پاکستان کو سنجیدہ قیادت کی ضرورت اور ملک کے سیاسی حالات!!!!!!



محمداکرم چوہدری

مجھے بہت اچھی طرح یادہے کہ جب چار نومبر دو ہزار انیس کو میں نے  اس وقت کی حکومت کے حوالے سے میڈیا میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، بارہ نومبر 2019 کو میرا استعفی منظور ہوا۔ میں نے اس وقت بھی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو بتایا کہ پاکستان میں عام آدمی بہت مشکل میں ہے، مہنگائی قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے،  لوگ جھولیاں اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں۔ حکومت اپنی رٹ قائم کرنے اور عام پاکستانی کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ میں اس وقت وزیراعلٰی پنجاب کا مشیر تھا، میں براہ راست زندگی گذارنے کی بنیادی اشیا کے مختلف محکموں کو دیکھ رہا تھا، مجھے نظر آ رہا تھا کہ عام آدمی کے مسائل اور مہنگائی پر قابو پانا سیاسی قیادت کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی بہت سے کاموں میں حکومت کسی قسم کا تعاون نہیں کرتی تھی اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے غیر سنجیدہ اقدامات کیے جاتے تھے۔ جب میں نے اعلانیہ عام آدمی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو اس وقت سیاسی ساتھیوں نے میری حمایت نہیں کی تھی۔ سب نے اپنی اپنی کرسیاں بچانے کے لیے مصلحت سے کام لیا اور مجھے کہا گیا کہ تم نے بہت جلدی کر دی ہے۔ میں نے عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے اس وقت متعدد مرتبہ حکومت کی اعلی ترین شخصیت کے سامنے بھی تحفظات کا اظہار کیا اور جب ہر طرف سے عام پاکستانی کو نظر انداز کرنے اور اس معاملے میں غیر سنجیدہ رویہ دیکھا تو عہدے سے چمٹے رہنے کے بجائے علیحدگی اختیار کی۔ مجھے اس وقت دکھ صرف یہ تھا کہ لوگوں سے جھوٹے وعدے کرنے اور انہیں سبز باغ دکھا کر حکومت میں آنے والوں نے اقتدار میں آ کر ووٹرز کو بڑے طریقے سے نظر انداز کیا۔ غیر ضروری بیانات جاری کرتے رہے اور مہنگائی کا نوٹس لیتے رہے لیکن عملی طور پر کچھ نہ کیا۔ آج وال سٹریٹ جرنل نے بھی پاکستان تحریک انصاف کو غیر سنجیدہ قرار دے دیا ہے ۔ بین الاقوامی میڈیا بھی پاکستان تحریک انصاف کو غیر سنجیدہ قرار دے رہا ہے، ان کے طرز فکر اور طرز حکومت پر بات ہو رہی ہے۔ وہ تمام لوگ جو اس وقت پی ٹی آئی کا دفاع کرتے اور ان کے فیصلوں کو درست ثابت کرنے کے لیے دنیا بھر کی نامناسب مثالیں دیا کرتے تھے، وہ سب لوگ آج بین الاقوامی میڈیا دیکھیں، پڑھیں کہ دنیا میں کیا بات ہو رہی ہے، کون کیا لکھ رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔ پی ٹی آئی والے تو ویسے بھی غیر ملکی میڈیا کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اگر ہر معاملے میں غیر ملکی میڈیا کو اہمیت دینی ہے تو اس رپورٹ کو بھی دیکھیں۔ 

امریکی  اخبار لکھتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی دوبارہ وزیراعظم بن گئے تو پاکستان کے تیز ترین زوال کا باعث بنیں گے۔ پاکستان بڑھتی ہوئی دہشت گردی، کم ہوتی فی کس آمدنی اور تیس فیصد افراط زر کا شکار ہے، ایسے میں پاکستان کو ناکام آئیڈیاز کے حامل کرشماتی لیڈر کے بجائے سنجیدہ قیادت کی ضرورت ہے. عمران خان کے پاس امریکا کی مخالفت، اسلام ازم اور بائیں بازو کے پرانے معاشی خیالات کے سوا کچھ نہیں، پاکستان کی ترقی اور خوشحالی بھارت کے ساتھ امن میں ہے۔ پاکستان کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف کا قرض چاہیے اور امریکا آئی ایم ایف کا اہم رکن ہے، بانی پی ٹی آئی امریکا سے پاکستان کے تعلقات خراب کر لیں گے۔ پاکستانیوں کو غربت سے نکالنا ہے تو اس کے لیے بانی پی ٹی آئی ہرگز موزوں نہیں۔

اس میں تو کچھ شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہونے والے فیصلوں میں سنجیدگی اور پختگی نظر نہیں آتی۔ آج بھی ان کا حال وہی ہے، انہوں نے اپنے جیسے غیر سنجیدہ لوگوں کا ایک حلقہ تیار کیا ہے جو ہر حال میں ناخوش رہتے ہیں، ہر وقت ہر کسی کو تنقید کا نشانہ بنانے، دوسروں کو کم تر خود کو برتر سمجھنے کا بیانیہ قائم کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اپنی غلطیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے اور دوسروں کی کامیابی کا کریڈٹ لینے کے لیے ہر وقت تیار نظر آتے ہیں۔ لوگوں میں احساس محرومی پیدا کر کے کسی کی دولت پر سوال اٹھانا اور اسے مشکوک بنانا سب سے آسان ہے یہ کام پی ٹی آئی کے سابق سربراہ نے اب تک یہی کام کرتے رہے ہیں۔ ملک میں اس وقت اگر عدم برداشت کی کیفیت ہے تو اس کی سب سے بڑی ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف ہے۔ یہ سب کچھ غیر سنجیدہ اور غیر حقیقی بیانیے کی وجہ سے ہوا ہے۔ بدقسمتی سے یہ سوچ صرف اندرونی طور پر ہی نہیں تھی بلکہ اس غیر حقیقی سوچ کا نقصان ہمیں بین الاقوامی اور سفارتی سطح پر بھی ہوا ہے۔ ایک مخصوص ٹولہ آج بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کے راستے پر ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو ماضی میں جھوٹ کی سیاست کرتے اور پاکستان کے سادہ لوح، معصوم لوگوں کے جذبات بھڑکاتے اور ان کے مستقبل سے کھیلتے رہے ہیں۔ ظالموں کا یہ ٹولہ آج بھی مصروف عمل ہے۔ اب یہ فیصلہ پاکستان کے لوگوں نے کرنا ہے کہ انہوں نے تباہی کے راستے پر چلنا ہے یا پھر ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے تعمیر کا سفر شروع کرنا ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں  پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں تلخی کی وجہ بھی غیر سنجیدہ اور غیر حقیقی سوچ تھی۔ چوبیس کروڑ سے زائد انسانوں کے ملک کو چلانے کے لیے تحمل مزاجی، برداشت،  اتحاد ، تعمیری سوچ اور دنیا کا کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی حالات کا ادراک ہونا ضروری ہے۔ بہتر فیصلوں کے لیے مشاورت ضروری ہے لیکن دو ہزار اٹھارہ میں حکومت بنانے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نے مشاورت کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے سیاسی آمریت قائم کی۔ یہی وجہ ہے کہ نو مئی جیسے افسوس ناک واقعات ہوئے، ملک کے نوجوانوں کو ورغلایا گیا، ان کی توانائیوں کو منفی انداز میں استعمال کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ کیا ملک نفرت پھیلانے سے ترقی کرتے ہیں، کیا ملک اداروں کو تباہ کرنے سے ترقی کرتے ہیں، کیا ملک کو اداروں کو کمزور کرنے سے ترقی کرتے ہیں، کیا ملک سیاسی لبادہ اوڑھ کر آمریت قائم کرنے سے ترقی کرتے ہیں۔ یقینا ایسا نہیں ہے، پائیدار ترقی کے لیے سنجیدہ قیادت، پختہ سوچ، فیصلوں میں تسلسل، فکری و تعمیری قیادت، مثبت سوچ کے ساتھ رواداری، امن اور محبت کی فضا کو قائم کرنا ضروری ہے۔ جب تک آپ زبانی جمع خرچ، ہر وقت پگڑیاں اچھالنے، لوگوں کے جذبات بھڑکانے کی منفی سیاست سے باہر نہیں نکلیں گے ترقی کے خواب کو تعبیر نہیں ملے گی۔ سیاسی قیادت کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا، علاقائی سیاست اور عالمی طاقتوں کے مفادات کو دیکھتے ہوئے اپنا راستہ بنانے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ پاکستان غیروں کی جنگوں میں بہت نقصان کر چکا ہے۔ اس ملک کے مظلوم شہریوں نے بہت تکلیف دیکھی ہے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سیاسی قیادت ان مسائل کو حل کرنے اور پاکستان کے مفادات کی حفاظت کرنے کے لیے ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے۔ پاکستان کو سیاسی و معاشی استحکام کی ضرورت ہے اور اس معاملے میں سب سے زیادہ ذمہ داری سیاسی قیادت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کے شہریوں کو بھی عقل، سمجھ سے کام لیتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیے۔

میں پھر کہہ رہا ہوں کہ بائیس سال کی جدوجہد کے بعد حکومت میں آنے والوں میں نظام چلانے کی اہلیت ہی نہ تھی، وہ حکومت کرنے کے قابل نہ تھے، پی ٹی آئی کے ساتھ سفر کرنے والا اور عہدے پر جانے والا ہر دوسرا شخص اپنی بائیس سال کی بھوک مٹانے کی کوششوں میں مصروف رہا ان حالات میں عام آدمی کا کون سوچتا۔ یہ تلخ باتیں ہیں لیکن یہ حقیقت ہے۔ کاش قوم کی خدمت کی ہوتی تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔

آخر میں قتیل شفائی کا کلام

تمہاری انجمن سے اْٹھ کے دیوانے کہاں جاتے

جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے

نکل  کر  دیر  و کعبہ  سے اگر ملتا نہ مے خانہ

تو  ٹھکرائے  ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے

تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی

تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے

چلو  اچھا  ہوا،  کام   آ  گئی   دیوانگی   اپنی

وگرنہ  ہم  زمانے  بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

قتیل  اپنا  مقدر  غم   سے   بیگانہ   اگر   ہوتا

تو  پھر  اپنے  پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.