سب سے پہلے پاکستان کے بعد نیا پیغام "سب کا پاکستان" محمد

محمد اکرم چوہدری

برج الٹیں گے مجھے یقین تھا کہ یہ عام انتخابات بہت سے نامی گرامی سیاست دانوں کو آئینہ دکھائیں گے۔ اس حوالے سے قومی اسمبلی کے چند حلقوں کا جائزہ بھی قارئین کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ملک بھر سے ووٹرز کے جذبات، سیاست دانوں کی کارکردگی،  اپنے ووٹرز کے ساتھ واجبی تعلق اور بدلتے وقت کے ساتھ بدلنے میں دیر نہیں لگاتے ایسے بہت سے لوگوں کے لیے دو ہزار چوبیس کے انتخابات ایک سبق ضرور ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو انتخابی عمل سے دور رہے ان کے لیے بھی سبق ہے، دہائیوں سے انتخابات میں حصہ لینے والوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ آخر وہ کب تک یہ کام کرتے رہیں گے نئے لوگوں کو بھی تو تیار کرنا ہے۔ جن لوگوں نے بوجوہ انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور اپنی جگہ کسی اور کو موقع دیا انہیں چاہیے کہ اب باضابطہ طور پر انتخابی سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کریں اور نوجوانوں کی سیاسی تربیت کریں۔ خود پیچھے رہیں اور ملک کو نئی سیاسی قیادت دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ بنیادی طور پر تو سیاست دانوں کو بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے، مضبوط بلدیاتی نظام ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کے مسائل نچلی سطح ہر حل ہوں، یونین کونسل کی سطح پر لوگوں کے بنیادی مسائل حل ہوتے رہیں، صوبائی اسمبلیاں اور اراکین قومی اسمبلی اپنے اصل کام کی طرف توجہ دیں۔

دو ہزار چوبیس کے عام انتخابات کے نتائج آپ تک پہنچ چکے ہیں۔ انتخابات کے نتائج کبھی سب کو خوش نہیں کر سکتے، پاکستان میں یہ روایت عام ہے کہ ہارنے والا کبھی اپنی شکست تسلیم نہیں کرتا اور اپنی ناکامی کا ملبہ کسی اور پر ڈالنے کے لیے بہانے تراشتا ہے، جتنے بھی لوگ جیتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ہارنے والوں کا احترام کریں ، سیاسی حریفوں کی تضحیک و تذلیل نہ کریں اور جو ہار گئے ہیں ان پر بھی لازم ہے کہ نتائج کو تسلیم کریں اور آگے بڑھیں۔ جیت کا مزہ لینا اور کھلے دل سے ہار تسلیم کرنا بھی انتخابی عمل کا حصہ ہے۔ 

پاکستان میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں جب کہ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اچھی تعداد میں قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتی ہیں۔ انتخابات کے نتائج پر مختلف حلقے اعتراضات اٹھا رہے ہیں لیکن کیا کوئی یہ جواب دے سکتا ہے کہ جتنے بڑے بڑے نام ان انتخابات میں ناکام ہوئے ہیں اس سے پہلے کب ایسا ہوا ہے۔ کوئی ایک جماعت یہ دعوی کرتی ہے کہ ووٹرز کی بہت بڑی تعداد ووٹ ڈالنے آئی تھی مان لیں کہ بڑی تعداد میں ووٹرز نے اپنا حق استعمال کیا لیکن یہ فیصلہ کوئی ایک جماعت تو نہیں کر سکتی کہ سارے ووٹرز صرف اس کے لیے ہی نکلے ہیں۔ ان ووٹرز کو پاکستانی سمجھیں، ان کی اپنی سیاسی سوچ اور پسندیدگی پہ، یہ کسی سیاسی جماعت کو پسند کرتے ہیں اور کسی کو پسند نہیں کرتے، یہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرتے ہیں کسی کی نہیں کرتے، جو آپ کو پسند نہیں کرتا اسے جاہل، ملک دشمن، بے وقوف، مطلب پرست کہنا بند کریں۔ اپنے ووٹرز کو بھی یہی سبق پڑھائیں کہ مخالفین کے حق کو تسلیم کرنا بھی جمہوریت کا ہی حصہ ہے ۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو مخالف سیاسی سوچ کے حامل افراد کے ساتھ وہی برتاؤ کرتے ہیں جو اپنی حمایتیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ووٹرز کو بھی یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ نفرت کی عینک اتاریں گے تو انہیں حقیقت جاننے کا بہتر موقع ملے گا۔

ویسے تو میں ذاتی حیثیت میں اس انتخابی عمل کا حامی نہیں کیونکہ ہر انتخابات کے بعد پاکستان میں مسائل بڑھے ہیں۔ اللہ کرے کہ 2024 کے انتخابات مکمل ہونے اور نئی حکومت قائم ہونے کے بعد ایسا نہ ہو، کیا ہی اچھا ہو کہ ایک بدلا ہوا پاکستان نظر آئے، ہارنے والے اپنا کام کریں اور جیتنے والے، حکومت بنانے والے مکمل توجہ و یکسوئی کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کرتے رہیں۔ یہ مثالی صورتحال ہے ایسا مشکل ہے لیکن امید تو کی جا سکتی ہے۔ انتخابی عمل کو شفاف بنانے اور ووٹ کی اہلیت پر ضرور بحث ہونی چاہیے، ایک پی ایچ ڈی، ایک سائنسدان، ایک ڈاکٹر، ایک انجینئر اور ایک ان پڑھ کا ایک شہر ووٹ برابر کیسے ہو سکتا پے، یہ جو اٹھارہ سال والی عمر ہے اس پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ لوگوں میں ووٹ کی اہمیت اور شعور کا ایک طویل عمل ہے اس پر کام ہونا چاہیے۔ ایسے بنیادی کام اس وقت ہی ہو سکتے ہیں جب پاکستان میں سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے ایک جگہ اکٹھی ہو جائیں گی۔ جب تک اتحاد نہیں ہو گا ملک میں تعمیر و ترقی کا سفر بہتر نہیں ہو سکتا ۔ جتنے مسائل کا ہمیں سامنا ہے وہ مل جل کر ہی حل ہو سکتے ہیں، خالص کوششوں سے مشکلات کم ہوں گی۔ یہ کامیابی حاصل کرنے والی جماعتوں کو دیکھنا اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہے۔ مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے تو سب کو پیغام دیا ہے کہ یہ سب کا پاکستان ہے اور اس کی تعمیر سب نے مل کر ہی کرنی ہے سو یہ اچھا وقت ہے پاکستان کے لگ بھگ پچیس کروڑ انسانوں کے بہتر مستقبل کی خاطر سب اکٹھے ہو کر کام کریں۔ 

"سابق وزیراعظم نواز شریف نے عام انتخابات کے نتائج میں سب سے بڑی جماعت ہونے، دیگر سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی ہے۔ وہ کہتے ہیں عام انتخابات میں ن لیگ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، ہم پر فرض ہے کہ اس ملک کو بھنور سے نکالیں۔ ہم سب پارٹیوں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں، سب کا احترام کرتے ہیں چاہے وہ پارٹی ہے یا آزاد لوگ ہیں، ان کو بھی دعوت دیتے ہیں زخمی پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کیلئے آؤ ہمارے ساتھ بیٹھو، ہمارا ایجنڈا صرف اور صرف خوشحال پاکستان ہے۔"

میاں نواز شریف کو اس وعدے، اعلان اور پالیسی پر سب سے پہلے خود عمل کرنا ہے، انہیں ملک کو نفرت کی سیاست سے نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

پاکستان میں امن و امان کے حالات کو بہتر بناتے ہوئے پائیدار امن کی طرف جانا ہے، معیشت کو مضبوط بنانا ہے، غربت اور بے روزگاری کو مرحلہ وار کم کرتے ہوئے خاتمے کی طرف لے کر جانا ہے، صحت و تعلیم کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔ ادویات کی آسان فراہمی کا نظام وضع کرنا ہے، زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاء کی سستے داموں فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ 

آخر میں فرحت ندیم ہمایوں کا کلام

تھا پہلا سفر اس کی رفاقت بھی نئی تھی

رستے بھی کٹھن اور مسافت بھی نئی تھی

دل تھا کہ کسی طور بھی قابو میں نہیں تھا

رہ رہ کے دھڑکنے کی علامت بھی نئی تھی

جب اس نے کہا تھا کہ مجھے عشق ہے تم سے 

آنکھوں میں جو آئی تھی وہ حیرت بھی نئی تھی

صدیوں کے تعلق کا گماں ہونے لگا تھا

جبکہ مری اس شخص سے نسبت بھی نئی تھی

واقف بھی نہیں تھا میں کسی سود و زیاں سے

اس عشق کے سودے میں شراکت بھی نئی تھی

خوابوں کے بکھر جانے کا دھڑکا بھی لگا تھا

بیدارء شب کی مجھے عادت بھی نئی تھی

تعبیر کہاں ڈھونڈنے جاتیں مری آنکھیں

ان کو تو کسی خواب کی زحمت بھی نئی تھی

دل واقفِ آدابِ محبت بھی نہیں تھا

دنیا کے رواجوں سے بغاوت بھی نئی تھی

پھر میں، کہ کسی نشّے کا عادی بھی نہیں تھا

اور میرے لیے وصل کی لذت بھی نئی تھی

یوں کارِ جنوں کرنا خرد مندوں میں رہ کر

جو ڈالی تھی تم نے وہ روایت بھی نئی تھی

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.