یوم یکجہتی کشمیر

 


ملک فداالرحمن

”تمغہ امتیاز“

آج 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر ایسے حالات میں منایا جا رہا ہے کہ ہم میں وہ شخصیت موجود نہیں ہے جس نے سب سے پہلے 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا تصور پیش کیا تھا۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آج جب ہم 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں تو اس تصور کو بھی پوری طرح سامنے رکھیں۔ یہ دن منانے کے حوالے سے قاضی حسین احمد صاحب کے سامنے اس دن کا نقشہ تھا۔یوم یکجہتی کشمیر کے تصور کے بنیادی اصول و مبادی: جب ہم یوم یکجہتی کشمیر منانے کے سلسلے کے تصور کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے حسب ذیل اصول و مبادی واضح ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔اولاً: کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے تصور کا پہلا بنیادی اصول یہ تھا کہ جہاد کشمیر اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے کشمیر کی آزادی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بقاء و سالمیت اور تکمیل کی جنگ بھی ہے۔اس سلسلے میں دانشور لوگ مسئلہ کشمیر کو تقسیم برصغیر کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے تھے اور قائداعظم رحمتہ اللہ کے الفاظ میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتے تھے اور اپنی تقریروں اور گفتگوؤں میں ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے اس بنیادی پہلو کو پیش نظر رکھتے تھے۔ثانیاً: کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے  اللہ کے تصور کا دوسرا بنیادی اصول یہ تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے آزادی کو مقبوضہ کشمیر میں اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کی بقا کے لئے ضروری سمجھتے تھے اور ان کا پختہ یقین تھا کہ اگر مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد نہ کی گئی تو کشمیر میں بھارتی حکمرانوں کے ہاتھوں اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کا وہی انجام ہوگا جو قبل ازیں اندلس میں اسلام اور مسلمانوں کا ہو چکاہے۔ثالثاً:  کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے ان کے تصور کا تیسرا بنیادی اصول یہ تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا جارحانہ تسلط تقسیم برصغیر کے اصولوں کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق بھی غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔لہذا کشمیری مسلمان اپنی تحریک مزاحمت میں ہر لحاظ سے حق بجانب ہیں۔جبکہ بھارت کی حیثیت ایک جارح سامراجی قوت کی ہے۔رابعاً: کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے اللہ کے تصور کا چوتھا بنیادی اصول یہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوجوں کے ہاتھوں ظلم و استبداد کا شکار کشمیری مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی مدد کرنا پاکستانی مسلمانوں پر واجب ہے. کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے ان کے تصور کا پانچواں بنیادی اصول یہ تھا کہ وہ بھارت کے جارحانہ عزائم کو صرف کشمیر یا پاکستان تک محدود نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ بھارت،  کشمیر اور پاکستان کے ساتھ ساتھ عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف اپنے عزائم کی تکمیل چاہتا ہے اور اکھنڈ بھارت کے نام سے اس خطے میں ایک ایسی برہمنی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے جس کی حدود ملائشیاء اور انڈونیشیاء سے لے کر دریائے نیل تک وسیع ہیں۔ کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے ان کے تصور کا چھٹا بنیادی اصول یہ تھا کہ کشمیر کی بھارت سے آزادی پاکستان کی اقتصادی اور زرعی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے۔اس لئے کہ اگر کشمیر پر بھارتی تسلط قائم رہا تو وہ کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر اور صحرا بنا دے گا۔کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے حوالے سے دانشوروں کے تصور کا ساتواں بنیادی اصول یہ تھا کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ کشمیر کی بھارت سے آزادی اور پاکستان سے الحاق 20 کروڑ بھارتی مسلمانو ں کے بھی بہترین مفاد میں ہے۔اس لئے کہ ایک مضبوط اور توانا پاکستان بھارتی مسلمانوں کے دین، تہذیب اور مفادات کے تحفظ کو بہتر ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ 5 فروری  1990ء یوم یکجہتی کشمیر کی حیثیت سے لیکن تحریک آزادیء کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے ان اصول ومبادی و سیاسی نعروں کے طور پر استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے عقیدے کا حصہ سمجھتے تھے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے ان اصولوں کو پوری قوم ایک سیاسی عقیدے اور ایجنڈے کے طور پر اختیار کرے۔لہذا اس مقصد کے لئے انہوں نے یہ پروگرام بنایا۔ 1990ء میں تحریک جہاد کشمیر کے باقاعدہ آغاز کے بعد اس تحریک کے ساتھ یکجہتی کے لئے قومی سطح پر ایک مخصوص دن منایا جائے اور اس کے لئے 5 فروری 1990ء کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔یہ بات اپنے بیگانے سب تسلیم کرتے ہیں۔اس تحریک کی پورے ملک میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ دانشوروں کی اس اپیل کا بھرپور خیرمقدم کیا گیا۔ 1990 میں اس وقت چونکہ پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت تھی اور محترم میاں نواز شریف وزیراعلیٰ تھے۔لہذا انہوں نے دانشوروں کی اس اپیل سے اتفاق کرتے ہوئے 5 فروری 1990ء کو پنجاب بھر میں سرکاری طور پر یوم  یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کر دیا۔مرکز میں اس وقت محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ کی حکومت تھی۔لہذا انہیں بھی اس دن کو سرکاری طور پر یوم یکجہتی کشمیر کے طور منانے کے لئے قائل کر لیا گیا طے یہ پایا کہ اس مقصد کے لئے پورے ملک میں ہر شہر اور ہر قصبے کے ہر محلے میں تمام سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران پر مشتمل کمپنیاں تشکیل دی جائیں۔جن کے روح و رواں جماعت کے ارکان اور کارکنان ہیں۔یہ بھی طے پایا کہ ان کمپنیوں کے زیر اہتمام 5 فروری کو پورے ملک کے ہر شہر اور ہر قصبے میں کشمیر کانفرنسوں اور کشمیر ریلیوں کا اہتمام کیا جائے۔یہ بھی طے پایا کہ 5 فروری 1990ء کو کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے منعقد ہونے والی کشمیر کانفرنسوں اور کشمیر ریلیو ں میں انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کشمیر ی عوام کو یہ پیغام دیا جائے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔اس سلسلے میں یہ بھی طے پایا کہ انسانی ہاتھوں کی زنجیر کا اہتمام یوں تو تمام بڑے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں اور ریلیوں میں کیا جائے،  لیکن خصوصیت کے ساتھ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد اور کنٹرول لائن پر مقبوضہ کشمیر کی سرحد کے قرب واقع چکوٹھی کے قصبے میں بطور خاص ہاتھوں کی زنجیر بنانے کا اہتمام کیا جائے۔یہ بھی طے پایا کہ ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں خصوصاً مظفر آباد اور چکوٹھی میں منعقدہ کشمیر کانفرنسوں اور کشمیر ریلیوں میں ملک کے ممتاز دانشور اور سیاست دان بطور خاص خطابات فرمائیں گے، تاکہ کشمیری عوام تک ان کی طرف سے یکجہتی کا پیغام پہنچ سکے۔

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.