انتخابات سے پیدا ہونے والے مسائل!!!!

 


محمد اکرم چوہدری

آٹھ فروری کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد حالات مزید خراب ہیں۔ سیاسی صورت حال بہت تشویشناک ہے نہ ہی کسی جماعت کو اتنی سیٹیں ملی ہیں کہ وہ کسی بھی دوسری جماعت یا ایک سے زائد جماعتوں کی مدد کے بغیر حکومت بنا سکے، اب تک تمام جماعتوں نے ایک ایک کر کے وفاق میں حکومت بنانے سے ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں۔ اب تک کے انتخابی نتائج کو دیکھا جائے تو کوئی بھی جماعت اس قابل نظر نہیں آتی کہ وہ حکومت بنائے اور ملک کو درپیش مشکلات سے نکالے۔ ملک کی تمام بڑی چھوٹی جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے ساتھ میدان میں ہیں۔ نہ یہ انتخابی نتائج کسی نے تسلیم کرنے ہیں نہ ہی دھاندلی کے الزامات پر ہونے والی تحقیقات کے بعد کسی نے تحقیقات کو تسلیم کرنے کے بعد خاموش ہونا ہے۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں قیادت کے حوالے سے بہت ہی سنجیدہ بحران کا سامنا ہے۔ چند روز قبل بھی لکھا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو جو کہ تعداد میں سب سے زیادہ ہیں انہیں حکومت بنانے کا موقع ملنا چاہیے۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ وفاق میں حکومت بنانے کی دوڑ میں نہیں ہیں البتہ مسلم لیگ ن وفاق میں حکومت سازی کی طرف جاتی ہے تو پی پی پی ن لیگ کے امیدوار کی حمایت کرتے ہوئے انہیں سپورٹ کرے گی۔ مسلم لیگ ن میں بھی یہ سوچ ضرور پائی جاتی ہے کہ انہیں بھی حکومت سازی کے عمل سے دور رہنا چاہیے۔ جھوٹ اور افواہوں کا بازار بھی گرم ہے، دھاندلی کے الزامات، فیک اکاؤنٹس سے جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے، کہیں سچ بھی ہو گا لیکن جھوٹ کا غلبہ ہے، دنیا میں ہمارا تماشا بنا ہوا ہے اور ہم سب کو تماشا دکھا رہے ہیں، دنیا ہم پر ہنس رہی ہے، جتنا جھوٹ ہم بول رہے ہیں دنیا میں ہماری کیا عزت رہ جائے گی۔ یورپی یونین نے پاکستان میں عام انتخابات 2024 کے حوالے سے سوشل میڈیا پر زیر گردش جعلی بیان کی تردید کی ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے ایکس پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ عام انتخابات سے متعلق یورپی یونین کے بیان کا جعلی ورڑن گردش کر رہا ہے اور  اس کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ مریم اورنگزیب نے دونوں بیانات بھی شیئر کیے ہیں۔ ان کی تو پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی مخالفت ہے لیکن یورپی یونین کی تو کسی سے دوسری دشمنی نہیں ہے۔ یہ ایک مثال ہے ان عام انتخابات کے بعد نجانے ایسی کتنی ہی جھوٹی خبروں نے ہمارا باطن ظاہر کیا ہے لیکن ہمیں نہ پہلے سمجھ آئی تھی نہ ہی اس کے بعد آنے کے امکانات ہیں کیونکہ ہم تہیہ کر چکے ہیں کہ نہ تو سکون سے رہنا ہے نہ رہنے دینا ہے، نہ کام کریں گے نہ کسی کو کرنے دیں گے۔ آج حالات سب کے سامنے ہیں۔ انتخابات سے قبل بھی مشکلات ضرور تھیں لیکن عام انتخابات کے بعد جو طوفان بدتمیزی برپا ہے اس کے بعد تو میں پھر یہ کہتا ہوں کہ ہر عام انتخابات سے پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ گذشتہ روز کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے عام انتخابات میں بے ضابطگیوں کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس استعفی سے ایک سیاسی زلزلہ آیا کمشنر راولپنڈی نے چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کہتے ہیں کہ "میں نے انتخابات کے دوران راولپنڈی ڈویژن میں نا انصافی کی، ہم نے ہارے ہوئے امیدواروں کو 50، 50 ہزار کی لیڈ میں تبدیل کر دیا، راولپنڈی ڈویژن کے تیرہ ایم این ایز ہارے ہوئے تھے، انہیں ستر، ستر ہزار کی لیڈ دلوائی اور ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ راولپنڈی ڈویژن میں انتخابی دھاندلی کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، مجھے راولپنڈی کے کچہری چوک میں سزائے موت دی جائے۔"

ان حالات میں آپ کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں، کیسے استحکام کی بات کر سکتے ہیں یہ جتنی بھی قومی سیاسی جماعتیں ہیں یا علاقائی سیاسی جماعتیں نظر آتی ہیں ان میں سے کوئی بھی سکون سے نہیں بیٹھے گا۔ جو نظام کا حصہ نہیں ہو گا اسے ہر طرف برائی ہی دکھائی دے گی اور اس نے ہر وقت منفی مہم ہی چلاتے رہنا ہے۔ یہ یورپی یونین والا معاملہ دیکھ کر ہی کاش ہمیں کچھ ندامت کا احساس ہو لیکن ایسا ہونا نہیں ہے۔ ملک قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے ہمیں نہ تو ملک کی فکر ہے نہ ہمیں اس ملک کے کروڑوں نوجوانوں کی فکر ہے، ہم نے سب کچھ داو پر لگا دیا ہے۔ یہ تماشا اس جمہوریت کے نام پر لگا ہوا ہے جسے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اب یہ انتقام پاکستان کے کروڑوں لوگوں سے لیا جا رہا ہے یا پھر ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کی توہین کی جا رہی ہے۔ ہمارے وہ بڑے جنہوں نے آزادی کے لیے قربانیاں دیں، خون بہایا،عزتیں پامال ہوئیں، گھر بار چھوڑا، ہجرت کر کے پاکستان پہنچے آج ان سب کی قربانیوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے کیا ہمیں یہ ملک اس لیے ملا تھا کہ ہم ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہیں۔ اور کروائیں عام انتخابات اور جمہوریت کا شور مچائیں لیکن یاد رکھیں دنیا میں ایسے کوئی بھی جمہوریت نہیں چل سکتی اور کوئی بھی نظام کبھی ملک سے بڑا نہیں ہے۔ جن حالات میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں کسی بھی قسم کے ناخوشگوار حالات کے لیے ہمیں تیار رہنا ہو گا۔ 

آخر میں عباس اطہر کا کلام

یہاں ہارن بجانے کی اجازت نہیں 

اور میں نے تمنا کا بھرم کھول دیا ہے کہ سمندر کی ہوا 

سینے سے ٹکرائے تو پردہ نہ رہے 

اس کی مہک سر پہ کفن باندھ کے نکلی ہے 

ہر اک راستے ہر موڑ پہ آواز لگاتی ہے 

مگر کوئی نہیں رکتا بسنت آئی ہے 

سب بھاگ رہے ہیں کوئی آواز نہیں دیتا 

کوئی مڑ کے نہیں دیکھتا 

پٹرول لہو اور ہوا دست و گریباں ہیں 

جدھر دیکھو پتنگیں ہی پتنگیں ہیں 

زمینوں پہ اترنے کے لئے ڈولتی پر تولتی 

بل کھاتی ہوئی 

صبح کو کٹتی ہیں مگر شام کو سڑکوں پہ اترتی ہیں 

تو وہ کون ہے جو 

آنکھوں کے سائے سے گریزاں ہیں 

مگر صبح ہی صبح چپکے سے سو سیڑھیاں 

چڑھ جاتا ہے تھکتا ہی نہیں 

اور نئی آگ دہکتی ہے 

نئے رنگے ہوئے کاغذوں سے حشر چمک اٹھتا ہے 

سب عورتیں اور مرد جواں لڑکیاں اور لڑکے 

نئی ٹیکسیاں اور موٹریں اور رکشے 

انہیں لوٹنے نکلے ہیں بسنت آئی ہے 

آ جاؤ یہاں لوٹ مچی ہے آؤ 

در و دیوار کو حسرت کی نظر دیکھنا مت بھولنا 

اک دوسرے کو روندتے 

اک دوسرے کو خون میں بھیگے ہوئے 

سر پیٹتے اور چیختے چلاتے سبھی بھاگ رہے ہیں 

کوئی آواز نہیں دیتا 

یہاں ماؤں اور بہنوں سے اور بیویوں سے 

آخری بوسوں کی اجازت ہے 

مگر ہارن بجانے کی اجازت نہیں

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.