے ہوٹلوں میں خواتین کو ملازمت دینے اور اعلیٰ ترین معیار کو یقینی بنانے کے لیے ذیلی صنعتوں کے قیام کرنے کا فیصلہ بھی قابل ذکر تھے۔
اوبرائے گروپ نے 1959 میں پہلی بار انڈیا میں فلائٹ کیٹرنگ آپریشنز شروع کیے۔
موہن سنگھ اوبرائے نے 1962 میں راجیہ سبھا کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔ سنہ 1967 میں لوک سبھا کے لیے انتخاب میں کھڑے ہوئے اور 46,000 سے زیادہ ووٹوں کی اکثریت سے جیت گئے۔
سنہ 2001 میں انڈین حکومت نے انھیں ملک کے تیسرے بڑے سول ایوارڈ ’پدم بھوشن‘ سے نوازا۔
باچی کَرکَریا نے موہن سنگھ اوبرائے کی سوانح عمری ’ڈیئر ٹو ڈریم: اے لائف آف رائے بہادر موہن سنگھ اوبرائے‘ کے نام سے لکھی ہے۔
ان کے مطابق، ایم بی اے کے بغیر انھوں نے اپنا ’ہینڈز آن سٹائل‘ اور ’مینجمینٹ بائی واک تھرو‘ تشکیل دیا۔ 1934 میں شملہ کے 50 کمروں والے کلارک کے اپنے پہلے ہوٹل میں انھوں نے باورچی خانے سے مہمانوں کے فلور تک کھانا لے جانے کے لیے ایک لفٹ تیار کی۔
’کچن میں چہل قدمی کرتے ہوئے، انھوں نے دیکھا کہ مکھن کے بچے ہوئے ٹکڑے کوڑے میں پھینکے جا رہے ہیں۔ اس کے بجائے، انھوں نے ان ٹکڑوں کو مزیدار پیسٹری بنانے کے لیے دوبارہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اور ایشران خریداریوں پر گہری نظر رکھتے۔‘
’دہائیوں بعد تقریباً 90 سال کی عمر میں بھی وہ اپنے بیٹے پرتھوی راج ’بِکی‘ کی طویل علالت کے دوران خوشی خوشی کام پر واپس لوٹ آئے۔
’انھوں نے دلی کے ہوٹل میں گرم پانی کے تھرموسٹیٹ کی تھوڑی سی ایڈجسٹمینٹ تجویز کی۔ مہمانوں نے توجہ بھی نہیں دی لیکن اس سے بجلی کے بل میں نمایاں فرق پڑا۔ پانی کے گلاس کی سطح سے لے کر گلدان میں گلاب کی اونچائی تک سب بتاتے۔‘
باچی کَرکَریا لکھتی ہیں کہ کہا جاتا ہے وہ واحد غیر شاہی شخص تھے جنھوں نے اپنے فارم پر اپنی ذاتی شمشان بنوائی تھی۔۔۔ ایک پُرسکون، درختوں سے ڈھکی ہوئی سینڈ سٹون کی جگہ جس پر راجپوت طرز کی چھتریاں تھیں لیکن اسے 1984 میں بیٹے، تلک راج، ’ٹکی‘ اور چار سال بعد اپنی شریک حیات کے لیے استعمال کرنا پڑا۔
’موہن سنگھ نے اپنی پیدائش کے سال کو 1898 سے 1900 میں بدل دیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ انھیں ’19ویں صدی کا فرد‘ سمجھا جائے۔ یہ راز راز رہ سکتا تھا اگر ان کے بیٹے بِکی اپنی خواہش پر قابو پا لیتے۔ 1998 میں انھوں نے اسے ٹھیک کروا دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے والد کے سو سال بغیر کسی جشن کے گزر جائیں۔‘
رائے بہادر موہن سنگھ اوبرائے نے 104 سال عمر پائی۔
موہن سنگھ کا فلسفہ یہ تھا کہ ’اگر آپ صرف پیسے کے بارے میں سوچتے ہیں، تو آپ صحیح کام نہیں کریں گے لیکن اگر آپ صحیح کام کرتے ہیں، تو پیسہ خود بخود آ جائے گا۔‘
کوئی تبصرے نہیں