چھوٹا کسان اور اوارہ جانور: ایک خاموش اذیت

 


چکوال کی بات

 کالم  3

از قلم: بابا بشیر

03008496280

19مئی 2025


چکوال کا دیہی معاشرہ، جو 87 فیصد آبادی پر مشتمل ہے، ہمیشہ سے محنت، خود داری، اور سادگی کی علامت رہا ہے۔ یہاں کا چھوٹا کسان اپنی محدود زمین، محدود وسائل، اور وسیع تر خاندانی ذمہ داریوں کے ساتھ زندگی کی گاڑی کھینچتا ہے۔ مگر آج وہ ایک ایسے خاموش مگر شدید مسئلے کا شکار ہے جس پر بات کرنا ضروری ہو گیا ہے—اور وہ ہے اوارہ جانوروں کا کھلے عام پھرنا۔


ہر سال گندم کی کٹائی کے بعد،  چند غیر ذمہ وار اور بے شعور دیہاتی  اپنے جانور جیسے کہ گدھے، بکریاں، اور دیگر مویشی، کھلے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ جانور خاص طور پر گدھے کھیتوں میں اور گلیوں میں اوارہ مٹر گشت کرتے ہیں،، اور بعض اوقات اندھے کنوؤں میں گر کر ہلاکت کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ ان کا یہ بے قابو گھومنا صرف کسانوں کے لیے مالی نقصان کا باعث نہیں، بلکہ گاؤں کے اجتماعی سکون کو بھی متاثر کرتا ہے۔


سب سے زیادہ متاثر وہ کسان ہوتا ہے جس کی زمین چند کنالوں پر بٹی ہوتی ہے—کبھی ایک کھیت گاؤں کے اس طرف، تو دوسرا کسی اور طرف۔ وہ کہاں کہاں رکھوالی کرے؟ یہی وجہ ہے کہ وہ کئی اہم فصلیں، جیسے مونگ، مونگ پھلی، مکئی، یا باجرہ، کاشت کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ اس سے نہ صرف اس کی ذاتی آمدنی متاثر ہوتی ہے بلکہ دیہی معیشت بھی کمزور ہوتی ہے۔


بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ دیہات میں رشتہ داریاں اور خاندانی ناتے اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ بعض اوقات لوگ تکلیف سہہ کر خاموش رہتے ہیں۔ کوئی پہلا پتھر نہیں پھینکتا، اور مسئلہ سلگتا رہتا ہے۔ مگر سوشل ورکرز اور فلاحی ادارے وہ لوگ ہوتے ہیں جو معاشرتی خاموشی کو توڑتے ہیں۔ وہ پہلا قدم اٹھاتے ہیں—اور یہی پہلا پتھر تالاب میں لہریں پیدا کرتا ہے۔پتھر خود ڈوب جاتا ہے مگر اپنے اثرات چھوڑ جاتا ہے


یہ وہ مقام ہے جہاں ایک اور نکتہ بطور گواہی آتا ہے۔ چکوال ایک ایسا ضلع ہے جس نے ملک کو ہزاروں فوجی دیے ہیں، جن میں شہداء اور غازیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ ان شہداء کی قبریں چکوال کے ہر  گاؤں کے قبرستانوں میں کثیر تعداد میں موجود ہیں، جن پر سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں، اور جن پر ہر سال ان کی یونٹ کی طرف سے سلامی دی جاتی ہے۔ جب جانور انہی قبرستانوں میں بے روک ٹوک گھومتے ہیں، تو وہ صرف ایک زمینی مسئلہ نہیں رہتا، بلکہ ایک قومی احساس کا سوال بن جاتا ہے مسئلے کی جڑ یہی  چند غیر ذمہ وار اور بے شعور دیہاتی ہیں


یہ مسئلہ کسی نئی قانون سازی کا محتاج نہیں—ایک پرانا مقامی قانون موجود ہے، جس کے تحت اوارہ جانوروں کو سرکاری تحویل میں لیا جا سکتا ہے، اور ان کے مالکان کو سزا اور  جرمانہ وصول کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت صرف اس قانون پر عملدرآمد کی ہے۔


میری اپیل ہے کہ محترمہ ڈپٹی کمشنر چکوال اور ان کی انتظامی ٹیم فوری طور پر اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے۔ مقامی یونین کونسلز، اسسٹنٹ کمشنرز، اور فلاحی ادارے بھی اس عمل میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ چھوٹا کسان سکھ کا سانس لے، فصلیں محفوظ ہوں،قبروں کی حرمت کی حفاظت ہو اور معاشرہ ایک مثبت سمت میں بڑھے۔

یہ ایک سادہ سی دردمندانہ درخواست ہے— صرف اصلاح کی کوشش۔ آئیں، اس اجتماعی مسئلے کو اجتماعی سوچ سے حل کریں۔

 بابا بشیر چکوال

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.