بستہ الف کا دانشور اور Soloman’s Paradox

 


یاسر پیر زادہ

اصولاً یہ کالم مجھے یوں شروع کرنا چاہیے کہ ” گزشتہ دنوں میں بطور مہمان خصوصی ایک تقریب میں مدعو تھا، وہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجو دتھی، انہوں نے اپنی زندگی اور کیرئیر کے حوالے سے مجھ سے کئی سوالات کیے ، میں نے تحمل سے اُن کی باتیں سنیں اور انہیں بتایا کہ زندگی کس ڈھنگ سے گزارنی چاہیے ، کامیابی کے اصول کیا ہیں ، مستقبل کی منصوبہ بندی کیسے کی جاتی ہے، شادی کیلئے لڑکی/لڑکاکیسے پسند کیا جاتا ہے... نوجوانو ں نے بڑی دلچسپی سے میری گفتگو سنی، ایک گھنٹے کی تقریب تین گھنٹے پر محیط ہوگئی،کئی نوجوانوں نے بعد میں مجھ سے ذاتی مشورے بھی لیے، میں نوجوانوں کا جذبہ دیکھ کر بہت متاثر ہوا ، یہ ہمارا مستقبل ہیں ، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیزہے ساقی، ہم بنے تم بنے اک دوجے کیلئے ۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ہمارے ملک میں چونکہ قحط الرجال ہے اِس لیے اپنے ہاں اِس قسم کی باتیں کرنے والے لکھاری بھی دانشور کے عہدے پراز خود فائزہوجاتےہیں، خیر کوئی بات نہیں ،اللہ انہیں خوش رکھے اور ایسے ہی عزت کی روٹی دیتا رہے ۔عزت کی روٹی سے ایک لطیفہ یاد آگیا ، آپ سب نے سنا ہوگا اِس لیے لکھنے کی ضرورت نہیں ۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ جولوگ اِس قدر تیقن کے ساتھ زندگی گزارنےکے بارے میںمشورے دیتے ہیں کیا وہ حقیقی دانشور ہیں اور کیا اُن کے مشوروں پر عمل کیا جانا چاہیے ؟



ہمارے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہوا ہے کہ ہم نے الفاظ کو بے وقعت کر دیاہے ، ایسی صفات جو نہایت احتیاط اور بخل سے کام لے کر استعمال کرنی چاہیے تھیں ،انہیں ہم نے ہر کس و ناکس کے نام کے ساتھ لگا کر بے معنی بنادیا ہے۔دانشور بھی ایسا ہی ایک بد نصیب لفظ ہے ۔ہمارےملک میں حقیقی دانشوروں کی تعداد شاید آٹے میں نمک کے برابر ہومگر ٹی وی یا سوشل میڈیا کو دیکھیں تو لگتا ہے جیسے ہر یونین کونسل میں دس بیس دانشور موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حقیقی دانشور کیساہوتا ہے ؟ میری رائے میں دانشور کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات و افکار کی مسلسل پڑتال کرتا رہتا ہے، وہ جامد نظریات کا حامل شخص نہیں ہوتا، اُس کا بنیادی مقصد حق اور سچ کی جستجو ہوتی ہے، وہ اپنی انا کا غلام نہیں ہوتا، جہاں اسے اپنی غلطی کا احساس ہوجائے وہ فوراً اسے تسلیم کرکے اپنی فکرکو درست کرتا ہے ، ایسا شخص مخالف رجحانات کے حامل افراد کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ، اُن خیالات کا کھلے دل سے جائزہ لیتا ہے ، اپنے نظریات کو چیلنج کرتاہے اور اِس ضمن میں اپنے تعصبات کو پرے رکھ کر صرف دلیل کی روشنی کوئی رائے قائم کرتا ہے ۔دانشور کی یہ خصوصیت ہی اسے اُن عام لوگوں سے ممتاز کرتی ہے جو تمام عمراپنے تعصبات کےاسیر رہتے ہیں۔یہ تو ہوئی دانشور کی تعریف۔اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ زندگی ، کامیابی ،دولت ،شہرت،کیرئیر اور شادی، کاروبار وغیرہ کے معاملات پر مشورے دیتے ہیں کیا اُن کیلئے دانشور ہونا ضرور ی ہے اور اگر وہ دانشور کی اِس تعریف پر پورےنہیں اترتے تو کیا ایسی صورت میں اُن کے مشوروں کی کوئی اہمیت ہے ؟اِس خاکسار کاخیال ہے کہ اِن معاملات میں آپ کسی بھی سمجھدار شخص سے مشورہ کرسکتے ہیں بلکہ لازمی مشورہ کرنا چاہیے ،اِس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے معاملے میں انسان ، خواہ کتنا ہی سیانا کیوں نہ ہو،اکثر درست فیصلہ کرنے میں چُوک جاتا ہے۔ہم جب کسی معاملے میں الجھے ہوتے ہیں تو اُس معاملے کواپنی ذات سے علیحدہ کرکےمعروضی انداز میں نہیں دیکھ پاتے اور اسی وجہ سے بعض اوقات غلط فیصلہ کرجاتے ہیں ۔نفسیات کی زبان میں اسے Soloman’s Paradoxکہتے ہیں ۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسروں کے معاملات پر نہایت مفید اور دانشمندانہ مشورے دیتا ہے مگر اپنے معاملات میں اُس کی دانش گھاس چرنے چلی جاتی ہے اور بعض اوقات وہ ایسے احمقانہ فیصلے کرتا ہے جو نقصان کا باعث بنتے ہیں۔آپ نے اکثر اِس بات کامشاہدہ کیا ہوگاکہ ہم دوسروں کی زندگی ،کاروبار،کیرئیراور شادی کے معاملات میں نہایت مفید مشورے دیتے ہیں کیونکہ ہم اُن معاملات میں براہ راست فریق نہیں ہوتے لہٰذا ہماری رائے بے لاگ اور تعصبات سے پاک ہوتی ہے جبکہ اپنے معاملےمیں ہم چونکہ خود پارٹی ہوتے ہیں اِس لیے اپنی ذات سےبالا تر ہوکر سوچ نہیں پاتے اور یوں فیصلے میں غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔سو ضروری نہیں کہ زندگی کے معاملات کو سلجھانےکیلئے حقیقی دانشور ہی تلاش کیا جائے، ایک اچھی سوجھ بوجھ والا شخص بھی آپ کو درست فیصلہ کرنے میں مدد کرسکتا ہے ۔


اب یہاں دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیامشورے پر آنکھیں بند کرکے عمل کر لیا جائے؟ اِس کا جواب ناں میں ہے ۔کسی سیانے آدمی سے مشورہ لینے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آپ کو تصویرکا ایسا رُخ دکھا دیتا ہے جو آپ کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے ، جب آپ وہ رُخ دیکھ لیں تو اُس کے بعد فیصلہ خود کریں کہ کیاکرنا ہے کیونکہ ہر شخص کی زندگی اور حالات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ، ضروری نہیں کہ کامیابی کا جو کلیہ ایکس کیلئے کارگر ثابت ہو وہ زیڈ کیلئے بھی مفید ہو۔ہر بندے کی شخصیت دوسرے سے جدا ہوتی ہے، اُس کا مزاج مختلف ہوتا ہے، اُس کی صلاحیت میں فرق ہوتا ہے لہٰذا کامیابی کا کوئی ایک فارمولہ نہیں بنایا جا سکتا جسے استعمال کرکے بندہ امر ہوجائے۔انسانی رشتوں میں تو یہ بات مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے ، ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ میاں بیوی کی بول چال برسوں سے بند ہے مگر وہ علیحدہ نہیں ہوتے اور بچوں کی وجہ سے یا کسی بھی دوسری مجبوری کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ زندگی کو گھسیٹتے رہتے ہیں۔ کوئی تیسرا شخص اگر یہ دیکھے تو لا محالہ یہی مشورہ دے گا کہ انہیں علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے ، بالکل اسی طرح جیسے ہم کسی فلم میں کوئی کردار دیکھتے ہیں تو فوراً اُس کی جگہ خود کو رکھ کر فیصلہ صادر کردیتے ہیں کہ اسے تو یوں کرنا چاہیے تھا اور یہ فراموش کردیتے ہیں کہ اُس کردار کی شخصیت ہم سے مختلف ہے ۔


یہ کالم لکھنے کے بعد احساس ہورہاہے کہ میں نے جس مربیانہ انداز میں آپ کومشورے دئیے ہیں اُس سے یوں لگتا ہے جیسے میں خود کو کم از کم بستہ الف کا دانشورضرورسمجھتا ہوں۔اب جنریشن زی کے جن نوجوانوں کو بستہ الف کا علم نہیں، انہیں میرا مشورہ ہے کہ کبھی کبھار نصاب کے علاوہ بھی کوئی کتاب کھول کر دیکھ لیا کریں، افاقہ ہوگا۔والسلام۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.