کام کی لگن
عمار چودھری
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جمہوریت کے اپنے فوائد ہیں‘ جمہوری حکومت عوام کی نمائندہ حکومت کہلاتی ہے اور کوئی بھی شخص جسے عوام منتخب کرتے ہیں‘ وہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکتا ہے۔ ظاہر ہے عوام یہ اس لیے کرتے ہیں کہ جو بھی حاکم یا حکومت اقتدار کی طاقت اور اختیارات حاصل کرے‘ وہ بعد ازاں اس طاقت اور اختیارات کو عوام کے مسائل کے حل کے لیے استعمال کرے۔ جمہوریت کا مقصد اور فائدہ تبھی ہے جب عوام کے ووٹوں سے بننے والی حکومت عوام کی اُمنگوں پر پورا اترے اور اپنے اقتدار و اختیار کو عوامی مفاد کے لیے بروئے کار لائے۔
آئندہ انتخابات کے لیے آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے۔ دیکھتے ہیں اب کی مرتبہ کون سی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی بات کریں تو سوائے استحکامِ پاکستان پارٹی کے‘ باقی لگ بھگ سبھی جماعتیں آزمائی جا چکی ہیں۔ اس پارٹی کا بھی صرف نام ہی نیا ہے کیونکہ سیاستدانوں کی اکثریت دیگر جماعتوں سے اس پارٹی میں شامل ہوئی ہے جن میں پی ٹی آئی سرفہرست ہے۔ اس کی مرکزی قیادت بھی پہلے پی ٹی آئی میں شامل تھی۔ پی ٹی آئی کو گزشتہ انتخابات میں وفاق‘ پنجاب اور کے پی میں حکومت بنانے کا موقع ملا تھا، یوں اسے پہلی بار وفاق اور پنجاب میں حکومت میں آنے کا موقع ملا۔ اس کی کارکردگی اب سب کے سامنے ہے۔ پنجاب ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیا گیا جس کا کوئی قابلِ ذکر کارنامہ نہ تھا۔ اس دور میں پنجاب نے کتنی ترقی کی‘ یہ سب کے سامنے ہے۔ اس جماعت کے ووٹرز دوبارہ اسے ووٹ دیتے ہیں یا پھر اپنی ترجیح بدل لیتے ہیں‘ یہ آنے والے الیکشن میں نظر آ جائے گا۔ گزشتہ ایک سال کی بات کی جائے تو ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے پنجاب میں نمایاں کام دکھائی دیتا ہے۔
خوش آئند بات ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت نے بھی نمایا ں کام کیے ہیں اور لاہور میں کئی انڈر پاسز اور اوور ہیڈ برج کم ترین مدت میں مکمل کیے ہیں۔ سابق دور میں عثمان بزدار کے پاس وقت بھی تھا اور انہیں اپنے پارٹی چیئرمین کی مکمل سپورٹ بلکہ غیر ضروری حمایت بھی حاصل تھی لیکن موصوف نے اس وقت اور سنہری موقع کو بڑی محنت سے ضائع کر دیا۔ وہ کرتے بھی کیا کہ اب جو حقائق سامنے آ رہے ہیں‘ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور جو ہدایات انہیں اوپر سے ملتی تھیں‘ وہ انہی کو پورا کرنے میں اپنا وقت کاٹتے رہے۔ نگران حکومت نے بہرحال اچھی کارکردگی دکھائی۔ لاہور میں اس وقت ٹریفک کے مسائل سرفہرست ہیں۔ برکت مارکیٹ‘ لبرٹی مارکیٹ گلبرگ سے لے کر ڈیفنس فیز6 تک کی سڑک کو سگنل فری کرنے سے شہر میں ٹریفک کے مسائل میں کمی آئے گی۔ اسی طرح حال ہی میں تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع کیا گیا‘ یہ بھی ٹریفک کے مسائل اور سڑکوں پر بلاوجہ کے ہجوم کو کم کرنے میں کارگر ثابت ہو گا۔ شہر کی کئی سڑکیں ایسی ہیں جہاں پر یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ سڑک کہاں سے شروع ہوتی ہے اور دکانوں کی حدود کہاں تک ہیں۔ درمیان میں موجود فٹ پاتھ تو سرے سے غائب ہو چکے ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں پیدل چلنے کو لوگ ترستے رہتے ہیں اور جن کے پاس پیسہ ہے‘ وہ پیدل چلنے کا شوق دبئی‘ لندن اور دیگر ممالک میں جا کر پورا کرتے ہیں۔ رہی سہی کسر سموگ نے نکال دی ہے۔ ان دنوں پارکس میں بھی جانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ سموگ اور سردی مل کر دوگنی قیامت ڈھا نے پر تلی ہوئی ہیں۔ لاہور میں کئی مقامات تو ایسے تھے جہاں گھنٹوں ٹریفک جام رہتا تھا۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے فلائی اوورکے منصوبے اہم ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ماضی کی طرح صرف پوش علاقوں پر فوکس نہیں کیا جا رہا بلکہ اندرون شہر پر بھی اتنی ہی توجہ نظر آ رہی ہے۔
بچپن میں ہم بھل صفائی کا بڑا ذکر سنتے تھے اور غالباً سردار عارف نکئی سے اس منصوبے کو منسوب کیا جاتا تھا ۔ نصاب میں بھی بچوں کو بتایا جاتا تھا کہ بھل صفائی کیا ہوتی ہے اور اس کے فوائد کیا ہوتے ہیں لیکن گزشتہ دس برسوں میں ایک مرتبہ بھی بھل صفائی کا اہتمام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے نہروں کی گنجائش کم ہو گئی ہے۔ اب بھل صفائی بھی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اسی طرح رِنگ روڈ کا جنوبی حصہ‘ جس پر کافی عرصے سے کام رُکا ہوا تھا اور اسی وجہ سے یہ شہر کے دیگر حصے سے کٹ چکا تھا۔ لوگ مینارِ پاکستان سے رِنگ روڈ کے ذریعے پندرہ‘ بیس منٹ میں شہر کے دوسرے کنارے‘ اڈا پلاٹ تک تو پہنچ جاتے تھے لیکن آگے انہیں پھر دیگر راستے اختیار کرنا پڑتے تھے جس سے وقت اور پٹرول‘ دونوں کی کھپت بڑھ جاتی تھی۔ چند ہفتے قبل یہ منصوبہ بھی شروع ہو گیا اور کافی حد تک کام مکمل ہو چکا ہے۔
جن ممالک میں مہنگائی تیزی سے بڑھتی ہے اور بیروزگاری عروج پر ہوتی ہے‘ وہاں جرائم کی رفتار بھی تیز ہو جاتی ہے۔ وارداتیں اور دیگر جرائم روکنے کے لیے سیف سٹی کیمرے کئی برسوں سے کام نہیں کر رہے تھے حالانکہ یہ ایک بہترین پروجیکٹ تھا اور خودکار طریقے سے ٹریفک رولزکی خلاف ورزی پر چالان ای میل‘ موبائل اور کوریئر سے گھر آ جاتا تھا۔ اس پروجیکٹ کی بحالی کا علم آج صبح نو بجے گھر کی بیل بجنے پر ہوا کہ جب ٹھٹھرتی سردی میں ڈاکیا ہاتھ میں ای چالان تھامے کھڑا نظر آیا۔ اسی طرح لاہور کار حادثے والے دل سوز واقعے کے بعد لائسنس کی سختی کے لیے جو اقدامات کیے گئے ان میں عوام کی آسانی کو مدنظر رکھا گیا، جس کی وجہ سے اب شہری گھر بیٹھے لرنر لائسنس بنوا سکتے ہیں اور گزشتہ چار ہفتوں میں بیس لاکھ سے زائد شہریوں نے گھر بیٹھے لرنر لائسنس بنوا لیے ہیں۔ صحت کے منصوبوں یعنی ہسپتالوں کی اَپ گریڈیشن پر بھی کام ہو رہا ہے۔ حکمران اگر چاہیں اور سنجیدگی کے ساتھ کام کریں تو وہ وقت کی قید سے آزاد ہو کر عوام کے لیے کم وقت میں بھی آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے کوئی راکٹ سائنس درکار نہیں۔ بس احساس اور کام کی لگن کی ضرورت ہے۔
عوام کے روز مرہ مسائل کیا ہیں اور انہیں کس طرح حل کیا جا سکتا ہے‘ اس بارے میں جو بھی حکمران دلچسپی لے کر کام کرے گا اس کے نتائج بہتر ہی ملیں گے۔ نگران حکومت کے دور میں جو اچھے منصوبے زیرِ التوا تھے‘انہیں مکمل کیا گیا ہے۔تاہم اس حوالے سے ایک قباحت یہ موجود ہے کہ پنجاب کی نگران حکومت صوبے کے 36اضلاع میں سے صرف صوبائی دارالحکومت پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اسی پنجاب میں جہاں ایک طرف لاہور جیسے شہر ہیں‘ جہاں صحت اور تعلیم کی تمام بنیادی سہولیات میسر ہیں تو دوسری طرف جنوبی پنجاب کے وہ اضلاع بھی ہیں جہاں کے عوام ان بنیادی سہولیات سے تو محروم ہیں ہی لیکن وہاں سڑکوں کا نظام بھی اتنا ناقص ہے کہ جتنا سفر لاہور میں منٹوں میں طے ہو جاتا ہے اُتنا وہاں گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ نگران حکومت کو پورے صوبے پر یکساں توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ جدید ممالک اسی لیے جدید کہلاتے ہیں کہ وہاں شخصیات کے بجائے سسٹم کام کرتا ہے۔ کوئی بھی نیا شخص آتا ہے تو وہ سسٹم کے تحت چلتا ہے اور عوامی فلاح و بہبود کے پیش نظر ہی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ دعا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی کوئی ایسا سسٹم متعارف ہو جس میں شخصیات نہیں بلکہ عوام اہم ہوں۔جو بھی ہو‘ بس ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہو کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں