آزاد ارکان کی فیصلہ کن حیثیت کنور
کنور دلشاد
آٹھ فروری کو منعقد ہونے والے پُرامن انتخابات اور اندازے سے زائد ووٹر ٹرن آئوٹ نے ایک مثبت جمہوری روایت کا آغاز کر دیا ہے۔ پُرامن انتخابات کرانے کا کریڈٹ پاک فوج اور سول سکیورٹی اداروں کو جاتا ہے۔ انتظامی طور پر جو الیکشن کے حوالے سے جو انتظامات کیے گئے‘ ان میں چیف الیکشن کمشنر کے وژن کا عمل دخل تھا‘ لیکن الیکشن مینجمنٹ سسٹم خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا اور الیکشن کے نتائج تاخیر سے جاری ہو ئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ الیکشن کے نتائج میں غیرضروری تاخیر ہوئی اور اس وجہ سے عوام میں بے چینی اور بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ اس بار الیکشن کمیشن نے خطیر رقم سے الیکشن مینجمنٹ سسٹم تیار کروایا تھا مگر کوئی بھی رزلٹ وقتِ مقررہ پر مکمل کرکے نہ دکھایا جا سکا۔ اس کی ناکامی کے حقائق جاننے کیلئے الیکشن کمیشن کو مکمل تحقیقات کرنی چاہئیں اور عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اگرچہ پولنگ ڈے پر تمام دن انٹرنیٹ معطل رہا مگر انٹرنیٹ کی معطلی کا رزلٹ مینجمنٹ سسٹم پر اثر نہیں پڑنا چاہیے تھا کیونکہ الیکشن کمیشن نے یقین دہانی کرائی تھی کہ اس کا سسٹم انٹرنیٹ کے بغیر بھی کام کرے گا۔جولائی 2018ء کے انتخابات میں نتائج کی ترسیل کیلئے آر ٹی ایس نامی سسٹم کا تجربہ کیا گیا تھا مگر رات گئے جب بڑی تعداد میں نتائج آنا شروع ہوئے تو یہ سسٹم بیٹھ گیا جس کی وجہ سے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ آر ٹی ایس مکمل طور پر ناکام ہو گیا مگر اس کی بھی تحقیقات نہ کرائی گئیں اور روایتی انداز میں اس کا جواب دے کر معاملہ ختم کر دیا گیا ۔ الیکشن کمیشن کی قابلیت اور اہلیت کی بات کی جائے تو بلاشک و شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ متعدد افسران الیکشن کے معاملات میں ذمہ دار ہوتے ہیں۔الیکشن کے موقع پر ریٹرننگ افسران کی کارکردگی بھی انتہائی مایوس رکن رہی۔ ماضی میں عدلیہ سے جن ریٹرننگ افسران کی خدمات لی گئی تھیں‘ اُن کی کارکردگی مثالی رہی تھی۔ ریٹرننگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران نے نتائج بروقت ارسال نہ کر کے الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی جبکہ چیف الیکشن کمشنر کے احکامات کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ قبل ازیں ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنے ہی محکمے سے جن افراد کو ریٹرننگ افسر لگایا گیا ‘ انہوں نے رات 11بجے تک رزلٹ الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا تھا۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک ایک حلقہ میں کم و بیش 300کے لگ بھگ پولنگ سٹیشن تشکیل دیے جاتے ہیں اور ایک حلقے کا ایک ہی ریٹرننگ آفیسر ہوتا ہے اور اس کی معاونت کیلئے دو اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران ہوتے ہیں‘ چونکہ ریٹرننگ آفیسر انتظامیہ سے لیے گئے لہٰذا ان کا انتظامی عملہ بھی ان کی معاونت کیلئے مامور کیا گیا۔ اس کے باوجود 300پولنگ سٹیشنوں کا رزلٹ مرتب کرکے ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کو بروقت مکمل نتائج نہ ارسال کر سکے۔الیکشن کمیشن کو ریٹرننگ افسران کی کوتاہی‘ سست روی اور چیف الیکشن کمشنر کے احکامات کو نظر انداز کرنے پر تادیبی کارروائی کرنی چاہیے۔ ماضی میں الیکشن کمیشن نے جب ضمنی انتخابات کرائے اور اپنے ہی محکمے کے ریٹرننگ افسران نے رزلٹ وقتِ مقررہ پر نہ بھجوائے تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی تھی ۔ اب چونکہ ریٹرننگ افسران نے الیکشن کمیشن کے مثالی انتظامات کے باوجود رزلٹ بھجوانے میں تاخیر کر کے شکوک و شبہات کی راہ ہموار کی ہے تو بادی النظر میں انہوں نے آئین کے آرٹیکل 218(3) کی خلاف ورزی کی ہے۔
اگرچہ آٹھ فروری کو عام انتخابات کیلئے پولنگ کا عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا اور خوش آئند بات یہ ہے کہ بڑی تعداد میں خواتین‘ بزرگ شہری اور نوجوان اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کیلئے پولنگ سٹیشنوں پر موجود تھے؛ تاہم انتخابات کے نتیجہ میں برسرِ اقتدار آنے والی حکومت کو اقتصادیات‘ مالیات اور متعدد خارجی و اندرونی چیلنجوں کا سامنا کرناہو گا اور بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ مضبوط حکومتیں تشکیل دی جائیں گی اور عوام نے منشور پر عمل درآمد کرانے کیلئے اب ان پر پریشر بھی ڈالنا ہے۔ ماضی قریب کے تجربات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ مخلوط حکومت عوام کی توقعات پر پورا اترنے کی اہل نہ ہو سکے گی اور ملک میں از سر نو بے چینی کی لہر اور عدم اعتماد جیسی تحریک بھی آسکتی ہے۔ عوام کو اب نئی حکومتوں سے مثبت اقدام کی توقع ہے۔
انتخابی نتائج میں تاخیر سے بے چینی‘ کنفیوژن اور اضطراب پیدا ہوا اور مختلف جماعتوں نے اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کرنا شروع کر دیے‘ جیسا کہ تحریک انصاف کے ذمہ داران نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے 150سے زائد نشستوں پر فیصلہ کن برتری حاصل کرلی ہے۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج نے ان کے دعوے کو حقائق کے برعکس ثابت کیا ہے۔ اگرچہ اب تک کے نتائج میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار نمایاں تعداد میں کامیاب قرار دیے گئے ہیں؛ تاہم حتمی نتائج آنے پر ہی معاملہ واضح ہو گا۔ اگر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کثیر تعداد میں قومی اسمبلی کا حصہ بنتے ہیں تو بھی شاید دوسری کوئی بھی جماعت قائدِ ایوان کا انتخاب نہ کر سکے کیونکہ قائدِ ایوان کو منتخب کرنے کیلئے 168 ارکان کی حمایت لازمی ہے۔ اس صورت میں آزاد ارکان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے در پردہ کوشش کرنا ہوں گی۔ الیکشن کے بعد آزاد امیدواروں کو کسی جماعت میں شمولیت کا اختیار دیا جائے گا، اگر آزاد ارکان اپنی علیحدہ شناخت برقرار رکھتے ہیں تو ایوا ن کی کارروائی تعطل کا شکار ہو سکتی ہے۔ یہ اراکین قائدِ ایوان کو منتخب کرنے کیلئے 169ارکان کی حمایت کیسے حاصل کریں گے؟ ایسی صورت میں سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان کیلئے درمیانی راستہ نکالنا ہو گا تاکہ وہ آئین کے آرٹیکل 51‘ آرٹیکل106 اور 224 کے تحت اپنی پوزیشن واضح کر سکیں۔ تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن لڑانے میں اپنے دستور کے مطابق انتخابات نہیں کرا سکی لیکن عوام کی بھاری اکثریت نے اس پر اعتماد کیا ہے‘ لہٰذا اسے بھی انٹرا پارٹی الیکشن کے متبادل ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ تکنیکی طور پر تحریک انصاف اپنے اندرونی انتخابات میں ناکام رہی مگر عام انتخابات میں اس کے نمائندے کامیاب ہوتے جا رہے ہیں۔
آٹھ فروری کو پولنگ ڈے کے موقع پر ملک بھر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بند کرنے کا فیصلہ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کیا گیا تھا لیکن اس سے امیدواروں اور ووٹرز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتوں نے اس اقدام پر برہمی کا اظہار کیا۔نگران وزارتِ داخلہ کا سرکاری وضاحتی بیان یہ تھا کہ سکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے یہ ضروری تھا۔ دراصل وزارتِ داخلہ کے حکام کے پاس اس طرح کی وضاحت 1950ء سے محفوظ ہے‘ معمولی سی ترامیم کرکے یہ وضاحت جاری کر دی جاتی ہے۔ اصولی طور پر سرحدی اور حساس علاقوں اور ان کے قرب و جوار کے اضلاع میں یہ سروسز بند کرنا چاہیے تھیں۔ پورے ملک میں ان کی بندش نے انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان اٹھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ الیکشن کے ایام میں تمام احکامات الیکشن کمیشن کی مشاورت سے جاری کیے جاتے ہیں ‘مگر اتنا بڑا فیصلہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا اور چیف الیکشن کمشنر کا بھی یہی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن انٹرنیٹ کی بندش کا ذمہ دار نہیں‘ ان کا سسٹم کام کر رہا ہے اور رزلٹ کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی‘تاہم اس سسٹم نے کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور رزلٹ کی ترسیل میں غیر معمولی تاخیر آئی۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ انتخابات کا انعقاد ہوگیا‘ ٹرن آئوٹ بھی خاصا رہا‘ اب 22تا 25فروری تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس طلب کیے جائیں گے اور نگران حکومتیں ازخود تحلیل ہو جائیں گی۔ امید ہے کہ منتخب حکومتوں کا قیام 25فروری تک ہو جائے گا۔
کوئی تبصرے نہیں