بشریٰ بی بی کی بنی گالا منتقلی پر یاد آتے "داغِ دِل نصرت

نصرت جاوید

 کی وساطت سے یہ خبر کیوں پھیلائی جارہی ہے کہ جیل پہنچنے کے بعد بشریٰ بی بی قیدیوں کی بیرک میں جانے کے بجائے جیل کی انتظار گاہ میں تشریف فرماہیں۔انہیں ”گرفتار“ کرنے کے بعد جیل کے بجائے کسی اور مقام پر قید کے ایام گزارنے کے لئے رکھا جائے گا۔

”آزادی صحافت“ کے بھرپو ر موسم میں یہ تفصیلات کسی بھی صحافی کے پاس موجود نہیں تھیں کہ بشریٰ بی بی کو جیل کے علاوہ کہیں اور رکھنے کا فیصلہ کس نے کیا ہے۔اس فیصلے کی وجوہات کیا ہیں اور اگر فیصلہ ہوہی گیا ہے تو اس کے اطلاق میں اتنی دیر کیوں ہورہی ہے۔بدھ کی شام چھ بجے تک مجھے اور آپ کو 24گھنٹے باخبررکھنے کے دعوے داروں میں سے کوئی ایک صحافی بھی مذکورہ بالا بنیادی سوالوں کے جوابات فراہم کرنے کے قابل نظر نہیں آیا۔ دریں اثناء اپنے ذہن میں امڈتے سوالات سے تنگ آکر میں نے چند صحافیوں کو اصل خبر کا کھوج لگانے کو اکسایا تو خبرملی کہ سرکار شدت سے محسوس کررہی ہے کہ بشریٰ بی بی کو اگر سزا یافتہ قیدیوں کی طرح جیل کی بیرک میں رکھا گیا تو بانی تحریک انصاف مزید غضب ناک ہوجائیں گے۔وہ اپنی اہلیہ کی جانب سے پردے کی بابت دینی احکامات کی کامل پابندی کا بہت احترام کرتے ہیں۔ان کی تسلی اور تھوڑی دل جوئی کے لئے فیصلہ یہ ہورہا ہے کہ بشریٰ بی بی کو سزا یافتہ قیدیوں کے ساتھ جیل کی بیرک میں رکھنے کے بجائے کسی سرکاری ریسٹ ہاؤس میں منتقل کردیا جائے۔ بشریٰ بی بی اس امر کو آمادہ نہ ہوئیں تو بالآخر ان کے بنی گالہ والے گھر کو ”سب جیل“ قراردے کر انہیں وہاں منتقل کردیا گیا۔

اس فیصلے کے بعد ہمارے ہاں موجود سیاسی تقسیم مزید گہری اور تلخ ہوگئی ہے۔پاکستان مسلم لیگ (نون) کو خاص طورپر اس کے ”داغ دل“ یاد آرہے ہیں اور وہ زمانہ جب نواز شریف اپنی دختر سمیت 13جولائی 2018ء کے دن لندن سے لاہور تشریف لائے۔باپ بیٹی کو ایئرپورٹ سے گرفتار کرنے کے بعد اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔ مریم نواز صاحبہ کو ریسٹ ہاؤس کی پیش کش نہیں ہوئی تھی۔ ایسا ہی رویہ آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور کے ساتھ اختیار ہوا۔

”غیر جانبداری“ کے دعوے دار میرے چند صحافی دوست تاہم سنجیدگی سے یہ محسوس کررہے ہیں کہ بشریٰ بی بی کو سزا سنائے جانے کے باوجود عزت واحترام سے ان کے گھر منتقل کردینا ایک اچھا فیصلہ ہے۔ غالباََ یہ سرکار اور تحریک انصاف کے مابین تلخیوں کو کم کرنے کی جانب پہلا قدم ہوسکتا ہے جس کی بدولت بتدریج سیاستدان ایک دوسرے کے باہمی احترام کی عادت اپنا سکتے ہیں اور یوں ہمارے ہاں رواداری کی بنیاد پر سیاسی استحکام یقینی بنایا جاسکتا ہے۔۔نیک دل افراد جو سوچ رہے ہیں وہ ہوتا مجھے نظر نہیں آرہا۔ ملکی سیاست پر کئی برسوں سے حاوی وحشت سے گھبرایا دل اگرچہ دعا گو ہے کہ وہ درست ثابت ہوں۔

٭....٭....٭

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.