موجودہ حالات اور چائے


 آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا

موجودہ حالات اور چائے

تحریر فیصل اعوان


سیاہ ست کبھی مزاج سے موزوں رہی ہی نہیں۔ پیشہ ورانہ مجبوریوں کے تقاضوں کے آگے مجبور ہیں ورنہ اس دشت کی سیاہی میں ماسوائے آبلہ پا ہونے کے رکھا ہی کیا ہے۔اور سراب جو دھوکہ دیتے ہیں وہ الگ ایک کہانی ہے۔ مگر اب ریت پھانکی ہے تو کچھ تو لکھنا ہی تھا سو لکھا۔ 


*آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا* 

*ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا*


موجودہ حالات میں سیاست جسکو یار لوگ سیاہ ست کہتے ہیں کو موضوع بحث بنانا گویا چہرے پر کالک ملوانے کے مترادف ہے۔ حقائق لکھو تو کوئی ناراض نا لکھو تو کوئی شکوہ کناں۔ ہر سمت اپنی اپنی رائے اور تجزیے و خبریں ہیں جنکو مصدقہ قرار دیکر اس کے مدمقابل نظریے خبر یا نظریے کو منہ پر دے مارنے کا جو چلن ہمارے ہاں چلا ہے بھلا کہاں ہوگا۔ اسلیے یہاں بہتر ہے اس گندگی میں ہاتھ پاوں اور چہرہ تک سیاہ کرنے کی بجائے جو پریس ریلیز آئے وہ عوام تک پہنچا دی جائے کیونکہ وہ تو پیشہ ورانہ فرائض کا حصہ ہے۔ مگراس پر بھی بعض عقلمندوں کی جانب سے جو فتوے صادر ہوتے ہیں انسان اللہ کی پناہ ڈھونڈتا ہے۔ یعنی عدم برداشت اپنی بات نظریہ خبر درست کا جو رجحان پروان چڑھ چکا ہے بلکہ اب تو ہر دماغ کو اپنی لپیٹ میں لیکر سوچنے سمجھنے حقائق کو پرکھنے کی تمام صلاحیتیں چھین چکا ہے ایسے عالم میں کون ہوگا جو کسی کو قائل کر سکے گا۔ اسلیے اس موضوع کو اٹھا کر پرے رکھ دینا ہی عقلمندی ہے۔ 

ویسے بھی موسم سرما کا ڈھلتا جوبن اب بہار کی آمد کا پتہ دے رہا ہے۔ کسی سیاسی موضوع سے زیادہ بہتر ہے گلاب کی کھلتی پنکھڑیوں کے رنگوں سے کچھ خدوخال کا نقشہ کھینچا جائے۔ سہانی شاموں ڈوبتے سورج کو الفاظ کی صورت دی جائے اور کسی دور افتادہ علاقے میں ویران چھپر ہوٹل پر بیٹھ کر زندہ دلوں کا پسندیدہ مشروب یعنی چائے سے لطف اندوز ہوا جائے۔

ابھی مونچھیں اگی نہیں تھیں کہ اس معاشرے کے زوال کی داستانیں رقم کرنا شروع کیں۔ جذبات کی سیاہی محبتوں کی قلم اور ادراک پر مشتمل الفاظ تراشے مگر حاصل کیا ٹھہرا؟ اہل شعور روایات کی پاسداری۔محبتوں کی آبیاری کی بات کرتے رہے ساتھ ساتھ رات اور دن کی تفریق بھی سمجھاتے رہے مگر کتنے سمجھ گیے؟ 

آج جذباتیت متشدد رویے اپنا نظریہ مسلط کرنے کی مخصوص زہنیت ہم سب میں رچ بس چکی ۔ اوراب تو لکھاری بھی وہی لکھتے ہیں جو بکتا ہے۔ وہ کون لکھے جو درست سمت راہنمائی کرے۔ کسی کو راہنمائی کی ضرورت ہی نہیں۔ ہرشخص راہنما ہے ہر شخص عقل کل ایسے عالم میں بجائے اس کے کہ الفاظ اس طوفان بدتمیزی کے پاوں تلے روندنے کےلیے تخلیق کیے جائیں بہتر ہے کہ انسان اپنے اندر کی دنیا میں کھو جائے اور چائے کا ہو جائے۔بقول مشتاق یوسفی

ایشیا نے دنیا کو دو نعمتوں سے روشناس کیا۔ چائے اور چارپائی! اور ان میں یہ خاصیت مشترک ہے کہ دونوں سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔

ہم مشتاق یوسفی کے نظریات سے مکمل متفق ہیں اور مزید متفق ہونے کےلیے چائے کے جملہ خواص اسلیے بیان نہیں کر رہے کہ کہیں چائے کا کوئی اور ہی مطلب وضع نا کر لیا جائے۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.