خود احتسابی
شفیق ملک
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ جہاں ایک طبقہ خیر و برکت اور اللہ تعالی کی رحمتیں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے وہیں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس مہینے کو غنیمت جان کے اپنے کاروبار کا سارا مندا نکال لینے کے چکر میں ہوتاہے۔ اس مہینے میں دیگر بہت سی بے اعتدالیوں کے ساتھ کھانے پینے میں بھی کسی احتیاط کو خاطر میں نہیں لایاجاتا،عام افراد تو کجا اچھے خاصے متمول لوگ بھی نمود ونمائش کے چکر میں بے پناہ فضول خرچی کے مرتکب ہوتے ہیں تاجرحضرات سیل اور عید کے نام پہ نیا مال أیا ہے کہ کے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں جوتوں اور کپڑوں پہ لاکھوں لٹا دیے جاتے ہیں سادگی کس چیز کا نام ہے ہماری بلا سے۔امپورٹڈ مال کے نام پہ اصل لوٹ مار مچتی ہے بڑے ہوٹل مالکان چونکہ دن کے وقت ہوٹل کھول نہیں سکتے اس لیے کوشش کرتے ہیں کہ شام ایسی شاندار لگائی جاے کہ اگلی پچھلی کسر نکل جاے یہ ہوٹل مالکان افطار ڈنر کی طرز پہ اپنا مینوئل ترتیب دیتے ہیں جس کا ریٹ عمومأ دو ہزار سے دس ہزار فی کس کے درمیا ن ہوتا ہے اس ڈنر میں انسانی کھانے کی تقریبأ ہر ڈش شامل کردی جاتی ہے اب یہ فیشن یا اسٹیٹس سمبل بنتا جا رہا ہے کہ جو ہوٹل زیادہ مہنگا ہوگا وطن عڑیز کا ایک خا ص طبقہ اس طرف زیادہ لپکے گا ہمیں بھی گذشتہ روز ایک ایسے ہی خاص قسم کے دیوان پہ افطار بلکہ افطار ڈنر میں شرکت کا اتفاق ہوا تفصیل جس کی کچھ یوں ہے کہ ہم پانچ صحافی دوستوں کا ایک گلدستہ ٹائپ گروپ ہے مدعاجس کا مگر یہ ہے کہ نا صرف خود پانچوں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں بلکہ دیگر کسی دوست کی خوشی غمی میں شرکت کرنی ہو تو بھی یہ پانچ غیرت مند اکٹھے شریک ہوتے ہیں غیرت مند اس گروپ کانام ہے جس کی تفصیل یہ کہ ایک دو دفعہ لگاتار کسی ایک دوست نے ہی کھانا کھلایا تیسری بار گروپ میں موجود دو راجے غیرت کھا گیے کہ بس جناب اب کی بار بل ہم دیں گے ہم کوئی غیرت سے خالی ہیں سو اس دن سے گروپ کا نام ہی غیرت مند گروپ پڑ گیا اس گروپ کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ نا صرف ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے بلکہ ایک دوسرے کی بھرپور معاونت بھی کی جاتی ہے گروپ کی سب سے بڑی عیاشی کسی مشترکہ دوست کی غمی خوشی کے موقع پر آتے یا جاتے ہوے کسی پرفضا مقام پہ ناشتہ یا کھانا کھایا جاتا ہے جس کی باقاعدہ ترتیب بنای گی ہے اس کے علاوہ مہینے ڈیڑھ بعد کوی نا کوی دوست جوش غیرت آکر دعوت کا اہتما م کر دیتا ہے ایسے ہی غیرت مند گروپ حسب معمول اپنی مددآپ کے تحت تلہ گنگ روڈ پر واقع ایک بڑے ہوٹل میں افطار ڈنر کرنے پہنچا ڈنر کا اہتما م ہوٹل کے وسیع وعریض اور نہایت خوبصورت لان میں کیا گیا تھا یہاں فی کس کے حساب سے اچھا خاصا ریٹ چارج کیا جا رہا تھا لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی جبکہ مزید آمد کا سلسلہ جاری تھا لوگ اپنی اپنی میزوں کے گرد بیٹھتے گئے تھوڑی بعد غالبأ افطار سے پندرہ منٹ پہلے اناؤنسمنٹ ہوئی کہ احباب افطاری کاسامان بو فے سے لے کر اپنے ٹیبل پہ رکھ لیں اور یہاں سے اصل پارٹی شروع ہوی روزہ داروں نے کھانا یوں پلیٹوں میں اس اسپیڈ اور مقدارسے ڈالا جیسے آج کی افطاری نہیں بلکہ ہفتے بھر کی سحری بھی یہیں کرنے کا ارادہ ہے یہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی بندہ امیر ہو یا غریب چھوٹا ہو یا بڑا اس کے سامنے راشن آجاے بھلے کچا ہو یا پکا، وہ کھا سکے یا نا کھا سکے، اٹھا اتنا ضرور لے گا جتنا وہ اٹھاسکتا ہے چند ایک دور بیٹھ کے رش چھٹنے کا انتظا ر کرتے رہے لیکن اکثریت اسی چکر میں تھی کہ پہلی دفعہ ہی یہ معرکہ فتح کرنا ہے اور چندایک نے تو جلدی میں روزہ کھول بھی دیا اوور اسپیڈ میں سمجھ ہی نا آی کہ ابھی وقت باقی ہے افطار کے بعد ساتھ ہی نماز کا اہتمام تھا جبکہ اس کے بعد کھانا اور کھانا لگانے سے کھانے تک یار دوستوں نے پانی پت کا معرکہ بناے رکھا جب سب کے بیٹ بھر گئے اور ایک نوالے کی بھی کسی کی گنجائش نا رہی تو لوگ اٹھنا شروع ہوے جس کے بعد ہم نے دیکھا کہ جہاں چار لوگ بیٹھے تھے وہاں اتنا کھانا بچا پڑاتھا جو دس لوگوں کو کافی رہتااور جدھر پانچ چھ لوگ بیٹھے تھے وہاں چودہ پندرہ لوگوں کا کھانا بچا پڑا تھا بل کی ادائیگی کے باوجود رزق کے یوں ضیاع پر ہمیں خود بڑی ندامت ہوئی کہ یہ کتنا بڑا ظلم اور زیادتی ہے کہ کچھ لوگوں کو تین کیا دو وقت کا کھانامیسر نہیں اور کہاں رزق اور کھانے کی یوں بربادی اور تذلیل۔تمام دوستوں نے اس بات کو شدو مدسے محسوس کیا کہ آئندہ اس قسم کا بے ہودہ کوئی پروگرام نہیں بنائیں گے، کیا ہی اچھا ہو کہ اس مبارک مہینے میں ہر شخص خود احتسابی کے عمل کو تیز کرے اس پہ توجہ دے اور ایسی پارٹیوں اورافطارڈنرز کی حوصلہ شکنی کرے اگر صرف پیٹ کی بھوک مٹانا ہو تو ایک پلیٹ چاول ڈیڑھ دو روٹیاں کافی ہیں لیکن آنکھوں کی بھوک غلے سے بھرا گودام اور بڑے سے بڑا دستر خوان بھی ختم نہیں کرسکتا،اور آخری بات اللہ کی راہ میں دینا شروع کیجئیے آنا شروع ہو جائے گا۔
کوئی تبصرے نہیں