دریائے سندھ، کالا باغ اور دھند میں لپٹا ہوا ڈاک بنگلہ
یاسر پیر زادہ
شام ڈھلنے سے کچھ پہلے ہم کالا باغ پہنچ گئے، داؤد خیل سے یہ جگہ پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر ہے ،کالا باغ کے علاقے میں داخل ہوتے ہی دریائے سندھ آپ کا استقبال کرتا ہے۔دریا کو عبور کرنے کیلئےیہاں لوہے کا ایک پُل ہے جو انگریزوں نے 1928ءمیں تعمیر کیا تھا، اِس پُل پر ریلوے ٹریک بھی موجودہے مگر ا ب وہ متروک ہو چکا ہے ،یہاں سے دریاکا نظارہ بے حد دلکش ہے، کالا باغ کے پہاڑوں کے ساتھ دریا کی موجیں جھومتی ہیں تو ایک عجیب ہی سماں پیداہوتا ہے۔ہم پُل عبور کرکے نواب آف کالا باغ کے محل پہنچے ،اِس جگہ کی تصاویر میں نے چند سال پہلے اخبار میں ایک مضمون کے ساتھ دیکھی تھیں،مضمون کا عنوان کچھ اِس قسم کا تھا کہ’پاکستان کے وہ دس مقامات جو آپ کو ضرور دیکھنے چاہئیں۔‘مضمون میں نواب آف کالا باغ کے اِس محل کی تاریخ بیان کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ محل کا وہ حصہ جو مہمان خانے پر مشتمل ہے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں بہت سے ملکی اور غیر ملکی عمائدین قیام کرتے رہے ہیں سو ہم بھی خود کو چھوٹا موٹا ’عمائد‘ سمجھ کر یہاں پہنچ گئے۔مہمان خانے کی عمارت قدیم طرز تعمیر کا نمونہ ہے اور اسے دیکھتے ہی عجیب سی پراسراریت کا احساس ہوتا ہے۔مہمان خانے کی تعمیر اِس طرح کی گئی ہے کہ دریائے سندھ کی لہریں اِس سے ٹکراتی ہیں اور آپ دالان میں بیٹھ کر دریا سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ دریائے سندھ یہاں خاموش اور پُر سکون تھا، آگے یہ ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف نکل جاتا ہے ،کالا باغ کے پہاڑ البتہ وہیں کھڑے رہتے ہیں، کہیں نہیں جاتے۔ شام کے سائے اب گہرے ہو چکے تھے، پہاڑوں کے درمیان لوگوں کے مکانوں کی روشنیاں جگمگا اٹھی تھیں،کچھ مقامی لوگ کشتی میں دریا پار کرکے اُن مکانوں کی طرف جا رہے تھےاورکچھ سیاح بھی جو صرف دریا کی سیر کرنا چاہتے تھے۔ہم نے یہ منظر اپنی آنکھوں میں قید کرلیا۔
اگلی صبح کا سفر خاصا دلچسپ رہا،اب ہمارے رہنما قیصر عباس صابر تھےجو پوراپاکستان دیکھ چکے ہیں، ایک درجن سے سفر نامے لکھ چکےہیں اور چلتا پھرتا گوگل میپ ہیں۔میں نے اُن سے گزارش کی تھی کہ میانوالی سے واپسی پر ہمیں کسی ایسے ڈاک بنگلے کا پتا بتائیں جو پرانا ہو اور نہر کے کنارے واقع ہو تاکہ وہاں رات گزاری جا سکے۔انہوں نے کہا کہ آپ سیدھا ہیڈ محمد والا پہنچ جائیں ،وہاں سے تونسہ پنجند نہر کے ساتھ مُڑ جائیں اور پھر کبیر والا پہنچ جائیں، اُس کے نواح میں آپ کو ایسے ڈاک بنگلے میں ٹھہرایا جائےگا کہ آپ یاد کریں گے۔اِس منظر کشی کے بعد کسی قسم کے سوال و جواب کی گنجائش نہیں تھی ۔ ہم نے گوگل پر ہیڈ محمد والا سیٹ کرلیا جو اُس وقت تقریباً پانچ گھنٹے کی مسافت دکھا رہا تھا لیکن یہ پانچ گھنٹے شیطان کی آنت ثابت ہوئے۔ہیڈ محمد والا،ملتان شہر اور موٹر وے سے گزر کر جب ہم کبیر والا پہنچے تو ہمیں سفر کرتے ہوئے آٹھ گھنٹے گزر چکے تھے اور ہنوز دلی دور تھا۔قیصر صابر سے مسلسل فون پررابطہ تھا، انہوں نے کہاکہ کبیر والا بازار سے آپ اڈہ بارہ میل کی طرف آجائیں ،میں دوستوں کے ساتھ ایک ریستوران کے باہر آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ہم سمجھے کہ شاید اب دس بارہ منٹ کی ڈرائیو باقی ہے مگر یہ ڈرائیو آٹھ گھنٹوں سے بھی زیادہ کٹھن ثابت ہوئی۔جس سڑک پر ہم نے گاڑی موڑی ،وہ بالکل سنسان تھی اور دھند میں لپٹی ہوئی تھی،ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا،خداخدا کرکے پون گھنٹے بعد ہمیں civilization نظر آئی، سامنے ایک ریستوران تھا جس کی روشنیاں جگمگارہی تھیں اور جہاں ہمارے میزبان گزشتہ دو گھنٹے سے انتظار کر رہے تھے۔ڈاک بنگلہ یہاں سے آگے تھا۔
یہ ڈاک بنگلہ خاصا پرانا تھا اور اڈہ بارہ میل کی حدود میں واقع تھا۔جب ہم یہاں پہنچے تو سردی اور دھُند عروج پر تھی،بنگلے کی عمارت بھی ٹھیک سے نظر نہیں آرہی تھی۔ڈاک بنگلے کے چوکیدار نے ہمارے لیے دو کمرے کھول دیے،یہ ادھیڑ عمر کا شخص تھا جس نے اپنا منہ مفلر میں چھپایا ہوا تھا۔ہم نے اسے انگیٹھی گرم کرنے کے لیے کہا تو وہ غائب ہوگیا مگر کچھ دیر بعد اچانک انگیٹھی ہاتھ میں لیے یوں نمودار ہوگیا جیسے الہ دین کا جن ہو۔ہمارے میزبان ڈاک بنگلے تک ساتھ آئے تھے اور جاتے ہوئے یہ جملہ کہہ گئے تھے کہ رات کو سوتے وقت دروازہ اندر سے اچھی طرح بند کرلیجیے گا ،کبھی کبھار چور اچکے دیوار پھاند کر اندر آجاتے ہیں۔اِس کے بعد کس کافر کو نیند آتی۔ہم نے چوکیدار کو آوازیں دیں مگر جواب ندارد۔نوخیز نے کہا کہ اصل میں یہ چوکیدار بیس برس پہلے مر چکاہے اوراب اِس کی روح ڈاک بنگلے میں بھٹک رہی ہے ۔اُس وقت یہ بات بالکل سچ لگی کیونکہ دھُند میں ہم نے ڈاک بنگلے کے چاروں طرف گھوم کر دیکھ لیا، چوکیدار کوآوازیں بھی دیں مگر سناٹے میں ہماری آوازیں دیواروں سے ٹکرا کر واپس آگئیں۔مگر پھر دوبارہ چوکیدار کہیں سے نمودار ہوگیا، اُس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی، ہم نے پوچھا کہ تم کہاں تھے تو اطمینان سے بولامیں تو اپنے کوارٹر میں کھانا کھا رہا تھا، اُس نے ہمیں اپنا کوارٹر بھی دکھایا،یہ اور بات ہے کہ جب ہم اسے تلاش کر رہے تھے تو یہ جگہ ہمیں نظر ہی نہیں آئی تھی۔نوخیز نےہمیں پھر قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ ڈاک بنگلہ آسیب زدہ ہےاورآج چونکہ پورن ماشی کی رات ہے اِس لیےچوکیدار پچھلے پہر کا انتظار کر رہا ہے جب وہ ہمارا بلیدان کرے گا۔
جیسے تیسے کرکے ہم نے رات گزاری، صبح ہوئی تو یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ کسی کی گردن نہیں کٹی ہوئی اور کہیں خون کے چھینٹے نہیں موجود،جس چوکیدار کو ہم بد روح سمجھ رہے تھے اُس نے مجھے بیدار دیکھا تو فوراً قریب آکر پوچھا کہ رات کو آپ نہر دیکھنا چاہتے تھے تو چلیے۔ڈاک بنگلے کے ساتھ ہی دو نہریں تھیں جن کے انتظام کے لیے ہی یہ ڈاک بنگلہ تعمیر کیا گیا تھا۔پنجاب کی یہ نہریں،یہ دھُند، یہ سردی اور یہ ڈاک بنگلے،اب چند سال کے مہمان ہیں،ہم نے اِن کا جو حشر کردیا ہے اُس کے بعد یہ چیزیں فقط تصویروں میں زندہ رہیں گی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
کوئی تبصرے نہیں