الیکشن ہی مسائل کی وجہ ہیں؟؟

محمداکرم چوہدری

آج میں نوائے وقت کے قارئین کی خدمت میں یکم فروری 2023 کا ایک کالم پیش کر رہا ہوں، کالم کی سرخی بھی وہی ہے اضافہ صرف آج کے حالات ہوں گے، باقی فروری دو ہزار تیئیس میں جو ہو رہا تھا وہ آپ کو گیارہ ماہ اور کچھ دن ماضی میں لے جائے گا لیکن آپ کو یہ احساس ضرور ہو گا کہ اصل میں مسئلہ کیا ہے، کیسے ہماری توانائیاں، وقت اور سرمایہ ضائع ہو رہا ہے اور کیوں ہم دنیا سے پیچھے ہیں، حکمران طبقہ کیسے ہمارا خون نچوڑ رہا ہے اور پاکستان کا عام شہری زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ انتخابات کا سب سے زیادہ فائدہ کون اٹھاتا ہے اور سب سے زیادہ نقصان کس کو ہوتا ہے، کون ہے جو انتخابات کے نتیجے میں فیض یاب ہوتا ہے اور کس کی زندگی مزید مشکلات میں گھر جاتی ہے۔ یقینا سب سے زیادہ فائدہ حکومت کرنے والے اٹھاتے ہیں اور سب سے زیادہ نقصان وسائل سے محروم طبقے کا ہوتا ہے، سب سے زیادہ فائدہ وہ اٹھاتے ہیں جو عوام کے ہمدرد بننے کی اداکاری کرتے ہیں۔ آج ایک مرتبہ پھر انتخابات کا شور ہے ان حالات میں ملک کی مختلف سیاسی جماعتیں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں ۔ گذشتہ روز سینیٹ میں بھی اس حوالے سے ایک قرارداد منظور ہوئی ہے۔ سینیٹ نے ملک میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کی ہے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی سربراہی میں ہونے والے سینیٹ اجلاس میں قرارداد کی منظوری کے وقت چودہ سینیٹرز موجود تھے۔ نگران وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی، (ن) لیگ کے سینیٹر افنان اللہ نے اس قرارداد کی شدید مخالفت کی جب کہ پی پی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی اور پی ٹی آئی کے گردیپ سنگھ نے قرارداد پر خاموشی اختیار کی۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے سابق سینیٹر عبدالقادر نے اس قرارداد کی حمایت کی

سینیٹر دلاور خان نے عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ "اکثر علاقوں میں سخت سردی ہے، اس وجہ سے ان علاقوں کی الیکشن عمل میں شرکت مشکل ہے، جے یو آئی (ف) کے ارکان اور محسن داوڑ پر بھی حملہ ہوا، کے پی اور بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر حملے ہوئے ہیں جب کہ ایمل ولی کو بھی تشویش ہے۔"یہ وہ حالات ہیں کہ جن میں ہم الیکشن کی طرف بڑھ رہے ہیں ، تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہی ہیں ، تمام جماعتیں ایک دوسرے سے ناخوش ہیں ۔ ساری جماعتیں ایک دوسرے کو طعنے دے رہی ہیں۔

اب آپ یکم فروری دو ہزار تیئیس کا سائرن پڑھیں۔

"پاکستان تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں نوے دن کے اندرانتخابات کرانے کے لیے ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے صوبائی رہنمائوں نے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نوے دن میں الیکشن کرانا لازمی ہے، الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ کے لیے گورنر کو خط لکھا لیکن گورنر خیبرپختونخوا نے ابھی تک انتخابات کے لیے تاریخ نہیں دی۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نوے دن کے اندر الیکشن نگران حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سابق صوبائی وزیر عاطف خان کہتے ہیں کہ انتخابات منعقد کرانے کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے، بروقت الیکشن کرانا آئینی ضرورت ہے، آئین میں درج ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نوے دن میں الیکشن کرانے ہوتے ہیں لیکن اب تک گورنر نے تاریخ نہیں دی جو غیر آئینی اقدام ہے ۔ پی ڈی ایم الیکشن سے کیوں بھاگ رہی ہے، نگران کابینہ غیرسیاسی ہوتی ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ یہ پی ڈی ایم کی کابینہ ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے پنجاب میں بھی نوے روز میں الیکشن کرانے کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کررکھی ہے جو زیر سماعت ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کیا چاہتی ہے۔ یہ جو الیکشن الیکشن کی رٹ لگا رکھی ہے اس سے کیا بہتری آ سکتی ہے۔ کیا 2013 میں الیکشن نہیں ہوئے، کیا اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اس وقت الیکشن نہیں ہوئے، کیا اس سے پہلے جب صدر پرویز مشرف تھے اس وقت الیکشن نہیں ہوئے اور کیا 2018 میں جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی اس وقت الیکشن نہیں ہوئے۔ کیا ابھی ابھی چند ماہ قبل چند ہفتے قبل ملک کے کئی علاقوں میں میں ضمنی انتخابات نہیں ہوئے۔ ان سب انتخابات کے باوجود آج بھی ملک کے مسائل اپنی جگہ نظر آتے ہیں۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اب کی بار ہونے والے انتخابات سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ قوم کو بیوقوف بنانے کے لیے ایک اچھا بیانیہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ پاکستان کے مسائل کا حل فوری طور پر شفاف انتخابات ہیں یہ معصوم لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ درحقیقت مسائل کا حل انتخابات نہیں بلکہ انتخابات ہی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ انیس سو ستاسی سے لے کر آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں اور انتخابات کے نتیجے میں جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئی ہیں اس کی وجہ سے پاکستان کی معاشی حالت بہت کمزور ہوئی ہے۔ انیس سو ستاسی سے پہلے کا پاکستان اور 2023 کا پاکستان بہت مختلف ہے۔ آج لوگوں کی زندگی 1987 سے زیادہ مشکل نظر آتی ہے۔ اسی کی دہائی میں ایک شخص کام کرتا تھا اور سارا خاندان آرام کرتا تھا گھر آسانی سے چلتا تھا تھا آج سارا خاندان کام کرتا ہے لیکن گھر کیسے چلے یہ کسی کی سمجھ میں نہیں ہے ۔ جب پاکستان تحریک انصاف خود ہی اسمبلیوں سے نکل گئی ہے نوے دن کے بعد اگر انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو کیا تبدیلی آ جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کامیاب نہیں ہوتی ہے تو اس کی کیا ضمانت ہے یہ لوگ خاموش ہو جائیں گے۔ کراچی میں ابھی بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں وہاں ہارنے کے بعد انہوں نے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا ہے۔ آنے والے انتخابات میں بھی اگر یہ یہ جیت نہیں پاتے تو پھر یہی رونا ہو گا کہ مینڈیٹ چرا لیا گیا، انتخابات شفاف نہیں تھے، ادارے نیوٹرل نہیں تھے۔ اس لیے یہ طے ہے کہ نئے انتخابات سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہو گا۔ سیاسی عدم استحکام شدت اختیار کرے گا، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ انداز میں کام کرتے ہوئے نظر آئیں گی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عام انتخابات کے بعد پاکستان میں سیاسی استحکام آئے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کے رویے کو دیکھتے ہوئے ہوئے یہ خیال بھی غلط ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام آ سکتا ہے۔ پی ٹی آئی اور سیاسی استحکام دو مختلف چیزیں ہیں۔ کام ان سے ہوتا نہیں اور باتیں ان کی ختم نہیں ہوتیں۔ جب حکومت ملی تو سیکھنا شروع کر دیا اور حکومت سے نکلے تو سب کو برا بھلا کہنا اور خود کو مسیحا بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ نہ ان سے معیشت سنبھلی، نہ مہنگائی قابو میں آئی نہ انتظامی معاملات چلا سکے، اس وقت ہر چیز کا کریڈٹ فوج کو دیتے رہے اور بعد میں تمام ناکامیوں کا ذمہ دار بھی انہیں ٹھہرا دیا۔ یہ لوگ سیاسی استحکام نہیں لا سکتے، سیاسی استحکام کے لیے تحمل مزاجی اور درگذر کی ضرورت ہوتی ہے، بات چیت کے دروازوں کو کھلا رکھنا پڑتا ہے اور پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت ان صلاحیتوں سے عاری ہے۔ اس لیے انتخابات کا بیانیہ قائم کرنے سے پہلے اور کچھ نہیں تو صرف دو ہزارہ اٹھارہ سے آج تک ہونے والے انتخابات سے کیا فرق پڑا یہ عوام کو بتائیں اگر سچ بولنے کے لیے کچھ نہیں ہے تو پھر خاموش رہیں اور ملک و قوم پر رحم کریں۔

 الیکشن کمیشن نے چودھری شجاعت حسین کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کے معاملے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے چودھری شجاعت حسین کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ورکنگ کمیٹی کی کارروائی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین (ق) لیگ کے صدر برقرار رہیں گے۔ یہ چودھری پرویز الٰہی اور ان کے ساتھیوں کے لیے بڑا جھٹکا ہے۔ گذشتہ دنوں چودھری برادران کے حوالے سے یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ سیاسی اختلافات کے باوجود دونوں کا رابطہ برقرار ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے ایک الگ سیاسی فیصلہ ضرور کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ چودھری شجاعت حسین سے الگ ہو کر ان کے سیاسی قد کاٹھ کو نقصان پہنچا ہے۔ عہدے یا سیاسی فائدے ہی سب کچھ نہیں ہوتے کبھی کبھار تعلقات قائم رکھنے کے لیے بہت ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کے لیے چودھری شجاعت حسین سے بہتر کوئی سیاسی ساتھی نہیں جتنا جلد انہیں اسکا احساس ہو گا اتنا ہی بہتر ہے۔"

انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں یہ تو الگ بحث ہے لیکن میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہم اس نظام کے لیے کسی طور تیار نہیں ہیں اور اگر عام انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو کیا ہو گا۔ کیا ملک کے معاشی مسائل حل ہوں گے، کیا سیاسی استحکام آئے گا، کیا غریب کی زندگی میں سکون آئے گا، کیا ادویات سستی ہوں گی، کیا زندگی گذارنے کی بنیادی اشیا ء کی قیمتوں میں کمی آئے گی؟؟؟ اس کا جواب یا اس کی ضمانت کوئی سیاسی جماعت دے سکتی ہے۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.