شاعر نذیر ناجی! عطا ء الحق
عطا ء الحق قاسمی
24 فروری ، 2024
نذیر ناجی بھی ہم سے رخصت ہوگئے مگر جدائی سے بہت پہلے انہوں نے دنیا سے منہ موڑ لیا تھا اور اپنی الگ دنیا بسالی تھی ۔نذیر ناجی ایک اعلیٰ درجے کے کالم نگار تھے ،مظہر برلاس کے مطابق ناجی نے اپنا بچپن نہایت غربت میں گزارا، ان کی والدہ سموسے بناتی تھیں اور یہ بچہ سموسے بسوں میں فروخت کرتا تھا ،وہ اسکول بھی نہ جاسکا مگر بلا کے ذہین ناجی نے بغیر کسی اسکول یا کالج کے جتنا پڑھا وہ شاید کسی پی ایچ ڈی نے بھی نہ پڑھا ہو۔تاہم میرا آج کا کالم دانشور اور کالم نگار نذیر ناجی کے حوالے سے نہیں ان کی شاعری کے بارے میں ہے۔ یہ تو ہم سب کو علم تھا کہ وہ شاعر بھی تھے مگر بہت خوبصورت شاعر اور نقاد عباس رضوی تو محقق بھی نکلے۔ انہوں نے ناجی کی شاعری کے حوالے سے مجھے فون پر وہ کچھ بتایا جن میں سے بہت سی باتوں سے میں بے خبر تھا ۔میں آج اپنے قارئین سے وہ باتیں شیئر کرنا چاہتا ہوں جو یقیناً بہت کم دوستوں کے علم میں ہوں گی، ناجی کا شعری مجموعہ’’ایک کٹھن حسن اتفاق‘‘ کے عنوان سے 2013میں شائع ہوا اس مجموعہ سے پہلے چند وہ اشعار جو ناتمام زندگی کے حوالے سے ہیں ۔
کہتے تھے خاموشی کا کب اپنے ساتھ گزر ہوگا
وقت دکھا دیتا ہے سب کچھ چپ رہنا آ ہی گیا
مانگتی ہے کیا ہماری ایک چھوٹی سی زمیں
ایک مٹھی حسن انساں ایک سورج روشن
میں زندگی کو سمجھتا ہوں محفلوں کی طرح
مجھے پتہ ہے کہ آخر یہاں سے جانا ہے
یہ دنیا تمہاری ہے اب دوستو
بگاڑو بنائو مجھے سونے دو
مجھے حیرت ہے کہ نذیر ناجی کے کالموں کی تو بہت پذیرائی ہوئی مگر ہمیشہ زندہ رہ جانے والی شاعری کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ذیل میں ان کے چند اشعار جن کا کینوس اگرچہ بہتر نہیں مگر انہیں نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔
لہو میں ڈوب کے توڑی ہیں میں نے زنجیریں
غلامی ذہن میں بیٹھی ہے مسکراتی ہوئی
سنہرے بالوں میں سورج کے سرخ پھول سجائے
چلی ہے شور کے آنچل کو شام اٹھاتی ہوئی
حسنِ وداع
دو رونے والی آنکھیں ہوں
کچھ ہنسنے والے آنسو ہوں
کچھ آہیں سہمی سہمی سی
اور سب سے دور کھڑا کوئی
چھپ چھپ کر ہاتھ ہلاتا ہو
***
ہاں اس کیلئے بات مرے دل میں کوئی ہے
لہرائی ہوئی رات، مرے دل میں کوئی ہے
پہنچے ہوئے پیغام ہوں بیٹھا میں سنبھالے
آتی ہوئی سوغات مرے دل میں کوئی ہے
میں کیسے کہوں اپنی محبت کی کہانی
میں ہوں، نہ مری ذات، مرے دل میں کوئی ہے
یاد آتا ہے کوئی مجھے بجلی کی چمک سے
بتلاتی ہے برسات، مرے دل میں کوئی ہے
شاموں کا پتہ ہے، نہ سویروں کی خبر ہے
کہتے ہیں یہ حالات، مرے دل میں کوئی ہے
کیوں پھولوں سے، خوشبوئوں سے آتی ہیں صدائیں؟
کھوئی سی ملاقات، مرے دل میں کوئی ہے
کیوں کرتا ہوں ہر اک کو ہرانے کی میں کوشش؟
پوشیدہ کہیں مات، مرے دل میں کوئی ہے
***
رواں ہے تند بگولوں میں دندناتی ہوئی
اک انتشار کی رو بستیاں بناتی ہوئی
تمدنوں کے تصادم میں بھی رواں ہی رہی
پکڑنے اٹھو تو پھر ہاتھ بھی نہیں آتی
وہ دھندلی سوچ اندھیرے میں سرسراتی ہوئی
کھلے پہاڑوں پہ لوری کی برف جمتی ہوئی
سفید نیند میں ہر چیز کو سلاتی ہوئی
آخر میں نذیر ناجی نے اپنا قصیدہ اس فلیپ کی صورت میں لکھا ہےجس پر فلیپ نگار کا نام درج نہیں اور یوں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ فلیپ بقلم خود نذیر ناجی کا ہے۔ اس کی صرف چند لائنیں ملاحظہ کریں جن میں ناجی نے اپنی بہت کم مداحی کی ہے۔’’نذیر ناجی اپنے آپ کو امید کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ اردو شاعر قصیدے لکھ کر اشرفیاں کماتے رہے۔ عبدالقادر بیدل اور میر درد صاحب کردار شعرا تھے جنہوں نے کبھی کسی بادشاہ یا امیر کا قصیدہ نہیں لکھا۔ میر جعفر زٹلی بڑے شاندار اور زندہ ضمیر آدمی تھے جن کی عزت نفس کو زخمی کرنےکیلئے شہزادہ کام بخش نے انہیں مورچھل کی خدمت پر مامور کردیا تو انہوں نے نوکری کو لات ماری اور بادشاہ کی ہجو لکھ کر اس کی ایسی تیسی پھیر دی۔ انہوں نے بادشاہ فرخ سیئر کا ہجویہ سکہ لکھا ۔ ’’سکہ زد برگندم و موٹھ و مٹر/ بادشاہ تسمیہ کش فرخ سیئر‘‘ اور اس کی پاداش میں قتل کردیئے گئے مگر ہمارے نذیر ناجی صاحب نے خود اپنا ایسا شاندار قصیدہ لکھا کہ رہے نام سائیں کا۔ اردو شعر و ادب میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔‘‘
’’ان خراب ترین دنوں میں باقی ماندہ پروگریسو لوگ مذہبی انتہا پسندی کے انصاف پسند جال میں کسی قریب المرگ مکڑی کی مانند اپنی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر حکومتیں بنانے اور گرانے کی طاقت کی جنگ میں شریک صحافتی آمروں کی بدبودار دلیلوں کے قانون کی بھیڑ میں گھرے مصیبت زدہ عوام ان ٹھیکیداروں کے ہاتھوں اپنے معصوم جذبوں، صاف شفاف سوچوں اور قوت ارادی کو تباہ وبرباد کرنے کاجادوئی منظر بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں نذیر ناجی اپنے تخیل، سوچ، تاریخی شعور اور ادراک کی دور بین کا رخ بیہودہ پتھریلے دلائل کے ان انسانی کارخانوں کی طرف موڑ دیتا ہے جن کی جعل ساز چمنیاں دن رات جھوٹ کا سیاہ دھواں اگلنے میں مصروف ہیں اسی دشوار گزار راستے پر چل کر نذیر ناجی حقیقی جمہوری تصور اور نظریاتی کمٹمنٹ کے ساتھ اپنی تحریروں میں پیش قدمی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنے صاف شفاف پانی کی روانی جیسے دلائل کے سیاق و سباق سے ایک پُرامید زندگی نامہ تخلیق کرتا ہے‘‘۔
اور میرے خیال میں بعض اوقات شاعر کو خود بتانا پڑتا ہے کہ اس کی شاعری کن بنیادوں پر استوار ہے اور اس خدشے کے پیش نظر کہ ممکن ہے نقاد کی نظروں سے اس کی شاعری کا یہ پہلو نظرانداز ہو جائے۔
کوئی تبصرے نہیں