وہ لاہور کہیں کھو گیا
واصف ناگی
(گزشتہ سے پیوستہ )
گوروں کی یہ خواہش تھی کہ فوج کے لئے کسی ایسے علاقے کا انتخاب کیا جائے جو شہر سے دور اور پرفضا مقام پر ہو۔1850ء میں شہر لاہور جو چودہ دروازوں ، انار کلی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں پر مشتمل تھا آلودگی کا شکار ہونا شروع ہو گیا تھا۔ چنانچہ سرچارلس نبیئر شہر سے دور حضرت میاں میرؒ کے مزار مبارک کی طرف چلا گیا یہ علاقہ اس وقت جنگل اور کھیتوں سے ہرا بھرا علاقہ تھا ہمیں یاد ہے ہم نے خود انفنٹری روڈ پر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ کھیت دیکھے ہیں آج بھی آرمی کے ایک ڈپو میں دو ریلوے لائن جاتی ہیں کبھی کبھی آج بھی ایک لائن پر ریلوے کی مال گاڑی آتی ہےاور کافی دیر تک ٹریفک کو روکا جاتا ہے۔
آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ پرانے ایئر پورٹ کے باہر دو ریلوے لائنیںآج بھی بچھائی ہوئی ہیں اور ہم نے خود آج سے چند برس قبل تک ان ریلوے لائنوں پر گاڑیوں کی آمدورفت دیکھی ہے آج جہاں نیا ایئر پورٹ ہے اور اب وہاں پر کوئی تیس کے قریب شادی گھر بن چکے ہیں۔وہاں پر ابھی صرف چند برس تک گنے اور گندم کے کھیت ہوا کرتے تھے ۔اور قریب ہی آرمی کے ڈیری فارم کی بھینسیں اور گائے بھی ایک بہت بڑے باڑے میں ہوا کرتی تھیں۔ہم صرف سیر کی غرض سے اس خوبصورت علاقے سے گزرا کرتے تھے صبح کے وقت بھی کوئی کوئی موٹر کار ادھر آتی تھی اب تو رات کو بے پناہ رش ہوتا ہے ۔اب ان ریلوے لائنوں کو سڑک کے اندر دبانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے آپ یقین کریں میاں میر کینٹ پاکستان کے خوبصورت ترین چھائونیوں میں سےتھا مگر افسوس کمرشل سرگرمیوں نے اس خوبصورت علاقے کو خراب کر دیا اور ہریالی اب ویسی نہ رہی خیر بات کو آگے بڑھاتے ہیں، جب سرچارلیس نبیئر اپنے ایک ہمراہی کے ساتھ حضرت میاں میرؒ کے مزار مبارک کے قریب پہنچا تو پراسرار طور پر اچانک اپنے گھوڑے سے گر پڑا بہرحال اس سے کچھ اور آگے جاکر اس نے اعلان کیا کہ یہاں پر میاں میر چھائونی بنائی جائے گی۔گرجا چوک اور پھر شامی روڈ پر آج بھی تین مزار ہیں جو حضرت میاں میرؒ کے مریدوں کے ہیں وہ بھی اس زمانے میں موجود تھے گرجا چوک میں کسی زمانے میں ایک یادگار سیٹ تکونی سی لگی ہوتی تھی یہ تکونی سیٹ ہم نے بھی دیکھی اور اس وقت گرجا چوک کا رائونڈ ابائوٹ اتنا بڑا نہیں تھا اس کے قریب ہی سینٹ میری میگرین چرچ ہے۔یہ تکونی سلیٹ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تصادم کی یاد میں نصب کی گئی تھی یہ سلیٹ جنرل ضیا الحق کے دور میں یہاں سے اتار دی گئی تھی ۔بہرحال میاں میرؒ ؒؒؒچھائونی میں بےشمار پرانی بیرکیں موجود تھیں جن پر 1920ء 1902ء ہم نے خود پڑھا دیکھا ہے پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ تمام بیرکیں گرا دی گئیں حالانکہ ان کی حالت کوئی خستہ اور خراب نہیں تھی ۔کئی بیرکوں میں آرمی آفیسرز کی فیملیز بھی رہا کرتی تھیں حالانکہ دنیا میں لوگ پرانی عمارتوں کو محفوظ کرتے ہیں اور انہیں لوگوں کے دیکھنے کیلئے مزید بہتر کرتے ہیں ۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی پرانی، تاریخی او رقدیمی ٹولنٹن مارکیٹ کی اس خوبصورت مارکیٹ کی عمارت کو میواسکول آف آرٹس (این سی اے)کے حوالے کر دیا گیا جو واقعی ایک اچھا فیصلہ تھا 2019ء سے تاحال یہ تاریخی عمارت نیشنل اسکول آف آرٹس والوں کے پاس ہے مگر اب سننے میں آ رہا ہے کہ اس تاریخی عمارت کو این سی اے والوں سے لیکر دوبارہ مختلف دکانوں کی شکل دی جا رہی ہے ایک تاریخی اور خوبصورت عمارت جو اب تعلیمی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہی ہے اس کو پھر ایک بدصورت شکل اور بدبو کےماحول میں تبدیل کرنا کہاں کی عقلمندی ہے لکڑی ، چونا، لوہا کے گارڈرٹیرا کوٹا اورخوبصورت شہتیروں کی حامل منفرد فن تعمیر کی اس عمارت کو اگر حکومت نے دوبارہ دکانوں،مرغیوں،مچھلی مارکیٹ اور سبزی مارکیٹ میں تبدیل کیا تو مال روڈ کی خوبصورتی میں ایک بدنما داغ ہوگا۔لال ریت کے پتھر کا فرش، بھوری اور مہوگنی کی چھتوں والی یہ عمارت دیکھنے میں انتہائی بھلی لگتی ہے این سی اے اس عمارت میں اب تک سینکڑوں فنون لطیفہ کی نمائشیں کرا چکا ہے تھیسس ورک کی نمائش ہوتی ہے اس کے علاوہ فن مصوری، آرٹیٹیکچر، سرامکس اور فنون لطیفہ کی مختلف تقریبات ہوتی رہی ہیں این سی اے کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری اس قدیم عمارت کو جس طرح تعلیمی اور مثبت مقاصد میں استعمال کر رہے ہیں وہ قابل ستائش ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تاریخی عمارت کے اندر آرٹ کی کلاسیں شروع کرنے کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ پر کانفرنسوں کو بھی فروغ دیا جائے۔چاہئے تو یہ کہ اس تاریخی عمارت کو محفوظ بنانے کیلئے حکومت فنڈز دے چہ جائیکہ کہ اس تاریخی عمارت کو خراب کرنےمیں دوبارہ گندی مارکیٹ میں تبدیل کر دیا جائے۔
حکومت نے این سی اے کو یہ منفرد طرز تعمیر کی عمارت ایک اچھے مقصد کے لیے ان کے حوالے کر دی تھی تو اب اگر چند لوگ اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس عمارت کو دوبارہ کمرشل سرگرمیوں کے لیے استعمال کرانا چاہتے ہیں تو یہ بہت غلط فیصلہ ہوگا۔ دوسرے مال روڈ کی اس علاقے میں پہلے ہی پارکنگ اور ٹریفک کے مسائل ہیں ان حالات میں یہاں پر مزید ایسی کمرشل سرگرمیوں سے ٹریفک کے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ ٹولنٹن مارکیٹ گوروں کے زمانے کی تعمیر کردہ کئی خوبصورت عمارتوں میں سے ایک ہے۔ سر جان لاک وڈ کیپنگ کی زیرنگرانی تعمیر ہونے والی اس تاریخی عمارت کو شروع دن سے نمائشی ہال کے طور پر 1864 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا خوبصورت اور منفرد ڈیزائن بھائی رام سنگھ نے تیار کیا تھا۔ بھائی رام سنگھ میو سکول آف آرٹس (این سی اے) کے پہلے ہندوستانی پرنسپل بھی رہے تھے اور ان کا ایک مجسمہ آج بھی این سی اے کے اندر موجود ہے۔ دیکھیں کیا اتفاق ہے کہ 1864میں اس عمارت کو نمائش گاہ کے طور پر بنایا گیا تھا اور پھر 155 برس بعد بھی 2019میں اس کا استعمال نمائش گاہ کے طور پر شروع ہو گیا۔ پنجاب کی ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری ارم بخاری تو اس عمارت اور اس کے ملحقہ جگہ پر ایک مسجد اور کئی خوبصورت تعمیرات کےحق میں تھیں۔(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں