جسمانی سزاؤں پر مکمل پابندی کے لیے قانون سازی عمل میں لائی جائے، چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک
پنجاب کے 18 مختلف اضلاع میں بچوں کے تحفظ پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظموں کے اتحاد چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک،پاکستان نے بچوں کو جسمانی سزاؤں کے خاتمے کے عالمی دن (30 اپریل) کے موقع پر صوبہ پنجاب میں تعلیمی اداروں میں بچوں دی جانے والی جسمانی سزاؤں کی مکمل ممانعت کے لیے جامع قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔ چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک کی ترجمان کے مطابق اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوق اطفال کا آرٹیکل 19 بچوں کو ہر طرح کے تشدد، بدسلوکی اور نظر انداز کیے جانے سے تحفظ فراہم کرنے پر زور دیتا ہے۔ اسی کنونشن کا آرٹیکل 37 فریق ریاستوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ کسی بھی بچے کو تشدد یا دیگر ظالمانہ سلوک، غیر انسانی اور توہین آمیزی پر مبنی سزا نہیں دی جائے گی۔ اہداف برائے پائیدارترقی کے ٹارگٹ 16.2 کے مطابق بچوں کے خلاف ہونے والے تشدد کی تمام تر شکلوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک کی ترجمان نے صوبہ سندھ، خبیر پختونخوہ اور اسلام آباد میں صوبائی اور علاقائی قانون سازی کے ذریعے بچوں کی جسمانی سزاؤ ں پر پابندی کو خوش آئندقرار دیا، چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک نے محکمہ تعلیم پنجاب کی جانب سے 2018 میں محکمہ جاتی حکم نامے کے ذریعے تمام سرکاری اور نجی اسکولوں میں جسمانی سزاؤ ں پر پابندی عائد کرنے کے عمل کو بھی اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے پنجاب کی صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ صوبہ پنجاب میں سرکاری، نجی اور مذہبی تعلیمی اداروں میں بچوں سے جسمانی مار پیٹ کی موثر روک تھام کے لیے "The Punjab Prohibition of Corporal Punjishment Act" منظور کیا جائے۔ بچوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی ترجیح ہونا چاہیے۔ چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک کی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ جسمانی سزاؤں کے خاتمے کے لیے قانون سازی صرف ایک قدم ہے تاہم اس مسئلے کے تدارک کے لیے مار پیٹ کے متبادل طریقہ ہائے کار پر اساتذہ کرام کی استعدادکاری ناگزیر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بچے بڑوں کی باتوں کی بجائے ان کے عمل سے زیادہ سیکھتے ہیں جب بچے اپنے قریبی افراد کو تشدد اور توہین آمیزی پر مبنی رویوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ایسا کرنا بچوں کی پرورش پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ مزید یہ کہ جسمانی اور توہین آمیز سزائیں بچوں میں ذہنی خرابی صحت، بشمول رویے اور اضطراب کی خرابی، ڈپریشن، نااُمیدی، کم خوداعتمادی، خود کو نقصان پہچانے اور خودکشی کی کوششیں، شراب اور منشیات پر انحصار، دشمنی اور جذباتی عدم استحکام، جو جوانی تک جاری رہتا ہے، کی طرف بھی لے جاتی ہیں۔ چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک کے مطابق اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے حقوق اطفال کی جانب سے 2006 میں جسمانی اور دیگر ظالمانہ و توہین آمیزسزاؤں سے بچوں کا تحفظ پر تفصیلی جنرل کمنٹ نمبر 8 جاری کیا گیا تھا۔ اس اہم دستاویز میں کمیٹی نے بچوں پر تشدد اور تذلیل کے تمام تر جوازوں کو مسترد کیا تاہم مثبت انداز میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کی اہمیت سے انکار نہ ہے۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے حقوق اطفال نے بچوں کی جسمانیسزاؤں کے خاتمے کے لیے موثر قانون سازی کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی مہمز مسلسل بنیادوں پر چلانے کی تجویز دی ہے تاکہ جسمانی سزاؤں کے بچوں کی شخصیت پر اثرات سے عوام الناس کو آگاہ کیا جاسکے۔
(Amjad Hussain
President
DHEWA development for health education work and awareness welfare society chakwal)
کوئی تبصرے نہیں