YOU TOO BRUTUS
سہیل وڑائچ
عمران خان بطور کرکٹر ریاست پاکستان کی شان رہے ہیں۔ ورلڈ کپ جیت کر نہ صرف پاکستان کا نام روشن کیا بلکہ عوام کے دلوں میں بھی گھر بنا لیا۔ سیاست میں آئے تب بھی انکی شہرت مٹی سے جڑے محب وطن پاکستانی کی رہی مگر اب کیا ہوا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو قرضہ نہ دے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا مقصد موجودہ مقتدرہ کو جھکانا اور نئی حکومت کو جمہوری اقدار پر مجبور کرنا ہو۔ لیکن فرض کریں کہ آئی ایم ایف ان کا یہ مطالبہ مان لیتی ہے تو کیا صرف مقتدرہ اور حکومت متاثر ہو گی؟ نہیں جناب! ملک ڈیفالٹ ہوا تو فوج کو تو شائدکوئی فرق نہ پڑے، برما میں کیا فرق پڑ گیا ہے؟ اصل فرق تاجر، مزدور اور عام آدمی کو پڑے گا، ایکسپورٹ امپورٹ بیٹھ جائے گی، روپیہ ڈی ویلیو ہو جائے گا، ہمارا حال سری لنکا جیسا ہو جائے گا، معیشت اور عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر پی ٹی آئی کیا فائدہ لینا چاہتی ہے؟ فوراً یہ فیصلہ واپس لیا جائے اس کے دفاع میں جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی وزن نہیں۔
یادش بخیر، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو شیکسپیئر کا سیاسی ڈرامہ جولیس سیزر بہت پسند تھا، انہیں اس ڈرامے کے اکثر ڈائیلاگ ازبر تھے۔ اس ڈرامے میں جولیس سیزر کے دو ساتھیوں مارک انٹونی اور بروٹس کی وفاداری اور خود پسند اصولی موقف کا تقابل کیا گیا ہے۔ عمران خان بھی آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں انہوں نے بھی اس ڈرامے کو ضرور پڑھا ہو گا، بروٹس جب جولیس سیزر پر خنجر کا وار کرتا ہے تو ایوان نمائندگان کی سیڑھیوں پر گرتے گرتے سیزر اپنے دوست بروٹس کو اس کی بے وفائی پر یہ ضرب المثل فقرہ کہتا ہے کہ YOU TOO BRUTUS یہی فقرہ عمران خان کیلئے ہے کہ ان جیسا محب وطن، ریاست اور عوام کے خلاف اس حد تک کیوں جائے؟ بھٹو پھانسی کے تختے پر جھول گیا مگر ایٹمی پروگرام کے خلاف ایک لفظ نہ بولا، بےنظیر بھٹو کی فوج سے لڑائی اور کشمکش رہی مگر وہ شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی لیکر آئیں اور ایٹمی پروگرام کی حفاظت کی۔ نواز شریف کے فوج سے اختلافات رہے انہیں بہت سے راز معلوم تھے مگر انہوں نے زبان نہ کھولی، عمران کے ساتھ سراسر زیادتی ہو رہی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ریاست اور عوام کے خلاف آئی ایم ایف کو خط لکھیں۔
تحریک انصاف والے کہہ سکتے ہیں کہ ریاست جو کچھ عمران خان کے ساتھ کر رہی ہے اس کا جواب دینا ضروری ہے اور ہو سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کو خط لکھنے سے ریاستی جبر کا راستہ رک جائے۔ یاد رکھیں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران مسلمان برطانوی فوج میں شامل ہو کر لڑ رہے تھے، گاندھی اپنے حامیوں کو برطانوی جنگ میں شریک نہ ہونے کا مشورہ دیتے رہے۔ قائد اعظم نے ایسا کچھ نہ کیا اور یوں مسلمانوں کی انہی فوجی خدمات کے حوالے سے اس خطے کو آزاد پاکستان کی شکل میں نیا ملک مل گیا۔ ریاست ظلم بھی ڈھائے،جبر بھی کرے، لاقانونیت بھی کرے، ناانصافی اور دھاندلی بھی کرے تب بھی بیرونی دنیا سے مداخلت کی درخواست کرنا اہل سیاست کا شیوا نہیں ہوتا۔ متحدہ ہندوستان میں ایک بار علماءنے اپنے ملک کو دارالکفر قرار دیکر افغانستان ہجرت کا فتویٰ دے دیا تھا نہ صرف یہ تحریک ناکام ہوئی بلکہ افغانستان ہجرت کرنے والے سارے مسلمان ذلیل وخوار ہو گئے۔ الذوالفقار نے ریاست پر حملے کئے تو نتیجہ کیا نکلا، الذوالفقار بھی ناکام ہو گئی اور مرتضیٰ بھٹو بھی دنیا سے نامراد رخصت ہوئے۔ کامیاب سیاست وطن کی مٹی سے جڑے رہنے، ظلم کی چکی میں پسنے کے باوجود ریاست سے وفاداری نبھانے کا نام ہے۔ عمران خان سو فیصد محب وطن ہیں انہوں نے بطور وزیر اعظم اور بطور سیاست دان ایک بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے انکی حب الوطنی پر حرف آتا ہو مگر یہ آئی ایم ایف کو خط، انکی سیاست کیلئے نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔
عمران خان کے حامیوں، تحریک انصاف کے ووٹروں کا جائزہ لیا جائے تو مڈل کلاس میں انکے زیادہ تر حامی دائیں بازو کے ہیں یہی دایاں بازو سالہا سال تک اسٹیبلشمنٹ اور فوج کا حامی ہوا کرتا تھا۔ بعد ازاں اسی طبقے کی اکثریت نے پیپلز پارٹی کی مخالفت میں نواز شریف کا ساتھ دیا، اب یہی طبقہ تبدیلی اور کرپشن کے خلاف مقبول عام نعروں کی وجہ سے عمران خان کے ساتھ ہے۔ الیکشن 2024ء میں اس طبقے نے عمران خان کی ہمدردی میں اپنے غصے کا اظہار کیا ہے لیکن تحریک انصاف کو یاد رکھنا چاہئے کہ حب الوطنی کے امتحان میں دائیاں بازو ہمیشہ ریاست کا ساتھ دیتا ہے۔ الطاف حسین پرجان چھڑکنے اور جان قربان کرنے والے دائیں بازو کے یہ مڈل کلاس والے حب الوطنی کے امتحان میں پڑے تو سب الطاف حسین کو چھوڑ گئے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سیاست میں حقیقت سے زیادہ تاثر اہم ہوتا ہے ہمیں سب کو اس حقیقت کا علم ہے کہ عمران خان نے وطن کیلئے جان لڑائی ہے کھیل ہو یا سیاست انہوں نے پاکستان کی ہمیشہ لاج رکھی مگر آئی ایم ایف کو خط لکھنے سے ان کا تاثر تبدیل ہونے کا خدشہ ہے، انہیں باغی بننے کی بجائے اور زیادہ جمہوری اور پاکستانی بننا ہوگا۔
ہمیں علم ہے کہ مقتدرہ کی سوچ تبدیل ہوتی رہتی ہے یہی مقتدرہ کبھی عمران کی حامی ہوا کرتی تھی آج کل انکے خلاف ہے۔ اس لئے عمران خان کو صبر اور مفاہمتی رویے سے اس مشکل وقت سے نکلنا ہو گا، ان کا ووٹ بینک بڑھا ہے اور آگے بھی اسکے جلدی کم ہونے کا امکان کم ہے، لہٰذا انکے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ووٹر کو حب الوطنی کے امتحان میں نہ ڈالیں، سیاست کا محور ریاست مخالف رکھنے کی بجائے پالیسیوں کی مخالفت کی طرف رکھیں۔
گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ ریاست میں نظر آنے والی سیاسی اور نظریاتی تقسیم ختم کرنے کا واحد راستہ مفاہمت ہے۔ عمران خان کو جیل سے نکال کر بنی گالہ میں نظر بندی کی سہولت دی جائے اور مقتدرہ ان سے مذاکرات کرکے انہیں سیاسی نظام کا حصہ بننے پر قائل کرے۔ تحریک انصاف کے بے گناہ اسیروں کو رہا کیا جائے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو عمران خان کی مرضی کے مطابق حکومت بنانے دی جائے تاکہ مملکت اور ریاست کا نظام چل سکے۔ لڑائی، جھگڑے، گالیاں، گرفتاریاں اور جیلیں مسائل کو حل نہیں کرتے بلکہ الجھاتے ہیں۔ الیکشن کے بعد اب نیا دور شروع ہونا چاہئے جس میں روا داری، مفاہمت اور جمہوریت کا دور دورہ ہو، اسی سے ہی سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا اور ریاست مضبوط ہوگی۔
کوئی تبصرے نہیں