جنرل باجوہ سے مولانا کی ملاقاتیں جاوید
جاوید چوہدری
میری پچھلے سال جنرل قمر جاوید باجوہ سے متعدد تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں‘ ان ملاقاتوں کے دوران میں نے ان سے جو بھی پوچھا‘ انھوں نے پوری تفصیل کے ساتھ جواب دیا‘ فیملی سے لے کر ریٹائرمنٹ تک یہ چیزیں بتاتے چلے گئے اور میں سنتا چلا گیا ان ملاقاتوں کے دوران میں نے ان سے مولانا فضل الرحمن کے بارے میں بھی پوچھا تھا‘ ان کا جواب تھا ہم مولانا کی بہت عزت کرتے ہیں‘ مولانا نے وار آن ٹیررپر ریاست کا کھل کر ساتھ دیا تھا‘ یہ اگر اس وقت اپنی سائیڈ بدل لیتے تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا۔
دوسرا کے پی اور بلوچستان میں ان کی ’’فالونگ‘‘ ہے‘ لوگ ان سے عقیدت رکھتے ہیں اور فوج مذہبی لوگوں اور قوم پر احسان کرنے والوں کا احترام کرتی ہے لہٰذا میرے دل میں بھی ان کے لیے احترام تھا‘ میں نے ان سے پوچھا‘ آپ کی مولانا سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں‘ ان کا جواب تھا‘ میری ان سے چار تفصیلی ملاقاتیں ہوئی تھیں‘ پہلی ملاقات 2018میں ہوئی ‘ شاہد خاقان عباسی اس وقت وزیراعظم تھے‘ فاٹا کا مرجر ہو رہا تھا‘ مولانا انضمام کے خلاف تھے‘ اس سے ان کی سیٹیں کم ہو رہی تھیں‘ مولانا نہیں مان رہے تھے‘ وزیراعظم نے مجھے بلایا اور میں اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل نوید مختار وزیراعظم آفس چلے گئے۔
مولانا اور عبدالغفور حیدری اپنے موقف پرڈٹے ہوئے تھے‘ ہمارے پاس کوئی سیکنڈ آپشن نہیں تھا‘ حکومت کی مدت ختم ہو رہی تھی‘ اگر اس وقت مرجر نہ ہوتا تو پھر ہماری ساری محنت ضایع ہو جاتی لہٰذا ہم نے جیسے تیسے مولانا کو منا لیا لیکن مولانا میرے ساتھ ناراض ہو گئے۔
میری ان کے ساتھ دوسری ملاقات 2019 کی گرمیوں میں ہوئی‘ جنرل فیض حمید نے مجھ سے کہا ’’سر مولانا آپ کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں‘‘ میں نے انھیں بلا لیا یوں مولانا اورمولانا عبدالغفور حیدری جنرل فیض حمید کے ساتھ میرے گھر تشریف لے آئے‘ یہ ملاقات اچھی نہیں رہی‘ اس میں میری مولانا سے ٹھیک ٹھاک تلخ کلامی ہو گئی۔
مولانا چاہتے تھے ہم اپوزیشن کو قومی اسمبلی سے استعفوں کے لیے مجبور کریں‘ ان کا کہنا تھا آپ آصف علی زرداری اور شہباز شریف سے کہیں یہ استعفیٰ دے دیں‘ میں نے جواب دیا‘ میں ان کو کہنے والا کون ہوتا ہوں؟ یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے لیکن مولانا ہم پر زور دے رہے تھے جس کی وجہ سے میری ان سے جھڑپ ہو گئی۔
مولانا کو یہ بھی اعتراض تھا انھیں ڈی آئی خان سے ہرایا گیا تھاجب کہ اصل صورت حال یہ تھی علی امین گنڈا پور وہاں واقعی مضبوط تھا اور مولانا اس کا مقابلہ نہیں کر پائے تھے‘ بہرحال جنرل فیض حمید نے درمیان میں آ کر ماحول ٹھنڈا کیا‘ میٹنگ کے آخر میں مولانا نے جنرل فیض حمید اور مولانا حیدری کو باہر بھجوا دیا‘ ہم کمرے میں اکیلے رہ گئے تو مولانا نے میرے گھٹنے پکڑ لیے‘میں گھٹنے چھڑاتا رہا لیکن مولانا نے مجھے ہلنے نہیں دیا‘ جنرل باجوہ خاموش ہو گئے۔
میں نے اس کے بعد پوچھا ’’مولانا آپ سے کیا منوانا چاہتے تھے؟‘‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا ’’آپ اسے چھوڑیں‘ یہ میری اور مولانا کی ذاتی گفتگوتھی‘‘ میں نے اصرار کیا تو جنرل باجوہ نے مجھ سے وعدہ لیا آپ یہ بات لکھیں گے اور نہ کسی کو بتائیں گے‘ میں نے وعدہ کر لیا اور میں آج تک اس وعدے کی پابندی کر رہا ہوں‘ جنرل باجوہ کا کہنا تھا‘ میری مولانا سے تیسری ملاقات 2019میں اس وقت ہوئی جب یہ لانگ مارچ لے کر اسلام آباد آئے‘ ان دنوں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے تھے‘ ہمیں خطرہ تھا اگر خدانخواستہ مولانا کے دھرنے میں کوئی واقعہ ہو گیا تو سیکڑوں لوگوں کی جان چلی جائے گی لہٰذا میں نے جنرل فیض حمید سے کہا اور وہ مولانا کو میرے پاس لے آئے‘اس بار ان کے ساتھ اکرم درانی تھے‘ میں نے جنرل صاحب کو روک کر پوچھا‘ جنرل فیض کے مولانا سے تعلقات کیسے تھے؟
ان کا جواب تھا‘ مولانا جنرل فیض حمید سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے اور ان کے ایک دوسرے سے بہت اچھے تعلقات تھے بہرحال مولانا تشریف لائے اور میں نے ان سے عرض کیا‘ آپ حکومت کو کم زور کیوں کررہے ہیں؟ اس سے ملک کم زور ہو جائے گا‘ آپ قوم پر رحم کریں‘ مولانا کا جواب تھا آپ عمران خان سے استعفیٰ لیں اور حکومت کو فارغ کر دیں‘ میں نے ان سے ایک بار پھر عرض کیا‘ میں وزیراعظم سے استعفیٰ لینے والا کون ہوتا ہوں؟
میرا لہجہ ذرا سخت تھا چناں چہ میری مولانا سے اس باربھی تلخ کلامی ہوگئی لیکن صورت حال پچھلی مرتبہ جتنی ٹینس نہیں تھی‘ میں چاہتا تھا مولانا دھرنا ختم کر کے واپس چلے جائیں اور حکومت چلنے دیں لیکن مولانا نہیں مان رہے تھے لہٰذا یہ میٹنگ ختم ہو گئی‘ میں نے پوچھا‘کیا مولانا نے آپ کو انکار کر دیا تھا‘ جنرل باجوہ کا کہنا تھا‘ مولانا نے سیدھا جواب نہیں دیا تھا‘ وہ بات گول مول کر کے نکل گئے تھے‘ جنرل فیض حمید نے ان کے بعد مجھ سے کہا‘ آپ یہ معاملہ مجھ پر چھوڑ دیں‘ میں مولانا کو منا لوں گا اور پھر واقعی مولانا چند دن کے بعد دھرنا ختم کر کے واپس چلے گئے۔
مجھے بعدازاں جنرل فیض حمید نے بتایا‘ سر میں نے چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی سے بات کی تھی‘ انھوں نے مولانا سے رابطہ کر کے انھیں دھرنا ختم کرنے پر راضی کر لیا‘ میری ریڈنگ تھی مولانا کو محسوس ہوا ہو گا دھرنے سے حکومت پر کوئی خاص ڈینٹ نہیں پڑ رہا لہٰذا انھیں کوئی سیف پیسج چاہیے تھا اور جنرل فیض حمید نے چوہدری برادران کے ذریعے انھیں وہ پیسج دے دیا اور شاید ان لوگوں نے انھیں کوئی گولی بھی کرائی ہو گی جو عموماً ایسے حالات میں کرائی جاتی ہے بہرحال یوں دھرنا ختم ہو گیا۔
جنرل باجوہ نے اس کے بعد مجھے بتایا میری مولانا سے آخری ملاقات 26 مارچ 2022 کو اسلام آباد کے بی میس میں ہوئی تھی‘ مجھے عمران خان نے پرویز خٹک کے ذریعے وزیراعظم ہائوس بلایا‘ جنرل ندیم انجم بھی میرے ساتھ تھے‘ وزیراعظم نے ہمیں مینڈیٹ دیا آپ اگر اپوزیشن کو عدم اعتماد کی تحریک واپس لینے پر قائل کر لیں تو میں اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کرانے کے لیے تیار ہوں‘ ہم نے وزیراعظم کے کہنے پر اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروں کو بی میس میں دعوت دی‘ وہاں شہباز شریف بھی تھے اور بلاول بھٹو‘ اختر مینگل‘ خالد مگسی‘ شاہ زین بگٹی‘ خالد مقبول صدیقی‘ فیصل سبزواری اور مولانا فضل الرحمن بھی۔
میں نے اپوزیشن کو ساڑھے چار گھنٹے قائل کیا کہ آپ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں لیکن وہ لوگ نہیں مانے‘ میں نے آخر میں ان سے کہا‘ آپ کام یاب ہو چکے ہیں‘ آپ نے وزیراعظم کو دبا لیا ہے لہٰذا اب اگر یہ استعفیٰ دینے اور اسمبلیاں توڑنے پر راضی ہیں تو آپ یہ پیش کش قبول کر لیں اور فریش مینڈیٹ لے لیں‘ شہباز شریف اس آپشن کے لیے راضی ہو گئے لیکن مولانا اور بلاول بھٹو نہیں مانے‘ بلاول بھٹو نے مجھے یہ دھمکی بھی دی جنرل صاحب آپ اگر ہمیں مجبور کریں گے تو میں پبلک میں جا کر بتائوں گا ہمیں اسٹیبلشمنٹ عدم اعتماد واپس لینے پر مجبور کر رہی ہے یوں یہ ڈائیلاگ ختم ہو گیا اور میں نے وزیراعظم کو اپنی ناکامی سے مطلع کر دیا‘ عمران خان اس وقت تک سائفر پاس رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے‘ یہ شاید ہمارے ڈائیلاگ کا انتظار کر رہے تھے‘ ہم جب ناکام ہو گئے تو اگلے دن (27 مارچ) وزیراعظم نے اسلام آباد کے پریڈ گرائونڈ میں سائفر لہرا دیا اور یہ رجیم چینج کا بیانیہ لے کر عوام میں چلے گئے۔
میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا ’’کیا مولانا آپ سے ناراض ہیں؟‘‘ ان کا جواب تھا مجھے یہی محسوس ہوتا ہے اور اس ناراضگی کی تین وجوہات ہیں‘ ہم نے اس زمانے میں مدرسہ ریفارمز شروع کی تھیں‘ مولانا یہ نہیں چاہتے تھے‘مدرسہ بورڈ پر ان کی اجارہ داری تھی‘ ریفارمز کے بعد یہ اجارہ داری ختم ہو گئی اور میدان میں جامعۃ الرشید جیسے نئے پلرز بھی آ گئے‘ مولانا اس پر خفا تھے‘ دوسری وجہ فاٹا مرجر تھا اور تیسری وجہ 2019 میں میری ان کے ساتھ تلخ کلامی تھی‘ میں نے ان سے پوچھا‘ تحریک عدم اعتماد میں آپ لوگوں کا کیا کردار تھا‘ جنرل باجوہ کا جواب تھا‘ ہم نے اسے رکوانے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن عدم اعتماد کرانے میں ہمارا کوئی کردار نہیں تھا‘ یہ آصف علی زرداری کا پروجیکٹ تھا‘ مارچ 2021میں سینیٹ کے الیکشن میں جب یوسف رضا گیلانی جیت گئے اور عمران خان کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ ہار گئے تو آصف علی زرداری بھانپ گئے فوج اب حکومت کی پشت سے ہٹ گئی ہے چناں چہ یہ ایکٹو ہو گئے۔
میں نے کہا ’’لیکن اسٹیبلشمنٹ نے 6مارچ 2021کے ووٹ آف کانفیڈنس میں حکومت کا ساتھ دیا تھا‘‘ جنرل باجوہ نے تسلیم کیا ہاں یہ بات درست ہے‘ ہم نے اعتماد کے ووٹ میں حکومت کی مدد کی تھی لیکن یہ ہماری طرف سے آخری سپورٹ تھی جس کے بعد زرداری صاحب نے پوری اپوزیشن اکٹھی کر لی‘ مولانا پی ڈی ایم کے سربراہ تھے‘ یہ سارا کام ان کی سربراہی میں ہوا تھا‘ تحریک عدم اعتماد کے وقت جنرل فیض حمید کور کمانڈر پشاور تھے اور یہ اس گیم سے آئوٹ تھے‘ میں افغانستان کے ایشو میں زیادہ مصروف ہو گیا تھا‘ میں اس پکچر میں اس وقت دوبارہ آیا جب وزیراعظم نے مجھے اس میں انوالو کیا تھا۔
نوٹ: میں نے فیکٹس کی تصدیق کے لیے ایک درمیانی ذریعے سے جنرل باجوہ سے رابطہ کیا‘ میں ان کا مشکور ہوں انھوں نے نہ صرف ان فیکٹس کی تصدیق کر دی بلکہ یہ بھی کہا‘ میں حلفاً اقرار کرتا ہوں مولانا فضل الرحمن غلط بیانی کر رہے ہیں‘ یہ خود حلف دے دیں یا مجھ سے لے لیں یا پھر اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی ایک گواہ لے آئیں‘ میں ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔
کوئی تبصرے نہیں