تاریخ اور ثقافت کا قتل ِ عام
وسعت اللہ خان
انیس سو چون کے دی ہیگ کنونشن کے مطابق دورانِ جنگ ثقافتی ورثے کی جان بوجھ کر تباہی جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔جرائم کی بین الاقوامی عدالت کے مطابق دورانِ جنگ ثقافتی ورثے کی تباہی پر فردِ جرم کی سماعت اس کے دائرہِ اختیار میں شامل ہے۔
ہیگ کنونشن برائے تحفظِ ثقافت وجود میں آنے سے آٹھ برس پہلے فلسطین میں اترنے والے صیہونیوں نے انیس سو اڑتالیس میں نئی مملکت کے قیام کے لیے زیادہ سے زیادہ رقبہ اینٹھنے کے لیے ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو جس طرح پانچ سو کے لگ بھگ دیہاتوں، قصبوں اور شہروں سے نکال کے ان کے تاریخی محلے مسمار کر کے ان پر جدید عمارات کھڑی کر دیں۔
جس طرح ان قدیم آبادیوں کے صدیوں پرانے نام تبدیل کیے گئے اور جس طرح نئے تعلیمی نصاب میں یہ بتایا گیا کہ یہودیوں کی آمد سے پہلے یہ سرزمین خالی تھی اور فلسطینی نام کی کوئی قوم یہاں آباد نہ تھی۔اس نصاب نے جو نئی نسل پیدا کی وہ انسانی و ثقافتی نسل کشی میں اپنے بزرگوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئی۔
اگر صرف سات اکتوبر کے بعد سے اب تک ہی خود کو محدود رکھیں تو بے شمار تصاویر سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ نہ صرف انسانوں کا بلکہ ان کی ثقافت و تاریخ کا قتلِ عام بھی برابر جاری ہے۔
مشرقِ وسطی میں خود کو واحد جمہوری ملک کہلوانے والے اسرائیل نے غزہ میں پارلیمنٹ کی عمارت کو بارود لگا کے اڑا دیا۔بلدیہ کے تحت قائم پانچ منزلہ نیشنل آرکائیو مرکز اڑا دیا جس میں عثمانی دور سے اب تک کا ڈیڑھ سو سال پرانا ریکارڈ ، شہر کی تاریخ سے متعلق نادر دستاویزات، ٹاؤن پلاننگ کے نقشے، واٹر اور سیوریج نیٹ ورک کے سروے اور شہریوں کی پیدائش و اموات کا ریکارڈ موجود تھا۔
غزہ شہر کی مرکزی لائبریری جو بڑوں اور بچوں میں یکساں مقبول تھی اسے بھی گولہ باری سے تباہ کر دیا گیا۔نامعلوم سپاہی کا مجسمہ جو فلسطینی مزاحمت کا سمبل تھا ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
راشد شاوا کلچرل سینٹر بھی زمیں بوس کر دیا گیا۔ یہاں انیس سو اٹھانوے میں یاسر عرفات اور بل کلنٹن کی تاریخی ملاقات ہوئی تھی۔راشد شاوا کلچرل سینٹر انیس سو پچاسی میں تعمیر ہوا تھا۔اس میں ایک تھیٹر ہال اور بیس ہزار کتابوں پر مشتمل لائبریری قائم کی گئی تھی۔
گریک آرتھوڈکس کلچرل سینٹر ، غزہ آرٹ سینٹر ، خان یونس کا القرارا کلچرل میوزیم اور رفاہ میوزیم سمیت اکیس چھوٹے بڑے ثقافتی مراکز گزشتہ گیارہ ہفتے میں بموں اور گولوں کی خوراک بن گئے۔کتابوں کی پانچ مشہور دوکانیں ملبے کا ڈھیر ہو گئیں۔
غزہ شہر کا قدیم حصہ جس میں گھر ، مساجد ، گرجے ، پرانے بازار اور تعلیمی اداروں کی عمارات شامل تھیں ہمیشہ کے لیے برباد ہو گئیں۔غزہ کی ہزار برس سے بھی پرانی اور سب سے وسیع العمری جامع مسجد سمیت ایک سو چار مساجد اب صرف تصاویر میں ہی نظر آئیں گی۔
یہی حال ڈیڑھ ہزار برس پرانے سینٹ پروفیرئیس چرچ کا ہوا جو چار سو سات عیسوی میں قائم ہوا تھا اور اس کا شمار تین قدیم ترین گرجوں میں ہوتا ہے۔
البلاغیہ کی بندرگاہ اور رومن دور کی اینتھی ڈون بندرگاہ عالمی وراثت کی یونیسکو فہرست میں شامل ہیں۔ان کے آثار کو بھی بمباری سے شدید نقصان پہنچا۔گزشتہ برس ہی شمالی غزہ میں رومن دور کا دو ہزار سالہ قدیم قبرستان دریافت ہوا تھا۔اسرائیل نے اس کے اوپر سے بھی ٹینک اور بلڈوزر گذار دیے۔
تل امِ عامر میں واقع سولہ سو برس پرانی سینٹ ہلیریون مسیحی خانقاہ ، الشجائیہ کے قصبے میں چار سو برس پرانا الصاقا ہاؤس بھی اب کبھی دیکھنے کو نہ ملے گا۔
عثمانی دور کے تاریخی گھر بیت الغسان اور سمارا کا قدیم حمام بھی ختم کر دیا گیا۔
کیا قدیم اثاثے کو بعد از جنگ بحال کیا جا سکتا ہے ؟ ماہرین کہتے ہیں کہ گزشتہ زمانے کی نادر تعمیراتی ٹکنیکس اب کسی کو نہیں معلوم۔ایک بھی کاریگر ایسا نہیں جو صدیوں پرانی یادگاروں کو اسی طرح بحال کر سکے جس طرح وہ بربادی سے پہلے تھیں۔
اسی دوران مغربی کنارے پر تلکرم شہر میں یاسر عرفات کا نصب مجسمہ بلڈوز کر دیا گیا۔جنین میں فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقل کی یادگار بھی بلڈوز ہو گئی۔
انھیں گزشتہ برس جنین میں ہی رپورٹنگ کے دوران ایک اسرائیلی فوجی نشانچی نے سر میں گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ مارچ دو ہزار ایک میں افغان صوبہ بامیان میں پہاڑ سے تراشے گئے گوتم بودھ کے دو عظیم الشان مجسموں کو افغان طالبان نے کس طرح ڈائنا مائٹ اور گولہ باری سے اڑا دیا تھا۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ مالی کے تاریخی شہر ٹمبکٹو پر قبضے کے بعد داعش سے منسلک انصارالدین نامی شدت پسند گروہ نے دو ہزار گیارہ بارہ میں کیسے احمد بابا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لائبریری میں موجود ساڑھے تین لاکھ نادر قلمی مخطوطات میں سے لگ بھگ پانچ ہزار قلمی مذہبی و تاریخی نسخے نذرِ آتش کر دیے تھے۔
آپ کو شاید یہ بھی یاد ہو کہ داعش نے دو ہزار چودہ میں شام میں واقع قدیم رومن شہر پالرمو کے رومن کولوسئیم اور ہزاروں برس پرانے دیوتا بال کے دو مندروں کو کیسے برباد کیا۔شاید آپ کو یاد ہو کہ عراق کے شہر موصل کے میوزیم اور مرکزی لائبریری کو بھی داعش نے برباد کر دیا اور سمیری تہذیب کے مجسموں کو توڑ دیا یا مسخ کر دیا۔
یاد ہے آپ کو کہ ان تمام وارداتوں کی عالمی پیمانے پر کس قدر مذمت ہوئی تھی اور کس طرح اس نایاب اثاثے کو برباد کرنے والوں کو وحشی اور تہذیب سے عاری درندے کہا گیا تھا۔
اسرائیل نے فلسطینی تاریخی ورثے کے ساتھ پچھلے پچھتر برس میں یہی کچھ کیا اور مسلسل کیا۔تباہی کی اس داستان کو یکجا کیا جائے تو طالبان، داعش اور انصار الدین نے جس قدر ثقافتی نقصان پہنچایا وہ صیہونیوں کے ہاتھوں فلسطین کے ماضی اور حال کے قتلِ عام کے آگے کچھ بھی نہیں۔مجال ہے کہ تاریخ کو مٹانے اور ثقافتی ورثے کو موت کے گھاٹ اتارنے کے اس عمل کے خلاف کسی بھی مغربی کونے سے حرفِ مذمت سامنے آیا ہو۔
ایسے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈکشنری میں ایک بہت ہی کمال لفظ داخل کیا گیا ہے۔ ’’ کولیٹرل ڈیمیج ‘‘۔یعنی دورانِ جنگ مجموعی تباہی۔ یہ اصطلاح دراصل جدید بربریت پر ڈالنے والا کمبل ہے جسے اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی نام نہاد مہذب ملک انسانی و ثقافتی نسل کشی کو ایک ناگزیر جنگی نقصان قرار دے کے اس کی شدت کو انتہائی کم دکھا کے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
کوئی تبصرے نہیں