مدد یا دکھاوا؟


قدیر حسین

 19ویں صدی کی آخری دہائی، رمضان کا مقدس ماہ ہے اور دیہاتی زندگی۔ دیہاتوں کی زندگی ہمیشہ سے منفرد رہی اورابھی بھی ہے مگر بہت کچھ بدل چکا۔ راقم الحروف کا تعلق شایددیہات سے ہے تب دیہاتی زندگی اورخصوصاً وہاں گزراماضی اچھا لگتا ہے مگر اِک محسن کے بقول ماضی کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو انسان کوحسیں لگتا ہے شاید کچھ یادیں،واقعات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کبھی نہیں بھول پاتا۔


 خیر!تب موبائل،ٹیکنالوجی،حتیٰ کہ زیادہ دیہاتی علاقوں میں بجلی کی سہولت بھی میسر نہ تھی۔ سحری کیلئے بزرگ خواتین،دادیاں،نانیاں سب سے پہلے بیدار ہوتیں۔ زیادہ ترمکان کچے ہی تھے اور دیواریں بھی آج کی بہ نسبت اتنی اونچی نہ ہوتیں حتیٰ کہ دروازوں کاانتظام بھی بہت کم تھا۔بزرگ خواتین کے بیدار ہونے کے بعد گھر کی دیگر خواتین بھی سحری کی تیاری شروع کردیتیں۔دادیاں،نانیاں اپنی اپنی دیوارسے ہمسائیوں سے دہی،سالن،روٹی کے تبادلہ میں لگی ہوتیں اوردوسرے گھر والی خواتین بھی بدلے میں خالی پلیٹ کبھی نہ بھیجتیں مطالبہ یہ ہوتا کہ ”میرالاڈلاپپوسحری میں دال نہیں کھاتا توتم نے کیا بنایا ہے؟جوبنایا ہے دیدواور دال لے لو۔اگلے گھر والی خاتون چاہے گھر کے کسی فرد کو پسند ہوتا یا نہ ہوتا پھر بھی ہمسائیگی اور دل رکھنے کیلئے کہہ دیتی ہاں ہاں۔ماں جی!میراپتر دال بہت شوق سے کھاتا ہے۔لیں دال دیدیں اورسبزی لے لیں“۔تب شکر اور دیسی گھی ہرگھر کی مرغوب غذاتھی جسے سحری میں ہرصورت شامل کیاجاتا خصوصاً گھر کے نوجوانوں کو مائیں زبردستی کھلاتیں۔ سحری کے بعد بزرگ،نوجوان اوربچے مسجدوں میں فوراً پہنچتے۔کچھ اسی طرح افطاری کا اہتمام بھی ہوتا سادہ سی افطاری اور وُہ بھی مل بانٹ کر۔بیسویں صدی کے اوئلی سالوں میں وقت نے کروٹ لی ٹیکنالوجی،ترقی کیساتھ معاشروں میں بہت کچھ بدلا۔ کچھ روایات تب کے بزرگوں کی آہستہ آہستہ ہمیشہ کیلئے رُخصتی کیساتھ ہی دم توڑنا شروع ہوگئیں۔مسجدیں بھی وسیع ہوگئیں اور نمازی بھی اُجلے کپڑے اور سرپر سفید ٹوپی پہنناشروع ہوگئے لیکن من،ماحول،رویے پہلے سے نہ رہے۔بڑی بڑی افطار پارٹیاں اوردسترخوان بھی سجناشروع ہوگئے ہرصاحب استطاعت کی جانب سے افطار پارٹیوں اور دستر خوان کا اہتمام بھی ہونے لگا، لیکن اپنائیت کی جگہ دکھاوے نے خوب شہرت حاصل کی۔خصوصاً مستحقین میں رمضان راشن تقسیم اور دسترخوانوں پر مستحقین کے افطار کیساتھ ہی ویڈیو بنانااورکیمروں سے تصاویر اکثرصاحب استطاعت حضرات کامشغلہ بن چکا ہے۔


 گزشتہ روز ایک بہت ہی قریبی دوست جوکہ ہرسال شہر اقتدار کے ایک سیکٹر میں رمضان دسترخوان کا انعقاد کرتے ہیں نے دعوت دی اور کہا کہ ہمارے اس کارواں میں شامل ہوں جب دسترخوان سجادیکھا توخوشی ہوئی کیونکہ مہنگائی کے اس دور میں کسی بھوکے کوروزانہ کھانا کھلانا خاصا مشکل ہوگیا ہے لیکن جونہی صاحب بہادر نے موبائل سے دسترخوان پر بیٹھے مستحقین کی ویڈیوبناناشروع کی جوکہ ان کا بھی مشغلہ بن چکا ہے کہ فوراًویڈیوبنائی بیک گراؤنڈ میں کوئی نعت کا آڈیو لگایا اور ڈال دی سوشل میڈیا پر۔توفوراًراقم نے کہا کہ برادر اکبرآپ کے سارے انتظامات اور جذبے کو سلام ہے لیکن یہ کام ٹھیک نہیں۔خاصی بحث ومباحثہ کے بعد آخر کار دوست مان ہی گئے اِن کا موقف تھا کہ ٹھیک ہے ویڈیو نہیں بنانی چاہیے لیکن اس سے دوسرے لوگوں میں بھی نیکی کا جذبہ ابھرتا ہے لیکن بندہ ناچیز کا موقف تھا کہ ہم جس سوسائٹی میں رہ رہے ہیں یہاں ایسا ناممکن ہے اور دسترخوان پر بیٹھا شخص کتنا ہی مجبور کیوں نہ ہوکسی کوکوئی پرواہ نہیں لیکن جب کبھی بھی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پراس کے جاننے والے یا عزیزواقارب کی نظروں سے گزرے گی تووُہ کچھ اور ہی مطالب نکالتے رہیں گے۔خیر۔بھلا ہوہمارے دوست نے ہمارا بھرم رکھ لیا اور عہد کیا کہ آئندہ ویڈیوبناکر سوشل میڈیا پر نہیں لگائی جائے گی ہاں صرف دسترخوان یاکھانے کی تصویر توٹھیک کسی کے چہرے کو ویڈیو میں نہیں لایاجائیگا۔راقم الحروف نے ہمارے آبائی ضلع چکوال کے ایدھی اورسماجی شخصیت محمد غفران عمرجو کہ طویل عرصے سے نہ صرف رمضان بلکہ ہرمشکل گھڑی اور وطن عزیز کے ہرکونے کے مستحقین کی مدد میں آگے ہوتے ہیں کا ذکر کیا کہ ہزاروں لوگوں کی مدد کے باوجود وُہ کسی کے چہرے کو سامنے نہیں لاتے اور حقیقی مدد بھی یہی ہے۔سوشل میڈیا کا اِک اچھا پہلو یہ ہے کہ گزشتہ دو سال سے راشن تقسیم اور سیلفی مافیا کی خوب درگت اور حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جوکہ خوش آئند ہے لیکن حکومتی سطح پر آٹے کا20کلو کا تھیلا دینے والے پانچ افراد کا سر اونچا کالی عینکیں،دمکتے چہرے اور ان پانچ سے وصول کرنیوالے کی نظریں جھکی ہوتی ہیں اس کے باوجود فوٹو گرافر سے تصویر بنواکر فوراًسوشل میڈیا اوراپنی اعلیٰ قیادت کیساتھ شیئر کی جاتی ہیں کہ دیکھیں ہم نے سرکاری آٹا تقسیم کرکے جس کے پیچھے بیچارے اسی غریب کا ٹیکس ہے کی تصویر ساتھ لگاکر ثابت کررہے ہیں کہ ہم کتنا کام کررہے ہیں لیکن حقیقت میں آپ کسی کی مدد نہیں کررہے بلکہ کسی کی عزت نفس کو تار تار کررہے ہوتے ہیں اوریہ کام دیہاتوں میں بھی خوب عروج پرہے۔ اجتماعی طور پر ہم عوام توسیلفی پسند ہیں ہی ہمارے سیاسی لیڈران ہم سے بھی بڑے سیلفی پسند ہیں لیکن صرف سیلفی کی حد تک۔90ء کی آخری دہائی میں ٹیکنالوجی تونہ تھی،لوگ بھی سادہ تھے مگر کسی کی مدد کا اتنا پرچار نہیں تھا جتنا آج کے مہذب انساں کررہے ہیں۔


آخر میں صاحب استطاعت حضرات اور خصوصاًحکومتی ترجمانوں سے دست بستہ التماس ہے کہ مدد ضرور کریں لیکن کسی کا چہرہ دکھائے بغیر۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو(آمین)

..........................

کوئی تبصرے نہیں

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©2024 ڈھڈیال نیوز
تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.