1962ء سے 2024ء تک



عبدالغفور نواب

وقت کے ساتھ اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ واقعی بچپن کی محبت ہو یا یادیں انسانی شخصیت پہ گہری چھاپ چھوڑتی ہیں اتنی گہری کہ پھر ساری عمر اس عشق کا نعم البدل کوئی ہو ہی نہیں سکتا وہ محبت کی کوئی بھی صنف ہو وقت اسے پروان چڑہاتا رہتا ہے اور یہ جذبہ محبت سے عقیدت اور پھر پرستش تک کا روپ 
دہار لیتا ہے 

الیکشن کے حوالے سے بچپن کی یادوں میں آج تک زہن میں نقش رہ جانے والی یادوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کا سرخ کالے اور سبز رنگ کا جھنڈا تیر کا نشان سردار خضر حیات خان سردار محمد اشرف خان مرحوم و مغفور کے تصویری پوسٹر اور بینر شامل ہیں الیکشن کے دنوں میں جب بڑوں کی بیٹھک ہوتی تو ہم بچے بھی دل میں جوش و ولولے سمیٹے ساتھ بیٹھ جایا کرتے تھے بڑوں کی زبان سے سردار خضر حیات سردار محمد اشرف خان سردار غلام عباس خان سردار افتاب اکبر خان کے نام اور تذکرے سنتے تو دل میں ان سب سے ملنے اور دیکھنے کی خواہش بھی مچلتی رہتی گاؤں میں جھنڈے اور پوسٹر لگانا ہماری ڈیوٹی ہوا کرتی تھی جسے ہم بصد شوق بجا لاتے اور الیکشن کے حوالے سے بہت پرجوش ہوا کرتے تھے میری پیدائش 1977 کی ہے جب سردار خضر حیات خان تیسری دفعہ ایم این اے اور سردار محمد اشرف خان ایم پی اے بن چکے تھے یہ الیکشن دونوں سرداران نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑا تھا اور سردار محمد اشرف خان جنگلات اور ڈیری ڈیویلپمنٹ کے وزیر بنے تھے۔

ضیاالحق کی طویل ڈکٹیٹر شپ میں ملک میں سیاسی حکومت عملاً معطل ہی رہی اور اس کی وفات کے بعد 1985 میں پہلے غیر جماعتی الیکشن کا انعقاد ہوا مجھے یاد ہے لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ عبد المجید ملک مرحوم و مغفور سردار محمد اشرف خان کے مقابلے میں ایم این اے کی سیٹ کے لئیے پہلی بار سیاسی میدان میں اترے تو بھیں سے صوفی سلطان کے ساتھ میرے والد صاحب سے ملنے ہمارے گھر تشریف لائے اور سیاسی حمائیت کی درخواست کی والد صاحب نے جنرل صاحب سے کہا آپ میرے گھر تشریف لائے ہیں آپ کا بہت شکریہ آپ کا آنا میرے سر آنکھوں پر لیکن شائد آپ کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ سرداران کوٹ چوہدریاں سے میرا تعلق فقط سیاست یا ووٹ کا نہیں ہے ہمارے تعلق میں سیاست ثانوی ہے محبت ادب احترام اور دوستی کا رشتہ سب سے پہلے ہے ایسا ممکن نہیں سردار محمد اشرف خان آپ کی مخالفت میں الیکشن لڑ رہے ہوں اور چوھدری نواب خان آپ کو سپورٹ کرے جنرل صاحب چائے پی رہے تھے ان کے چہرے پہ والد صاحب کے غیر متوقع اور دو ٹوک روئیے سے کچھ ناگواری سی آئی انہوں نے چائے کا کپ ساتھ پڑے چھوٹے سے ٹیبل پہ رکھا اور قدرے مسکراتے ہوے بولے ٹھیک ہے چوھدری صاحب آپ اپنے ووٹ بےشک سردار صاحب کو دیں لیکن گاؤں اور یونین کونسل میں میری مخالفت میں ووٹ نہ مانگیں اتنا تو میرے آنے کا بھرم آپ رکھ ہی سکتے ہیں والد صاحب نے جواب دیا جنرل صاحب مجھ میں منافقت نہیں اتنا یاد رکھئیے گا کہ میرے گاؤں امیرپورمنگن یا یونین کونسل سے جو ووٹ آپ کو ملیں انہوں نے چوھدری نواب خان کی بات نہیں مانی ہوگی باقی ووٹ سردار صاحب کی امانت ہیں جب تک سانس ہے کہیں اور نہیں جا سکتے۔

1985 میں ہی سردار غلام عباس صاحب نے بطور آزاد امیدوار اس وقت کے حلقہ پی پی 12 سے صوبائی اسمبلی کے لئیے اپنا پہلا الیکشن لڑا اور ایم پی اے منتخب ہوے جبکہ سردار محمد اشرف خان جنرل صاحب سے ایم این اے کا الیکشن ہار گئے اک طرف ہمارے لئیے خوشی کا سماں تھا اور اک طرف ہار کا غم اس کے بعد بالترتیب 1988 ، 1990 ، 1993 ، 1997 میں بھی سردار محمد اشرف خان جنرل صاحب سے الیکشن ہارے 
1988 میں والد صاحب کی وفات کے بعد بڑے بھائی چوھدری محمد اشرف خاندان میں ان کے سیاسی جانشین مقرر ہوے جن کو ضلع چکوال کا سب سے کم عمر کونسلر اور وائیس چیئرمین یو۔نین کونسل ہونے کا اعزاز حاصل ہے سرداران صاحب سے محبت اور عقیدت کا یہ رشتہ دوسری نسل میں منتقل ہوگیا جب سردار غلام عباس خان ضلع ناظم بنے تو انہی کی خواہش پہ بڑے بھائی چوھدری محمد رزاق بھی سیاسی میدان میں اترے اور چوھدری غضنفر علی خان کی جوڑی میں دو بار نائب ناظم اور وائیس چیئرمین یونین کونسل منتخب ہوئے یہ وہ دور تھا جب چوھدری پرویز الٰہی وزیراعلی پنجاب تھے اور سردار غلام عباس خان صاحب نے بحثیت ضلع ناظم چکوال میں ترقیاتی منصوبوں کے جال بچھا دئیے تھے اپنی یونین کونسل میں میں اگر سردار صاحب کے ترقیاتی منصوبوں کا زکر کروں تو صرف ہمارے گاؤں میں گیس کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا جو 2005 میں کسی خواب سے کم نہ تھا لڑکوں کا سکول پرائمری سے مڈل میں اپ گریڈ ہوا اور 6.8 ملین کی لاگت سے سکول کی نئی بلڈنگ بنی جو اب ہائی سکول تک اپ گریڈ ہوچکا ہے گاؤں کے ساتھ ملحقہ آبادیوں میں بجلی اور روڈ تک نہ تھے ہر گھر اور ہر ڈھوک تک بجلی پہنچائی گئی گاؤں کی گلیاں نالیاں نکاسی آب کے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے قبرستانوں کی چاردیواریوں اور جنازہ گاہ کی تعمیر ہوئی غرضیکہ کچھ ایسا کام باقی نہ رہا جو مکمل نہ ہوا ہو ہمارے گاؤں کی آدھی سے زائد ابادی پینے کے صاف پانی سے محروم تھی ن لیگ کی پچھلی گورنمنٹ میں سردار صاحب نے زاتی دلچسپی لے کر ایک کروڑ کی گرانٹ منظور کرائی ٹینڈر ہوا سروے ہوا لیکن کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا.

ہمارے خاندان کا سیاسی سفر جو 1962 سردار خضر حیات خان سے شروع ہوا تھا اب سردار غلام عباس خان صاحب کی قیادت میں چھٹی دہائی میں داخل ہوچکا ہے یہ وہ رشتہ وہ تعلق ہے بچپن کی وہ محبت ہے جس کی گہرائی اور آپس میں محبت و احترام کو ماپنا ممکن نہیں۔

آج ہم سب بھائی جب سردار صاحب کو ایم این اے اور ایم پی اے کی سیٹ جیتنے پہ مبارک باد دینے کوٹ چوہدریاں ان کے گھر پہنچے تو ماضی و حال کے سب واقعات پہ سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے قصے میاں نواز شریف سے ملاقات سے آج تک کی سب باتیں زیر بحث رہیں اک موقع پر کچھ بات کرتے فرط جذبات میں میں آبدیدہ ہوگیا اور میری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے تو سردار صاحب میرا ہاتھ تھام کر کہنے لگے میں جب پہلی بار اپنے سیاسی استاد اور چچا زاد سردار خضر حیات خان صاحب کے ساتھ آپ کے گھر آپ کے والد صاحب سے ملنے آیا تھا تب میری داڈھی مونچھ بھی نہ تھی آپ لوگوں کی وہ پرانی حویلی کا نقشہ وہ کچی دیوار اب تک میرے ذہن میں نقش ہے آپ میرے بھائی بھی ہیں میرے بچے بھی ہیں امیرپورمنگن کو آپ لوگوں کے گھر کی نسبت سے میں اپنا دوسرا گھر کہتا ہوں اور جب تک سانس ہے یہ تعلق کسی سے ٹوٹا ہے نہ کوئی توڑ سکتا ہے۔

سردار صاحب سے ملاقات کے یہ تین گھنٹے پلک جھپکتے میں خوبصورت یادوں کے ساتھ پر لگا کر ایسے گزرے پتہ ہی نہ چلا آتے ہوے انہیں گاؤں آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کی کہ اسمبلی کے سیشن حکومت سازی کے معاملات اور حلف برداری تک کل سے اسلام آباد جاؤں گا اور پہلی فرصت میں ان شاءاللہ ضرور آؤں گا۔
..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.