آپ نے کیا بویا تھا

 


عبدالغفور نواب

 سوار خان پاکستان فوج کے سابق فور سٹار جنرل تھے وہ یکم دسمبر 1924 تحصیل گوجر خان کے گاوں راماں میں پیدا ہوئے۔پاکستان کی آزادی سے قبل ان کو انڈین آرمی کی کور آف آرٹلری میں چنا گیا۔1947 میں قیام پاکستان کے بعد بحثیت کپتان انہوں نے پاکستان آرمی کا انتخاب کیا۔ جنرل سوار خان کو 24 مارچ 1976 کو جنرل ضیاالحق نے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔5 جولائی 1977 میں جب جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب عوامی حکومت کا تختہ الٹا کر ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل سوار خان کو کور کمانڈر لاہور کی ذمہ داریاں تفویض کرنے کے ساتھ 1978 میں صوبہ پنجاب کا گورنر اور صوبائی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔1980 سے 1984 تک وہ وائس چیف آف آرمی سٹاف بھی رہے ۔اس دوران انہوں نے علاقے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا تعلیم اور صحت کی سہولیات عوام تک پہنچانے کے لئے سکولوں اور ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن کی گئی۔ مندرہ چکوال روڈ کی بھی اس وقت ازسرنو تعمیر کی گئی۔

جنرل ریٹائرڈ سوار خان کا خاندانی پس منظر سیاسی اور سماجی لحاظ سے انتہائی شاندار رہا ہے۔ان کے چھوٹے بھائی چوہدری الطاف حسین گجر چیئرمین یونین کونسل راماں رہے ۔جنرل سوار خان کے ایک بھائی جن کا نام چوہدری ابوذر گجر تھا اپنے بھائی کے گورنر پنجاب اور وائس چیف آف آرمی سٹاف رہنے کے دوران فلاح و بہبود اور عوامی مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت مصروف رہنے کی وجہ سے بہت مقبول رہے۔ چوہدری ابوذر گجر کا نچلا دھڑ بچپن سے ہی کسی بیماری کی وجہ سے مفلوج تھا جس کی وجہ سے وہ وہیل چیئر پر ہی رہتے تھے ۔زبان میں لکنت کا عارضہ بھی لاحق تھا۔انتہائی شریف النفس اور معصوم انسان تھے علاقے کے لوگ اپنے محکمانہ مسائل کے حل کے لیے سفارشات لے کر ان کے ڈیرے پر آتے تو وہ بلاحیل وحجت بغیر کسی لالچ کے سائلین کی دادرسی کے لیےان کے ساتھ چلے جاتے۔ مفلوج ہونے کی وجہ سے چونکہ وہ گاڑی سے باہر نہیں آ سکتے تھے تو متعلقہ اداروں کےافسران کو جب ان کے آنے کی بابت بتایا جاتا تو وہ فوراً اپنے آفس سے باہر ان کی گاڑی کے پاس آکر ان کی بات کو انتہائی عزت و احترام سے سنتے اور مسائل کے حل کے لیے موقع پر ہی احکامات جاری کر دئیے جاتے تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چوہدری ابوذر گجر کے اس سارے پروٹوکول کے پیچھے اس وقت ان کے بڑے بھائی گورنر پنجاب اور وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل سوار خان تھے کیونکہ خود چوھدری ابوزر گجر کی معصومیت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ وہ کسی سائل کے کام کے سلسلے میں لاھور جارہے تھے تو راستے میں دوپہر کے کھانے کے لیے ایک ہوٹل پر رکے۔ ویٹر کھانے کا آرڈر لینے آیا اور بتانے لگا کہ آج فلاں سبزی اور دالیں موجود ہیں۔آپ حکم کریں ابھی کھانا لگا دیتا ہوں اس سے پہلے کہ چوہدری ابوذر بولتے ساتھ موجود سائل جھٹ سے ویٹر سے مخاطب ہوا اور اسے کہا کہ بھائی دال اور سبزی نہیں چوہدری صاحب کے لیےچھوٹا گوشت بنوا کر لاؤ۔ویٹر بولا انتہائی معذرت جناب آج ناغہ ہے گوشت تو نہیں ملے گا۔ویٹر کی بات سنتے ہی چوہدری ابوذر فوراً بولے ٹھیک ہے یار دو پلیٹ ناغہ ہی لے آو۔

اس طرح کی بے شمار باتیں اور چوہدری برادران کی عوام دوستی کے قصے ہم نے اوائل بچپن میں اس وقت کے معروف داندی ڈہواں گاؤں کے ابو کے دوست فتح خان پہاڑیا کی زبانی سنے تھے جن کے جنرل سوار خان اور ان کے خاندان سے قریبی مراسم تھے۔ ہم یہ واقعات سن کر محو حیرت رہتے اور ہمارے لیے یہ سب باتیں ناقابل یقین ہوا کرتی تھیں کہ کیسے ممکن ہے کہ بظاہر ایک معزور شخص کے احکامات اس وقت کے ڈی سی اور ایس پی بجا لاتے ہوں کیوں کہ یہ وہ وقت تھا جب تھانہ ڈوہمن سے ایک سپاہی آکر بلا چوں چراں پورے گاؤں کو تھانے لے جایا کرتا تھا۔

وقت پر لگا کر اڑا بچپن لڑکپن میں ڈھلا جوانی سے ادھیڑ عمری کی جانب رواں ہوے تو ایسی ہی ایک طلسماتی شخصیت کو دیکھنے کا موقع بھی مل گیا۔2018 کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت معرضِ وجود میں آئی۔ عمران خان پاکستان کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 2018 کے الیکشن چکوال کی سیاست میں بھی گیم چینجر ثابت ہوئے۔ تین دہائیوں سے ن لیگ کا راج ختم ہوا۔پی پی بائیس ملک تنویر اسلم سیتھی کی سیٹ کے علاؤہ تمام سیٹیں پاکستان تحریک انصاف نے جیت لیں۔ چکوال کے تین ایم پی ایز نے پنجاب اسمبلی میں مختلف وزارتوں کے حلف اٹھائے۔ چکوال میں پاکستان تحریک انصاف کے دو ایم این اے اور پنجاب اسمبلی کے تین وزراء ہونے کے باوجود ہمیں ایک نووارد چہرہ ہر سیاسی سماجی کاروباری اور ثقافتی حلقوں میں نظر آنا شروع ہوگیا۔ ضلعی انتظامیہ کی کھلی کچہریاں ہوں، پراجیکٹس کے افتتاح یا کسی نئی سڑک کی افتتاحی تقریب، انتظامی افسران اور پارلیمنٹرینز ان کے منتظر رہتے۔ سب جھک کر ان سے ملتے ان کے پروٹوکول میں لینڈ کروزرز کا فلیٹ ہوتا۔ یہ ششکے اس سے پہلے ہم نے کسی وزیر یا پارلیمنٹرین کے بھی نہ دیکھے تھے ان کی یہ شان و شوکت دیکھنے پر معلوم پڑا کہ ان کا نام نجف حمید ہے اور یہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے بڑے بھائی ہیں اور بحیثیت پٹواری محکمہ مال میں ملازم ہیں ۔جنرل فیض حمید اس وقت پاکستانی سیاست کے کنگ میکر سمجھے جاتے تھے بحثیت ڈی جی آئی ایس آئی ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا طوطی نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان کے ہر دوست ممالک میں بولتا تھا۔ریاست پاکستان کی ذمہ داریوں کے ساتھ ان کا دل چکوال کے لیے دھڑکتا تھا۔ پی ٹی آئی دور میں چکوال میں مکمل اور زیر تکمیل ترقیاتی منصوبوں میں ان کی ذاتی دلچسپی شامل تھی خصوصاً اپنے گاؤں لطیفال اور اس سے ملحقہ آبادیوں کو انہوں نے جدید خطوط پر اس طرح استوار کیا کہ وہاں سے گزرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کا گماں ہوتا ہے۔

جنرل فیض حمید کی شخصیت کے بالعکس ان کے بھائی نجف حمید کے عوامی، ادبی،سیاسی اور کاروباری حلقوں میں تذکرے کچھ اچھے انداز میں نہ ہوتے تھے۔ ان سے ملنے والا ہر شخص ان سے خائف تھا۔ ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں وہ مسٹر ٹو پرسنٹ کے نام سے مشہور تھے۔ پٹواری سے گرداور اور پھر نائب تحصیلدار تک اچانک ترقی کا سفر ،چکوال ، ڈھڈیال ، اور بلکسر کی منافع بخش قانون گوئیوں میں تعنیاتی ، آواز خلق کے بقول یہ سب ان کے بھائی جنرل فیض حمید کے عہدے کی مرہون منت سمجھا جاتا تھا۔جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی سے بعدازاں کور کمانڈر پشاور تعنیات ہوئے ۔چکوال کی عوام کی بے پناہ دعاؤں اور خواہش کے باوجود چیف آف آرمی سٹاف کی دوڑ سے باہر ہوئے ۔آرمی سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی ادھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی۔ پاکستان میں پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا۔ پاکستان تحریک انصاف کے بینیفشریز پر حکومتی اداروں کا شکنجہ سخت ہوا تو نجف حمید کے خلاف بھی اینٹی کرپشن نے کرپشن ، بدعنوانی ، اختیارات سے تجاوز ، انتقالات کی فیسوں کی مد میں سرکاری خزانے کو لاکھوں روپے کے نقصان ، آمدن سے زائد اثاثہ جات کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا۔ نجف حمید نے اس مقدمے 16/23 میں عبوری ضمانت حاصل کر لی ۔18 مارچ کو عبوری ضمانت کینسل ہوتے ہی اینٹی کرپشن نے نجف حمید کو گرفتار کرلیا۔ اس خبر کو ہر میڈیا چینل نے بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا ۔نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر اس گرفتاری پہ پروگرام کیے گئے۔ نجف حمید کے ساتھ ان کے بھائی فیض حمید اور چکوال کا نام منفی انداز میں لیے جانے پر ہر چکوالیے کا دل افسردہ رہا۔

یہ تو وقت ہی ثابت کرے گا کہ نجف حمید پہ لگائے گئے الزامات میں کتنی صداقت ہے لیکن ان دونوں قصوں میں ایک بات مشترک اور قابل توجہ ہے کہ اقتدار کی مدت بہت قلیل ہوتی ہے ۔یہ قلیل مدتی عہدے اللہ کریم کی طرف سے انسان کا امتحان ہوتے ہیں کہ انسان عوام الناس کی فلاح کا باعث بن کر ان میں آسانیاں تقسیم کرکے ان کے دلوں میں تادیر اچھی یادوں اور دعاؤں میں زندہ رہتا ہے یا کسی کی پریشانیوں کا موجب بن کر اللہ کے ہاں اس کا مجرم بنتا ہے۔ اقتدار کی کرسی پانی کے بلبلے کی طرح ہوتی ہے پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کتنے وزیراعظم اقتدار کی مسند سے اتر کر سیدھے جیل میں پہنچے کتنے مغرور سر وقت نے یوں جھکائے کہ وہ خود سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہ رہے۔اس قلیل مدتی عہدے کے زعم میں کتنوں نے اپنے پروقار خاندانی پس منظر کو داغدار کردیا ۔ہر اسٹیک ہولڈر کو تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنے عہدے کی پاسداری آئین پاکستان سے دئیے گئے حلف نامے کے مطابق کرنی چاہئیے وقت کا دھارا بہت تیزی سے بہتا ہے۔ ہر گزرا دن تاریخ کے صفحوں پہ واقعات کی صورت میں تحریر ہورہا ہے آنے والی نسلیں جب اسے پڑھیں گی تو باآسانی جان جائیں گی کہ آپ نے کیا بویا تھا آپ نے کیا کاٹا؟؟

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.