"عشق لاہور"
محمد اکرم چوہدری
لاہور کا اپنا ایک سحر ہے جو یہاں رہتا ہے، اس کا کہیں اور جانے کس دل نہیں کرتا، جو چلا جاتا ہے وہ واپس آنے کے لیے بے تاب رہتا ہے، جو لاہور چھوڑ کر جا چکا ہے وہ جادوئی شہر کو یاد کرتا رہتا ہے۔ لاہور نے سینکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں کروڑوں افراد کی زندگیاں بدلی ہیں۔ لاہور آج بھی زندگیاں بدل رہا ہے۔ اس شہر میں ملک کے دیگر شہروں سے آئے ہوئے بے روزگار افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، بیماروں نے اپنے علاج کے لیے لاہور کا سفر کیا اور صحت یاب ہو کر گھروں کو واپس لوٹے، دہائیوں سے لوگ یہاں علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں اور فیض پاتے ہیں، یعنی جو علم حاصل کرنا چاہتے ہیں لاہور انہیں بھی مایوس نہیں کرتا، جو روزگار کی تلاش میں آتے ہیں لاہور انہیں بھی پناہ دیتا اور یہاں رہنے پر مجبور کرتا ہے، دور دراز علاقوں سے علاج کی خاطر سفر کرنے والے بھی اچھی صحت کے ساتھ واپس جاتے ہیں تو لاہور کو یاد کرتے ہیں۔ لاہور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تو لاہور کا نام سن کر ہی خوش ہوتے ہیں۔ لاہور سے بالخصوص دو تین سو کلو میٹر فاصلے پر جو شہر ہیں وہاں کے لوگوں کے لیے تو لاہور ایک خواب ہے۔ وہ یہاں آ کر خوش ہوتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، گھومتے پھرتے ہیں۔ بہت سی چیزیں ان کے شہروں میں بھی موجود ہیں لیکن جو بات لاہور کی ہے وہ شیخوپورہ، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد، قصور، اوکاڑہ، سرگودھا اور ساہیوال میں تو نہیں ہے۔ یہی اس شہر کی خاصیت ہے۔ یہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ بیرون ممالک سے آنے والے بھی لاہور کا دورہ کرتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں، یہاں کے کھانے، قدیم عمارات، لوگوں کے کھلے چہرے، حیران کن حد تک مہمان نوازی سمیت کئی خصوصیات ہیں جو لاہور اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ آج کا لاہور وہ نہیں ہے جو ماضی میں تھا۔ لاہور نے بہت ترقی کی ہے۔ ترقی کے ساتھ ساتھ شہر وسیع بھی ہوا ہے، بڑی بڑی عمارتیں ہیں، جدید طرز تعمیر ہے، آج لاہور کے حسن اور کشش میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے لاہور کو پچاس کی دہائی میں دیکھا ہے وہ آج بھی اس وقت کو یاد کرتے ہیں کیونکہ کسی نے علم حاصل کرنے لاہور کا سفر کیا تو کوئی روزگار کی تلاش میں لاہور آیا لیکن جو آیا جب بھی آیا لاہور نے ہمیشہ اسے خوش آمدید ہی کہا۔
ڈاکٹر مشتاق احمد لکھتے ہیں کہ وہ پہلی مرتبہ انیس سو ترپن میں لاہور آئے۔ اس وقت فیصل آباد سے لاہور کا سفر صرف سوا دو روپے میں طے کیا۔ بذریعہ ٹرین لاہور کا پہلا سفر آج بھی یاد ہے۔ مجھے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا اور جو کتابیں پڑھنا چاہتا تھا وہ فیصل آباد میں دستیاب نہیں تھیں اور لاہور ان دنوں بھی اس حوالے سے زرخیز ہی تھا۔ اچھی کتابوں کی خواہش مجھے لاہور کھینچ لائی، یہاں دل محمد روڈ پر میری خالہ کا گھر تھا۔ ریلوے سٹیشن سے پیدل ہی خالہ کے گھر گیا۔ ان دنوں گدھا گاڑی، گھوڑا گاڑیاں عام تھیں، لوگ بہت زیادہ پیدل چلا کرتے تھے، سبزی منڈی کی طرف بھی گھوڑا گاڑیاں جاتے ہوئے نظر آتی تھیں۔ خواتین برقعوں میں نظر آتی تھیں، دھوتی کرتہ عام تھا، شلوار قمیض زیادہ لوگ نہیں پہنتے تھے، شاید "بابو" ہی پینٹ شرٹ پہنتے تھے ، لاہور کی سڑکوں پر تانگے ہی نظر آتے تھے، تمباکو اور جانوروں کے فضلے کی بدبو ماحول کو خراب ضرور کرتی تھی۔ بجلی شاید دستیاب نہیں تھی، موٹر گاڑیاں نظر نہیں آتی تھیں، لوگوں کو کچھ چھن جانے کا خوف نہیں ہوتا تھا۔ ان دنوں میں لوگ نہ تو اپنے گھروں کے داخلی دروازوں کو تالے لگاتے تھے نہ ہی اس حوالے سے
فکر مند ہوا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاید یا تو لوگوں کے پاس کچھ ہوتا ہی نہیں تھا یا پھر چوری کرنے والے نہیں تھے۔ لوگوں میں کسی قسم کا خوف نہیں تھا۔ ریلوے سٹیشن اور لاری اڈہ ہی دو اہم مقامات تھے جہاں سے شہر واپس آنے اور یہاں سے جانے والے اپنی اگلی کو روانہ ہوا کرتے تھے۔ کھلی کھلی سڑکیں ہوا کرتی تھیں۔ اس دور میں بھی علم حاصل کرنے والوں کے لیے لاہور بہت اہمیت کا حامل تھا اور لاہور کی یہ خاصیت آج بھی برقرار ہے۔ میں اس کے بعد بھی لاہور رہا ہوں، چوہدری صاحب کوشش کروں گا کہ آنے والے دنوں میں آپ مزید کچھ لکھ کر بھیجوں کیونکہ مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی کے دنوں میں باغ جناح میں بیٹھ کر امتحانات کی تیاری کرنا اور وہاں وقت گذارنا لاہور کو ترقی کرتے ہوئے دیکھنا مختلف وقتوں کے مختلف تجربات و مشاہدات ہیں جو آنے والے دنوں میں آپ کو لکھ کر بھیجوں گا۔
آخر میں شاکر شجاع آبادی کی سرائیکی شاعری بمع اردو ترجمہ
زندگی ھک بوجھ ہھ
زندگی ھک بوجھ ھے بس چئی وداں
چودی نئی پر کنڈھ پچھوں لڑکئی وداں
زندگی ایک بوجھ ہے، بس اٹھائے پھرتا ہوں
اٹھائی نہیں جاتی ، لیکن پشت پر لٹکائے پھرتا ہوں
اجھو مکدے پندھ گھر نزدیک ھے
تھکے بت کوں ایہو لارا لئی وداں
ابھی سفر ختم ہونے ہی والا ہے ، گھر نزدیک ہے
تھکے ہارے جسم کو یہی جھوٹی تسلی دئیے پھرتا ہوں
تھک پیا ھوسیں میاں آرام کر
ھیں صدا کہیں دی تے کن کڑکئی وداں
تھک گئے ہوگے، میاں اب آرام کر لو
کسی کی ایسی آواز سننے پر کانوں کو لگائے پھرتا ہوں
کون لیندے گل غریباں کوں بھلا
آپ شاکر آپ کوں گل لئی وداں
کون غریبوں کو گلے لگاتا ہے بھلا
شاکر اپنے آپ کو خود ہی گلے لگائے پھرتا ہوں
کوئی تبصرے نہیں